تحریر: ڈاکٹر نگہت نسیم
دوہزار چودہ کا سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب میری والدہ ماجدہ محترمہ رقیہ بیگم حیات تھیں اور اسی سال کا سب سے خالی اور اداس کر دینے والا لمحہ وہ تھا جب میری والدہ جنت مکانی ہو گئیں۔ ان کی حیات میں سوچتی تھی کیسے ان کی
نگہداشت کروں اور ان سے کیسے، ایسی محبت کروں کہ انہیں مجھ پر فخر ہو اور ان کے جہاں سے جانے کے بعد اب خود کو اس زمیداری سے بندھا دیکھ رہی ہوں کہ میں پہلے سے بھی زیادہ کیسے ان سے محبت کروں کہ انہیں اس جہاں میں بھی مجھ پر فخر ہو۔ بے یقینی کی سی کیفیت ہے اور ان کو گئے پورا ایک ماہ ہو چکا ہے ۔ 29 نومبر 2014 ، لندن کے صبح 8 بج کر 16 منٹ پر امی جی مجھ سمیت ، دلشاد نسیم ، شہزاد نسیم ، افضال نسیم ، نزہت نسیم ، شاہد نسیم ، جاوید نسیم اور عاصم نسیم کو صدقہ جاریہ کی زمیداری سونپ کر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔
مجھے ان کی حیات میں حالات کی سنگینی کا احساس اس درجہ نہیں رہتا تھا جس درجہ آج کل رہتا ہے ۔ شاید ماں کی دعائیں سارے برے منظروں پر پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔ میری بیٹی آمنہ اکثر میرے گلے سے لگی مجھ سے کہتی رہتی تھی ” امی جان میں آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی “ ۔۔ اور میں سوچا کرتی تھی میری بیٹی کتنا سچ کہتی ہے ۔۔ میں بھی تو اپنی ماں کے بغیر جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ کل جب وہ میرے گلے سے لگی یہی بات کہہ رہی تھی تو مجھے لگا جیسے مجھے اسے بتانا چاہیئے کہ کبھی یہ تصور کرنا پڑ جائے تو یقین کر لینا ۔۔۔ میری طرح بھٹکتی مت رہنا ۔۔ میری خاموشی پر اس نے آنسوؤں سے بھری آواز میں کہا ” امی جان میں آپ کےلیئے کچھ بھی کر سکتی ہوں ” ۔۔ میں نے آمنہ کو گلے سے لگا لیا اور بہت پیار کیا ۔۔ بلکل ایسے ہی جب میں 29 اگست 2014 کو اپنی ماں سے رخصت ہونے کی اجازت لے رہی تھی اور کہہ رہی تھی “امی جی آپ جب جب مجھے بلائیں گی میں آ جاؤنگی ، میں آپ کے لیئے کچھ بھی کر سکتی ہوں” ۔۔ میری ماں نے مجھے کافی دیر تک گلے سے لگائے رکھا ، میرا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔ اور رندھے لہجے میں بولیں “مجھے یقین ہے کہ تم ضرور آتی رہوگی ۔ ۔۔ پر بیٹیاں اپنے گھر ہی اچھی لگتی ہے ، خوش رہو ۔ جاؤاللہ کی حفاظت میں دیا “ ۔۔ اور میں اللہ پاک کی حفاطت میں اپنے گھر لوٹ آئی تھی۔
گھر لوٹ آنے کے بعد ہمیشہ سب اچھا رہتا تھا پر اس بار اچھا نہیں رہا ۔۔ بھابھی نادیہ بتا رہی تھی کہ ” باجی دلشاد نسیم اور آپ کے جانے کے بعد امی جی خاموش رہنے لگی تھیں ۔ اور ہنستی بھی کم کم تھیں” ۔ امی جی کا ہنسنا تو اس دن سے ہی کم کم ہو گیا تھا جب سے میرا پھوپھی زاد اور میری لاڈلی بہن دلشاد نسیم کا رفیق سفرخالد محمود اپنی 45 ویں سالگرہ سے پہلے ہی 28 فروری2012 میں رخصت ہوگیا تھا ۔ امی جی عرصہ دس سال تک جوڑوں کے درد کا شکار رہیں اور شدید تکلیف کے باعث آخری 5 برسوں سے چلنے پھرنے اور سفر سے معذور ہو چکی تھیں ۔ انہیں بہت قلق تھا کہ وہ دلشاد کے اس سانحہ عظیم پر اس کے ساتھ تسلی کی طرح شامل نہیں ہو سکی تھی ۔ اکثر مجھ سے کہا کرتیں ” میری بیٹی کیا سوچتی ہو گی میری ماں کو میرے غم کی خبر ہی نہیں ، میرے پاس پہنچی نہیں ۔۔ ہائے گلے تک نہ لگایا آ کر “ ۔۔ میں انہیں فون پر بہت تسلیاں دیتی ، سمجھاتی پر وہ نہ بہل سکیں اور شدید بیمار ہوگئیں مجھے دلشاد کو پرسہ دے کر فورا ہی امی جی کی دلجوئی کے لیئے لندن جانا پڑا۔۔
میری امی جی کا خیال تھا کہ میں ہر بات اللہ پاک سے منوا سکتی ہوں اور اس نا ممکن کو ممکن کر سکتی ہوں کہ دلشاد ، لندن ان کے پاس آ ئے اور وہ انہیں گلے لگا کر تسلی دیں اور خوب روئیں ۔ ۔۔ تین برس کچھ ایسے رہے کہ ادھر دلشاد کا ویزہ نہ لگتا تھا اور ادھر میری ماں کی بے قراری کو پر لگے ہوئے تھے ۔ دلشاد کی تصویر کو چومتی جاتیں اور روتی جاتیں اور آہ بھر کر کہتیں ” جو سوہنے رب دی مرضی “ ۔۔۔ وہ جو سب کا سوہنا ہے وہ میری ماں کو سب سے سوہنا لگتا تھا ۔ دن رات اس کی حمد و ثنا کرتیں ، اس کی رضا میں راضی میری ماں بڑی شاکر تھی ۔ کبھی جو شکوہ کیا ہو ۔۔ نہ کبھی اپنی تنگ دستی کا ، ابا جی کی سماجی اور دینی مصروفیات میں نا کبھی اپنی تنہائی کا ، نا کبھی اپنی مشکلات کا جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد میں اٹھائی تھیں ، اور نہ ہی اس جدائی مسلسل کا جو انہوں نے اپنی برسوں پر محیط لاچاری اور معذوری کے سبب دلشاد اور دوسرے بہن بھائیوں سے دور رہ کر کاٹی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے کٹھن حالات سے صبر اور شکر سے گزارنے کے بعد ان کے چہرے پر ہر وقت ایک نور سا رہنے لگا تھا۔۔۔
میری ماں انتہائی صابر تھیں ۔۔ انہوں نے سانحہ ایسٹ پاکستان 1971 میں اپنا گھر بار سب لٹا دیا تھا پر انہوں نے آخری سانس تک کبھی گلہ نہیں کیا ۔ عام عورتوں کی طرح عیش و آرام اور دولت زیوروں کو کبھی یاد نہیں کیا ۔۔ ہمیشہ کہتیں جو اپنے فضل سے دے سکتا ہے اسے پورا ختیار ہوتا ہے جب چاہے لے بھی لے ۔ وہ ایک ڈھارس کی طرح غربت میں سارے کنبے کو اپنے پروں میں سمیٹ کر بیٹھی رہیں۔
میری ماں انتہائی شفیق اور مہربان عورت تھیں ۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں پالا بلکہ اپنے دیوروں اور نندوں کو بھی بہن بھائیوں کی طرح پالا اور ان کی شادیاں اپنے ہاتھوں سے انجام دیں ۔ حتی کہ ان وہ مقام بھی اللہ تعالی نے عطا کیا کہ میری جنت مکانی چچی خالدہ جنہیں میری ماں سے ماں اور بہنوں جیسا پیار تھا وہ کسی کو ان کی جگہ بیٹھنے نہ دیتیں تھی کہ پہلے میری آپا جیسی بنو پھر ان کی جگہ پر بیٹھنا۔
میری ماں ایک بہادر خاتون تھیں ۔ جب میں نے ڈاکٹر بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو میری ماں پورے خاندان سے ٹکرا گئیں ۔ مجھے پڑھائی کے لئے ہوسٹل رہنا پڑنا تھا جس کے لئے کوئی راضی نہ تھا ۔ اس وقت صرف میری ماں نے مجھ پر بھروسہ کیا تھا اور اپنی دعاؤں کے آنچل کو مجھ پر پھیلا دیا ۔ انہوں نے چلتے وقت صرف ایک بات کہی “ نگہت ایک بات دھیان میں رکھنا تم اس خاندان کی لڑکیوں کے لئے بارش کا وہ پہلا قطرہ ہو جو گلشن کو مہکا بھی سکتا ہے اور اجاڑ بھی سکتا ہے ۔ تم اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے راستے کھول بھی سکتی ہو اور ان کے راستے بند بھی کر سکتی ہو “
میری ماں نے ہم بہنوں کو مہر و وفا اور خدمت گزاری کا سبق دیا ۔ میں جب سسرال کے لئے گھر سے رخصت ہوئی تو میری ماں نے مجھ سے کہا بیٹی میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔۔” اگر تمہارے سسرال والے تمہیں کم کھلائیں تو یہ سمجھنا کہ انہوں نے بھی کم ہی کھایا ہو گا اور وہ تمہیں تمہاری حثیت سے کم رکھیں اور کم درجہ کا پہنائیں تو یقین رکھنا ، انہوں نے تم سے بھی کم درجے کا پہنا ہو گا “ ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے نم آنکھوں سے کہا تھا “ تم گھر داری کا ہر مقدمہ صرف مہر ومحبت اور وفا سے جیت سکتی ہو ۔۔۔۔”
امی جی گزشتہ پانچ برسوں کی معذوری میں بس ایک بات کا غم تھا کہ وہ اب خدمت گزار نہیں رہی ۔ وہ جیسے ابا جی کی پہلے خدمت کر پاتی تھیں اب نہیں کر پارہی ۔ ہم جب ان سے ملنے جاتے ہیں تو وہ بھاگ بھاگ کر ہم پر واری صدقے نہیں ہو پاتیں ۔ انہیں یہ غم بھی رہتا تھا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے ان کے پاس نہیں جا سکتیں اور ہر با ر ان کے بچوں کو ہی ان کے پاس آنا پڑتا ہے۔
لندن میں ان کی زندگی بھر کا معمول رہا ۔ صبح سویرے اٹھ جاتیں ، اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کا انتظار شروع کر دیتیں ۔۔ صبح سارے بھائی باری باری امی جی کی دعائیں لینے ان کے پاس آتے اور باتوں کے دوران ایک کپ چائے کا ان کے ساتھ پیتے اور اپنے اپنے کاموں کے لیئے روانہ ہو جاتے ، پھر اسی طرح شام کو اپنے اپنے کاموں سے واپسی پر انہیں سلام کرنے آتے اور اپنے گھروں کے کاموں میں الجھ جاتے ۔ ہم آٹھ بہن بھائیوں کو یہی گمان گزرتا کہ امی جی ہم ہی سے خاص محبت کرتی ہیں ۔ پر انہیں خاص محبت تھی ۔۔ میرے بھائی “ شاہد نسیم “ سے جسے پیار سے ہم منا کہتے ہیں ۔ انہوں نے اسی کے ساتھ آخری سانس تک رہنا پسند کیا ۔ اسی سے قران پاک سنتی تھیں ، اسی کے ہاتھ سے کھانا کھاتیں ، اسی کے ہاتھ سے کنگھی کروایا کرتی تھیں ، اسی کے ہاتھ سے ویل چیئر پر بیٹھنا پسند کرتیں ۔ اسی کو اکثر اپنے ساتھ لٹا کر بے خبر سوجایا کرتی تھیں ۔۔۔ اوردنیا سے رخصت ہونے سے دو ہفتے پہلے بھی صرف اسی کو کراچی جانے سے منع کیا تھا ۔۔ اور جب وہ ان سے جلد واپس آ جانے کا وعدہ کر کے اابا جی کے ساتھ کراچی چلا گیا تو اسے ہی اس کے خواب میں کہا “ شاہد جلدی سے گھر واپس آ جاؤ۔ مجھے ایک لمبے سفر پر جانا ہے بس تمہارا ہی انتظار ہے “ ۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کا شاہد دوڑا دوڑا واپس آیا تو اسے بھی دیر ہو چکی تھی۔۔
انہیں دلشاد سے زمینی دوری کا بھی بہت بہت غم تھا ۔ مجھے کہیں نہ کہیں یقین تھا کہ جس وقت انہیں دلشاد ملے گی وہ لمحہ ان کی حیات کوبڑھا نہ سکے گا بلکہ انہیں اتنا سکون دے گا کہ اپنے ساتھ ہی لے جائے گا ۔ دلشاد اور اس کے بیٹے حمزہ کو جولائی میں لندن کا ویزہ مل گیا اور اگست میں امی جیسے ملنے کاپروگرام بنا لیا اور میں نے امی جیسے کیا وعدہ کہ جب دلشاد آئے گی میں سڈنی سے آؤنگی اور ہم سارے بہن بھائی آپ کے سامنے ہونگے ۔ بھائی شہزاد نے اس خوشی کو یاد گار بنانے کرنے کے لیئے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی انہیں دنوں میں رکھ دی ۔ یوں اگست 2014 میں ہم سب لندن میں عرصہ 14 سال بعد ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے اپنی امی جی اور ابا جی کے ساتھ جمع ہوگئے ۔ ہم سب بہنوں ، بھائیوں ، بھابیوں اور بچوں کے لئے وہ تین ہفتے پوری حیات کے لیئے یادگار دنوں میں بدل گئے ۔ ہم نے اپنے امی، ابا جی کا جی بھر کر دیدار کیا ، ان کی محبتوں سے وضو کیا ۔ اپنے شام و سحر کو حسین ترین دیکھا ۔ امی جی جیسے تھکتی ہی نہ تھیں ۔ ہر پل ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔ سارے وہ دن اب کیمرے کی آنکھ میں محفوظ رہ گئے ہیں یا پھر ہمارے دلوں میں زندہ رہ گئے ہیں ۔ اتنا بھر پور وقت گزارنے کے باوجود بھی دلشاد 17 نومبر کو دوبارہ لندن پہنچ گئی کہ وہ آتے وقت اپنا دل وہیں چھوڑآئی تھی ، اسے امی جی کو ایک اور بار دیکھنا تھا کہ اس کا لندن کا ویزہ جنوری میں ختم ہونے والا تھا ۔۔ امی جی اچانک اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں ۔ سب بہن بھائی مطمئن تھے کہ امی جی فاطمہ کی شادی کے بعد اس دن مسکرائی تھیں ۔ پر اس بات کے ٹھیک دو دن بعد امی جی نومبر کی سردی سے بیمار ہوگئیں اور 20 نومبر کو انہیں نیو ہیم ہوسپٹل داخل کروا دیا گیا۔ انہیں نمونیا ہو گیا تھا اور دوا کام نہ کر رہی تھی۔۔
انہیں دنوں 26 نومبر 2014 کو اچانک ابا جی کو پاکستان میں ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہاں میرے بھائی افضال اور شاہد ان کے گرد چکر کاٹ رہے تھے اور یہاں لندن میں امی جی کے گرد شہزاد ، عاصم اور جاوید ۔۔ باقی ہم تینوں بہنیں اور بھابیاں ۔۔ دیوانہ وار سوچ رہی تھیں کہ اب کیا ہو گا ۔۔ امی جی اور اباجی ایک ساتھ بیمار ہوسپٹل میں داخل تھے ۔۔ ہم سب اجڑے اجڑے سے یہاں سے وہاں بوکھلائے پھر رہے تھے ۔ 28 نومبر 2014 کو میں سب سے پوچھ رہی تھی کہ میں اباجی سے ملنے پاکستان جاؤں کہ لندن امی جی سے ملنے جاؤں ۔۔۔ اس دن میںآمنہ کے گلے لگ کر بہت روئی اور پوچھتی رہی کہ میں کیا کروں۔۔ ؟ ۔۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ” امی جان آپ یہ فیصلہ کل کیجئے گا ” ۔۔ اور آنے والے دن یہ فیصلہ بھی ہو گیا ۔۔۔۔دلشاد نے مجھے لکھ بھیجا کہ اس کا دل “سب اچھا ہے “ نہیں کہہ رہا ۔۔ اس لیئے جلد از جلد لندن پہنچوں۔۔۔۔۔۔۔۔
بروز ہفتہ 29 نومبر 2014 کو دوپہر ساڑھے تین بجے ملائیشین ایر لائن سے میں لندن کے لیئے روانہ ہو چکی تھی ۔ ۔۔ دل کی عجیب حالت تھی ، وا ہموں میں گھرا میرا دل دھڑک ضرو رہا تھا پر چلتا ہوا نہ لگتا تھا ۔ مسلسل سلامتی کے ورد نے میرے سامنے، میری پوری حیات کو سامنے لاکھڑا کیا ۔۔ امی جی نے مجھے بے حد ناز و نعم سے پالا تھا ، مجھے ڈاکٹر بنے دیکھنا ان کی آنکھوں کا سب سے بڑ اخواب تھا جو ان کے یقین نے سچ کر دکھایا ، ۔۔ مجھے قلمکار کے روپ میں دیکھ کر خود کو مجھ میں دیکھنا انہیں بہت اچھا لگتا تھا ۔ میری شادی انہیں کی پسند اور انتخاب سے ہوئی تھی ۔ پھر میرے بچوں میں اپنی محبت بھی ایسی رکھ دی کہ منیب ، نجیب اور آمنہ بھاگ بھاگ کر نانی ماں سے ملنے لندن چلے جاتے تھے۔
جب میں نے اپنی کتاب ” مٹی کا سفر “کا انتساب ان کے نام کیا تھا تو کتاب ان کی خدمت میں پیش کرنے لندن گئی تھی ۔ وہ اتنی خوش تھیں کہ انہوں نے کتاب کا پیش لفظ اپنی آواز میں ریکارڈکروایا ۔۔ اور اس دوران کتنی ہی بار ان کی آواز میں نمی آ جاتی رہی تھی ۔ انہوں نے میری ہر کتاب کی تقریب میں شرکت کی تھی ۔۔ مجھے ریڈیو ، ٹی ویپر کام کرتا دیکھتیں تو بہت بہت خوش ہوتیں جیسے ان کا اپنا خواب پورا ہوگیا ہو ۔ انہوں نے مجھے بام عروج پر اپنی حیات میں دیکھا تھا پر ہمیشہ سمجھاتی رہیں کہ “عورت کے لیئے پہلے اس کا گھر اور اس کی زمیداری ہوتی ہے پھر کوئی اور کام ہوتا ہے “ ۔۔ ساری عمر ان کی اس بات پر عمل کرتے گزر گئی۔۔
امی جی میرے لیئے سپہ سالار کی طرح تھیں جو ہر مشکل وقت میں میرے سامنے ڈھال ہو جاتیں۔۔ مجھے کبھی پیسوں کی ضرورت پڑجاتی ، جانے کہاں سے جادو کی چھڑی گھماتیں اور سیف سے جتنے پیسے چاہیئے ہوتے نکال کر لے آتیں اور میں حیرانی اور خوشی سے ان سے لپٹ جاتی ، ایسے میں وہ میری سب سے اچھی سہیلی ہوجاتیں ۔ انہوں نے مجھے غریبی ، امیری میں رہنے کے ہنر سکھائے تھے ۔ انہوں نے مجھے صبر او رضا میں راضی رہنے والا، شکرگزار بنایا تھا ۔ وہ بہترین مشورہ ساز اور غمگسار تھیں ۔۔ بچوں کو نصیحت کرنے کے لیئے انہیں پہلے ایک ٹافی دیا کرتیں اور پھر کوئی نصیحت ، دعا کے ساتھ کرتیں ۔۔ نماز کی تلقین ، بڑوں کا ادب ، مل جل کر رہنے کے سلیقے ، برداشت اور تحمل کے قرینے سب انہوں نے ہم سب میں جیسے حلول کر دیئے تھے۔
میری شکر گزاری کو ازن باریابی عطا ہوامی جی۔۔ میں جہاز کی سیٹنمبر 74 ڈی پر بیٹھی آنکھیں بند کیئے بے خبر رو رہی تھی ۔۔ میں نے دیکھا میری امی جی انتہائی ہشاش بشاش سی مجھے خدا حافظ کے لیئے ہاتھ ہلا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں “نگہت میں اب تمہارا اور انتظار نہیں کر سکتی ، اس کو دیر ہو جائے گی “۔۔ میں جونہی ان کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھتی ہوں ، وہاں میری جنت مکانی چچی خالدہ کھڑی مسکرا رہی تھیں ۔۔” میں نے بے قراری سے کہا “سہیلی بس یہیں تک کا ساتھ تھا ، میرا انتظار تو کیا ہوتا :”۔۔ امی جی نے مسکرا کر پیار سے مجھے دیکھا اور کہا “نہیں بیٹی اور انتظار نہیں کر سکتی “ ۔۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔ پھر اپنی سیٹ سے کھڑی ہوگئی ۔۔ بے قراری بڑھی تو جہاز کے پچھلے حصے میں آ کر کھڑکھی سے باہر دیکھنے لگ گئی ۔ جہاز چودہ ہزار سے بھی زیادہ فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا ۔۔ پر دل تھا کہ قابو میں نا آ رہا تھا ۔۔ یہ میں نے کیا دیکھا ۔۔ میں زارو قطار رونے لگی ۔۔ ہائے خدا نا کرے ۔۔۔۔۔۔۔ اے اللہ رحم ۔۔ ہائے کیا سفر تھا وہ بھی۔۔ ۔۔
لندن پہنچی تو 30 نومبر 2014 کا سورج طلوع ہو چکا تھا ۔۔ گھر میں سب کچھ جوں کا توں رکھا ہوا تھا ۔۔ جو نہیں تھی تومیری ماں کی آواز ، ان کی خوشی ، ان کا والہانہ پن نہیں تھا ۔۔ در و دیوار اداس تھے ۔۔ امی جی ٹھیک اسی وقت اس جہاں سے رخصت ہوئی تھیں جس وقت وہ مجھے میرے خواب میں خدا حافظ کہنے آئی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے میری خبر گیر دلدار ماں ۔۔۔۔۔ انہیں معلوم تھا میں آ رہی ہوں اس لیئے انہیں اچھا نہ لگا کہ مجھے بغیر بتائے چلی جائیں۔۔۔۔۔۔
میری ماں مجھ میں جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب تیری ہی سکھائی ہوئی ہیں اور جتنی بری باتیں وہ سب میری اپنی سیکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ مجھے معاف کر دیجیئے ۔۔ یکم دسمبر 2014 کو صبح نو بج کر 45 منٹپر میں ان کی میت کو غسل دینے لیئے تنہا ان کے ساتھ سات منٹ سے راز و نیاز میں مصروف تھی ۔۔ ان کی بند آنکھیں ۔۔ اف لگتا تھا جیسے ابھی کھول دیں گی ۔۔ ان کا دل دھڑکتا ہوا لگا ۔۔ ان کے چہرے سے برسوں کی تھکن مٹ چکی تھی اور ایک آسودہ سی مسکراہٹ سچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ دلشاد ، نزہت ، نادیہ اور شازیہ کے ساتھ مل کر ان کو آخری آرمگاہ کے لیئے تیار کرتے ہوئے ایسے ہی لگا جیسے ہماری ماں ہمیں تیار کرتی تھیں کہ کوئی کمی نہ رہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم پانچوں کی کوشش تھی کہ ان کو تیار کرنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔۔ اس آن شان سے میری ماں اپنے آخری سفر پر نکلی کہ ہم سب دیکھتے رہ گئے ۔۔۔ان کوروکتے رہ گئے ۔۔ پر پہلی بار وہ اپنے سوہنے کی رضا پر ہم سب کی آنکھوں سے ہمیشہ کے لیئےاوجھل ہو گئیں۔
میرے ابا جی کی آدھی صدی کی ساتھی ۔۔ ہم سب کی ماں ، منوں مٹی تلے جا سوئی ۔۔۔۔ مجھے یوں لگا جیسے اتنے بڑے آسمان میں کوئی بڑا سا سوراخ ہو گیا ہوجہاں سے یا تو سورج کی تپش آتی رہتی ہے یا پھر تیز بارش برستی رہتی ہے ۔۔ مجھے لگا جیسے میں بھی حضرت موسی کی طرح تنہا رہ گئی ہوں اور اللہ پاک خبردار کر رہے ہوں ۔۔ “اے نگہت اب دیکھ کر زندگی گزارانا اب دعا دینے والی تمہاری ماں نہیں رہی “ ۔۔۔ ہاں چچا امین بھی تو یہی کہہ رہے تھے کہ ” آہ ! آپا کی صورت دعاؤں ںکا بادل ہم سے بچھڑ گیا ۔ دکھ سکھ کرنے والی خبر گیر ہستی چلی گئی ، جس میں ہر رشتہ ملتا تھا وہ آپا چلی گئی “۔۔۔۔۔ ماموں ممتاز کہنے لگے “آپا بھی عجیب تھیں ی زندہ تھی تو دعائیں دیتی رہی ، چلی گئی ہے تو دعا ئیں کرنے والا بنا گئی “ ۔۔ کئی پرسے ملے ۔۔ سب نے یہی کہا “وہ آپ ہی کی نہیں ہماری بھی ماں تھیں “ ۔۔۔۔ ہم سارے بہن بھائی ، ان کے داماد اور بہوؤیں یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کر لیتی تھیں ۔۔ خبر گیری اور دلداری کرتے ہوئے انہیں ان کی معذوری بھی نہیں روک سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کیے سامان سے دو ڈائیریاں بھی ملیں ۔ ایک ڈائیری میں ہم سب بہن بھائیوں کے اور رشتہ داروں کے فون نمبر لکھے ملے اور ساتھ ہی ان کا شیڈول بھی لکھا ہوا کہ کس دن کن کن کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرنی ہے۔ دوسری ڈائری میں اپنے لیئے پڑھا ہوا پہلا کلمہ اور کئی اور سورتیں اور درود پاک کی تعداد لکھ رکھی تھی اور ساتھ ساتھ ان کی پنجابی زبان میں لکھی ہوئی شاعری ۔۔۔ ہم سب کی آنکھیں بھر آئیں اور ایکبار پھر ہم سب مل کران کی یاد میں بہت بہت روئے۔۔
ان کے کپڑے تبرک کے طور پر سمیٹتے ہوئے میں سب سے کہہ رہی تھی کہ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں ۔ ماشاللہ سب ہی دنیاوی اور دینی تعلیم سے آراستہ اور ابا جی بھی حیات ہیں ۔۔ پر ہماری ماں نے مرنے کے بعد بھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہیں کیا ۔ اپنے کفن کو نیلے پلاسٹک کے تھیلی میں بند کر کے اپنی نظروں کے سامنے رکھتیں اور جب بھی ہوسپٹل جاتیں ، ضرور تلقین کرتیں کہ انہیں اسی کفن میں دفنایا جائے جو وہ 2004 میں عمرہ کے وقت آب زم زم میں ڈبو کر لائی تھیں ۔ ۔۔ تا حیات مجھے تین باتوں کی تلقین کرتی رہیں کہ 1۔ مسجد ہو یا گھر بچوں کو نماز پڑھاتے وقت سب سے پہلی صف میں کھڑا کرنے کی ہدایت کرتی رہنا کہ انہیں کے دم سے ہماری دین و دنیا آباد رہینے ہیں ، 2۔ اہل بیت کا دامن کبھی نہ چھوڑنا ، ان کو مانے بغیر ہماری بخشش ناممکن ہے ، 3۔ مل جل کررہنے ہی میں برکت ہے “
امی جی نے اللہ پاک سے ملنے کی تیاری 10 برس پہلے ہی سے کر رکھی تھی ۔ پھر اس کے بعد تو انہیں صرف مدینے جانے کی لگن نے زندہ رکھا ہوا تھا ۔۔ پر وہ 2004 کے بعد اپنی علالت کے باعث کبھی مدینہ نا جا سکیں پر سدا اپنے سوہنے کی مرضی پر راضی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی محبت سے 29 نومبر 2014 بروز ہفتہ کی صبح 8 بج کر 16 منٹ کو اس کی رضا پر لبیک کہتے ہوئے کسی کا بھی انتظار نہ کیا اور جس دیس سے آئی تھیں اسی کو واپس چلی گئیں ۔۔۔۔یوں جدو جہد ، تعلیم و تربیت ، صبر و رضا کا ایک عہد ختم ہو گیا۔۔۔
امی جی کے جانے کے بعد میں بھی 15 دسمبر کو واپس سڈنی آ گئی ۔۔ زندگی کے معمولات وہی تھے پر اب ایک تنہائی سی در آئی تھی ، کوئی چہرہ اچھا نہیں لگتا تھا ، کوئی بات دل کو بہلاتی نہیں تھی ۔ ۔۔ ایک ایسے ہی اداس سے دن امی جی اچانک اس دیس سے مجھ سے ملنے آ گئیں اور دیر تک سمجھاتی رہیں ” کیا حال بنا لیا ہے تم سب نے ۔۔ دیکھو میرے کتنے سارے روپ ہیں ۔۔ تم سب بہن بھائی اور پھر تم سب کے بچے ۔۔ یہ سب میرے ہی تو روپ ہیں ۔۔ میں تم سب میں سانس لیتی ہوں ۔۔ پھر مجھے ڈھیروں تسلی ، پیار اور دعائیں دے کر چلی گئیں۔۔ “
۔۔ ہائے میری غمگسار ، خبر گیر ، دلدار ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم آٹھ بہن بھائی ہیں ۔۔ ہم اپنی ماں پر جان نثار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم ان کے شفیق مہربان آنچل میں پروان چڑھے ہیں پر ہم میں سے کوئی ان کی سیرت و کردار کی گرد کونہیں پا سکا ۔۔۔ اے اللہ پاک ہماری جنت مکانی ماں پر ایسی ہی مہربانی فرما جیسی انہوں نے بچپن میں ہم سب پر فرمائی تھی۔۔ الہی آمین
تحریر: ڈاکٹر نگہت نسیم