اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طاغوتی طاقتوں کی سازشیں کوئی نئی بات نہیں ، روز اول سے نیکی کے خلاف برائی کی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو مسلمان آپسی رنجشوں اور فرقہ وارانہ رقابتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پس رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کے حوالے سے اسلام مخالف قوتوں کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں،
پہلے یہ کام چند ممالک میں خفیہ طور پر کیا جا رہا تھا تاہم اب یہ کھلم کھلا ہو چکا ہے اور جس ملک کو ہم اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں وہ ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔ایٹمی پاکستان سرمراجی اور طاغوتی قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اور آئے روز وطن عزیز کے خلاف یہ طاقتیں نئے نئے جال بنتی نظر آتی ہیں ۔ اس حوالے سے معروف اسلامی اسکالر اور اینکر بلال قطب نے نجی ٹی وی پروگرام میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی جی خان میں ایک یہودی امام مسجد بن کر 18سال ایک مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتا رہا ہے۔ اس یہودی سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی اور انہیں اس سے متعلق کیسے پتہ چلا اس بات سے پردہ اٹھاتے ہوئے بلال قطب نے بتایا کہ یہ بات ایک لیکچر کے دوران ہوئی تھی کہ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ جس شخص نے داڑھی رکھی ہے ، ٹوپی پہنی ہے اور ایک خاص قسم کا ذوالجناح بنا ہوا ہے تو وہ عالم دین ہی ہو گا۔ بلال قطب نے بتایا کہ ایک شخص سے میری دبئی میں ملاقات ہوئی، دبئی میں جہاں ملاقات ہوئی یہ وہاں انویسٹرز ہیں بلکہ کنسلٹنٹ ایڈوائزر ہے شیخ محمد کا۔ اس شخص کی وہاں گلف کیپ کمپنی ہے ۔ دبئی میں ٹیلی فون پر اذان آتی ہے، اسی دوران ہم نے دو نمازیں پڑھ لیں اور میں نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے نہیں آیا، میرا یہ خیال تھا کہ ان کو امامت کروانی چاہئے، جب میں نے اس حوالے سے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ یہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو میرے ساتھی کا کہنا تھا کہ اس لئے کہ یہ مسلمان نہیں، جس پر مجھے شدید حیرت ہوئی کیونکہ عربی انہیں آتی تھی، فارسی ان کو آتی تھی، سرائیکی ان کو آتی تھی، اردو ان کو آتی تھی، پنجابی کے وہ ماہر تھے۔ جب میری ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں ڈی جی خان کے اندر 18سال مسجد کی امامت کے فرائض سر انجام دیکر اب میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں یہاں پر آگیا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، آپ تو مسلمان نہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ میری جاب تھی۔بلال قطب نے ایک اور واقعہ بتایا کہ معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے گھٹنے تبدیل کئے گئے تھے۔ انہوں نے گھٹنوں کا آپریشن برطانیہ سے کروایا تھا، مجھے جب ڈاکٹر اسرار کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تووہ زیادہ حرکت نہیں کر سکتے تھے اور رمضان کا مہینہ تھا تو ڈاکٹر صاحب کا ذوق اور شوق تھا کہ یہ برطانیہ میں ہی رمضان گزاریں جس کیلئے ہم نے ایسی جگہ تلاش کرنا شروع کر دی جہاں ڈاکٹر صاحب رمضان گزار سکیں۔اسی تلاش کے دوران ہم نے برمنگھم میں ایک مسجد دیکھی جہاں سے قرأت کی اس قدر خوبصورت آواز آرہی تھی کہ لگتا تھا کہ جیسے شہد کی مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی اس مسجد میں رمضان گزارنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ بلال قطب کا کہنا تھا کہ وہاں سے قرأ عراقی انداز میں قرأت کر رہے تھے جو کہ نہایت ہی نایاب قرأت سمجھی جاتی ہے۔جب پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ برمنگھم میں مسجد نہیں ہے یہ غیر مسلم کا ایک انسٹی ٹیوشن ہے جہاں پر اسلام سکھایا جاتا ہے۔ تب مجھے دبئی میں اس غیر مسلم جس نے ڈی جی خان میں 18سال مسجد میں امامت کروائی تھی کا تمام واقعہ سمجھ آگیا، انہوں نے پاکستان میں امام مسجد بن کر رہنے کیلئے کہیں سے تربیت لی ہو گی، امامت کروائی ہو گی، اپنا نقطہ نظر لوگوں تک پہنچایا ہو گا، اپنا اسلام بیچا ہو گا، اور اس بیچے ہوئے پر بہت سے خریدار بھی ہوئے ہونگے۔ اور ان کی وجہ سے معاشرے میں جو تبدیلی آئی ہو گی اس کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے 18سال کیا ہم یہ کام 18صدیوں میں نہیں کر سکتے۔