عباس مہکری
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی سفارت کاروں کے طالبان سے رابطے تھے اور اس امر کے ثبوت مل گئے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ بھارت کی ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں اور کراچی، گلگت اور بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کیا جائے ۔ ترجمان کے مطابق بھارتی سفارت خانے میں کام کرنے والے 5 اہلکار سی پیک کے خلاف سرگرمیوں کے حوالے سے مختلف سطحوں پر کام کر رہے تھے اور ان اہلکاروں کے تحریک طالبان سے بھی تعلقات تھے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد ملنے والے شواہد کے بعد یہ بات کی ہے تاکہ عالمی برادری اس بات کو چیلنج نہ کر سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے مجوزہ روٹ پر جس طرح گزشتہ کچھ سالوں سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں ، انہیں دیکھ کر پاکستان کے عوام اور عالمی برادری نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہے کہ کوئی قوت ایسی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ سی پیک کے منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو ۔
سی پیک کا منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے بلکہ اس سے خطے کے حالات تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس لئے اس منصوبے کو ’’ گیم چینجر ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ منصوبہ پاکستان کی تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اہمیت اور جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے یہاں شروع کیا جا رہا ہے ۔ چین کو پاکستان کے راستے مشرق وسطیٰ اور آگے وسطی ایشیا تک تجارت کرنے میں بہت سے فوائد ہیں لیکن پاکستان کے دشمن یہ نہیں چاہتے کہ چین اپنی عالمی تجارت کے لئے اس راہداری کو استعمال کرے ۔ اس خطے کی پوری سیاست سی پیک کے ارد گرد گھومنے لگی ہے اور پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت یہ سمجھتا ہے کہ سی پیک مکمل ہونے سے نہ صرف پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو گا بلکہ بھارت کی علاقائی بالادستی کو بھی خطرہ درپیش ہوگا اور ایک عالمی طاقت بننے کے اس کے عزائم بھی پورے نہیں ہوں گے ۔ سی پیک کی وجہ سے اس خطے میں جو نئی صف بندی ہو گی اس میں پاکستان کی اہمیت زیادہ اجاگر ہو گی اور بھارت کی اہمیت کم ہو گی ۔ چین،روس اور پاکستان کی تثلیث کو ایک نئی عالمی طاقت کے ابھرنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس تثلیث کے ساتھ ترکی اور ایران بھی اتحاد کرسکتے ہیں اور اس خطے میں ایک نیا بلاک بن سکتا ہے جو عالمی سطح پر انتہائی طاقتور بلاک ہو گا کیونکہ مذکورہ بالا ملکوں کے معاشی مفادات انہیں ایک دوسرے کے قریب لارہے ہیں ۔ بھارت اس ممکنہ اتحاد یا بلاک میں اپنی مناسب پوزیشن نہیں دیکھ رہا اور وہ اس سے خوف زدہ بھی ہے ۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ سی پیک سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہو گا بلکہ چین پہلے سے بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرے گا ۔ سی پیک پر عمل درآمد نہ ہونے سے علاقائی اور عالمی سطح پر وہ صف بندیاں نہیں ہوں گی ، جو اس وقت ہو رہی ہیں اور جن کی وجہ سے بھارت اپنی حیثیت کھو رہا ہے ۔ اس لئے بھارت سی پیک کے منصوبے کو ہر حال میں سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔
دہشت گردی کے جو واقعات سی پیک کے روٹ پر ہورہے ہیں ، ان کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ بعض قوتیں اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں بحری جہاز میں جو آگ لگی ہے ، وہ بھی 100 فیصد دہشت گردی کا واقعہ ہے اور ان واقعات کا تسلسل ہے ، جو گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں رو نما ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کی حکومت کو مزید تحقیقات کرنی چاہئیں اور ثبوت جمع کرنے چاہئیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے صرف طالبان سے رابطے نہیں ہیں بلکہ دیگر انتہا پسند گروہوں سے بھی رابطے ہیں ۔ ہم بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کو سمجھتے ہیں اور ہم اس بات کی بھی حمایت کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی ہونی چاہئے اور بلوچستان کے لوگوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام کے برابر لانا چاہئے لیکن بلوچستان کے بعض نام نہاد قوم پرست گروہ جو کچھ کررہے ہیں ، اس سے بلوچستان کے عوام متفق نہیں ہیں اور نہ ہی یہ گروہ بلوچستان کے عوام کے لئے لڑ رہے ہیں ۔ بعض انتہا پسند ، نام نہاد قوم پرست اور علیحدگی پسند گروہ مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ سی پیک کے منصوبے سے بلوچ اپنے علاقوں میں اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ یہ انتہائی غیر منطقی بات ہے ۔ ان انتہا پسند اور نام نہاد قوم پرستوں کی بھارت سرپرستی کر رہا ہے۔ ان کے علاوہ بھارت پاکستان کی فرقہ ورانہ تنظیموں کی بھی پشت پناہی کررہا ہے،جو بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔
ہمیں بھارت کے ساتھ ساتھ دیگر بیرونی عوامل پر بھی نظر رکھنی ہو گی اور یہ بات بھی نظرانداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان کے اندر بھی کچھ حلقے سی پیک سے اپنی سیاست اور اپنے مفادات کو وابستہ کرچکے ہیں ۔ ان سے بھی نمٹنا ہوگا ۔ ان ساری سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سی پیک کے منصوبے کو متنازع نہ بنایا جائے اور سی پیک کے مغربی روٹ پر زیادہ توجہ دی جائے کیونکہ سارے دشمن یہی چاہتے ہیں کہ مغربی روٹ نہ بن سکے کیونکہ پاکستان کے مغربی علاقوں پر بعض عالمی طاقتوں کی نظر ہے اور وہ ان علاقوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے بہت پہلے سے منصوبے رکھتے ہیں ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے مغربی روٹ پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ قبل ازیں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے سی پیک پر قائم کردہ سینیٹ کی خصوصی کمیٹی بھی اس طرح کی تشویش ظاہر کرچکی ہے ۔ مغربی روٹ پر عمل درآمد ہونے سے نہ صرف علیحدگی پسند قوتیں کمزور ہوں گی بلکہ پاکستان کے مغربی علاقوں کے خلاف عالمی منصوبے بھی خاک میں مل جائیں گے ۔ سی پیک کے اندرونی اور بیرونی دشمن بہت ہیں اور سی پیک کے مغربی روٹ پر کام نہ ہونا بھی تشویش ناک ہے ۔ ہمیں صرف اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ سی پیک کے مغربی روٹ والے علاقوں میں دہشت گردی کیوں زیادہ ہورہی ہے اور ہم مغربی روٹ پر کام کیوں نہیں کررہے ۔