ترکی دنیا کا پر امن آئیڈیل اور حسین ملک بھی اب اندرون و بیرون سیاست و سازش کا شکار ہو چکا۔ طیب اردگان مذہبی ایکسپلائٹر مسلمانوں کے جذبات سے تو کھیل سکتا ہے لیکن دشمنان اسلام کی چالبازیوں سے نہیں کھیل سکتا ہے۔ اقتدار کو طول دینے کی حرص گوروں کی غلامی سے نجات نہیں پانے دے گی۔ امریکہ سے بھی یاری، روس سے بھی دکھاوے کی دشمنی، اسرائیل سے خفیہ دوستی اور داعش سے بھی کاروبار؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادے ترکی کے معاملہ میں نیک دکھائی نہیں دیتے۔ ری پبلکن حکومتوں کو مسلم دنیا پر حملے کرنے کا نشہ ہے۔ جب بھی برسر اقتدار ہوتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں کسی نہ کسی مسلم ریاست پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان کی مخفی غلامی بھی کوئی نہ کوئی ہولناک دھماکہ کرانے کے درپے ہے۔ ترکی ہاتھ سے سرکتا جا رہا ہے۔ اپنوں کو دشمن بنا لیا جائے تو غیر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ترک قوم کی اکثریت اپنی حکومت کی پالیسیوں اور کرپشن سے ناراض ہے۔ آئے روز کے دھماکے اور اب روسی سفیر کا قتل اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ترکی بھی عراق افغانستان پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی طرح شرپسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ انقرہ میں روسی سفیر کا مبینہ قتل اور قاتل کا مبینہ نعرہ کہ حلب کے معصوموں کا بدلہ لیا ہے اس بات کی گواہی ہے کہ ترک عوام حکومتی پالیسیوں کے خلاف برملا اظہار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ معاملہ ایک فتح اللہ گولن کا نہیں، اردگان کی خود پسندی، انانیت اور خود سر طرز حکمرانی نے ترک عوام کو منقسم کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق حکومت انقرہ کی غلط پالیسیاں جو کہ مختلف دہشتگرد گروہوں کی حمایت پر استوار ہیں کی وجہ سے ترک عوام انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں، دہشتگردی کی کارروائیوں اور بڑھتی ہوئی بدامنی سے یہ ملک سنگین خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ حکومت انقرہ اور ’’پی کے کے کردستان‘‘ کے درمیان تعطل کی وجہ سے ترکی کے دارالحکومت میں ایک ہلاکت خیز حملہ ہوا جس میں 29 بیگناہ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اگرچہ ترکی کے وزیر اعظم نے ملک میں ہوئے بم دھماکوں کی ذمہ داری شامی کردوں پر عائد کی تاہم اس حملے کی ذمہ داری ترک کردوں نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حکومت انقرہ اپنی معاندانہ پالیسیاں ترک نہیں کرتی ہے تب تک ترکی میں بھی امن و امان قائم نہیں رہ سکتا ہے لیکن یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اس حملے کے پیچھے بدنام زمانہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان اور اسکے حامی کردوں کو اپنے لئے اور ملک کی علاقائی سالمیت اور استحکام کیلئے خطرہ تصورکرتے ہیں۔ ترک حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس وقت شام کے بحران کا اہم ترین عامل انقرہ حکومت کی غلط پالیسی ہے۔ رجب طیب اردگان کی حکومت نے علاقے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کو اپنے لئے آئیڈیل بنا رکھا ہے اور انہی کی پیروی کر رہی ہے۔ اردگان حکومت کی جانب سے شام کے داخلی امور میں مداخلت اور انتہا پسندی کی حمایت کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس وقت ترکی میں شام کے بائیس لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو انقرہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بے گھر افراد بھی مسائل سے دوچار ہیں۔ ترکی کی اعلی تجزیہ نگار اور مشرق وسطی کی ماہر محترمہ ڈاکٹر نورای مرت نے کہا ہے کہ ترکی حکومت کی غلط پالیسیاں اس کے دوست ممالک کیلئے بھی پریشان کن ہیں۔
اس نے کہا کہ ترکی نے خواہ مخواہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنی مول لے لی ہے اور ترکی کی شام میں مداخلت کے سلسلے میں کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
ترک تجزیہ نگار کیمطابق ترکی کے عوام بھی حکومت کے اقدام سے خفا ہیں ترکی کو علاقہ میں امریکہ اور اسرائیل کی حمایت میں کام نہیں کرنا چاہیے ترکی کے اتحادی ممالک بھی اب ترکی سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ترکی اور ایران دو علاقائی حریف کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ حریف ہونے کی یہ کیفیت کسی حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے، لیکن علاقائی حالات دونوں کو مشترکہ تعاون پر مجبور کرتے ہیں۔ مغربی دنیا کی سازشوں سے بچنے کیلئے مسلم دنیا میں اتحاد نا گزیر ہو چکا ہے۔