تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
یہ ملک جس کو غریب نہتے لوگوں کے ساتھ مل کر میرے قائد نے دن رات ایک کر کے بنایا تھااس پر گذشتہ 61 سالوں سے طاقت کاقبضہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ لوگ اس قدر طاقتور ہیں کہ وطنِ عزیز کا ہر سیاہ سفید ان ہی کی ملکیت ہے۔کوئی غریب اگر چھوٹا گناہ بھی کرلے تو وہ بڑی سزا کا مستحق ٹہرتا ہے اوراگر کوئی طاقتور وہ بھی ڈنڈا بردار، بڑے سے بڑا جرم بھی کر لے تو اُسکی معصومیت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔کیونکہ یہ ملک تو گویا ان ہی کی محنت و قربانیوں سے وجود میں آیا تھا۔ان طاقتور لوگوں نے اس ملک کو جمہوریت کی پٹڑی کے قریب کبھی پہنچنے ہی نہیں دیا ہے۔بلکہ یہ لوگ چند مخصوص سیاست کے متمنی لوگوں کی اقتدار پر قد غن لگانے کے بعد خودہی جمہوری تربیت بھی کرتے ہیں۔
اور جاتے ہوے اپنے ٹرینڈ لوگوں کو جمہوری لوگوں کے طور پر ہم عوام میں چھوڑ جاتے ہیں جو جمہوریت کے نام پر اس ملک کا پھر بیڑا غرق کرتے ہیں اور ان ڈنڈا برداروں کو پھر اقتدار پر للچائی نظریں گڑا دینے پرآۤمادہ کرتے ہیں اور موقعہ ملتے ہی خود پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ۔ملک قوم اور اس کی یکجہتی جائے جہنم میں۔ایک ہی جنرل طاقت کے نشے میں چور پہلے تو ہمارے دشمن کو تیر بکف کر گیا اور موقع ملتے ہی 12، اکتوبر 1999 کو اقتدار کا مالک اپنے طاقتور گماشتوں کے ذریعے بن بیٹھا۔بھاری مینڈیٹ کے نشے میں چور وزیر اعظم نواز شریف پر طیارہ اغواکیس میں ڈنڈے کے زور پردھر لیاگیااور منتخب وزیر اعظم کو نافرمان جنرل، پرویز مشرف نے اس ملک کے اقتدار پر چوتھی مرتبہ شب خون مار کے قبضہ کرلیا اورخود ملک کے اقتدار پر ناجائزطور قابض ہو کرۤوطنِ عزیزپاکستان کے متفقہ آیئن کومعطل کر کے مارشل لا کی چھتری تلے پاکستان کے اقتدارکا مالک بن بیٹھا۔پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ جنرل نے چوتھی مرتبہ دہرایا تھا۔
23مئی 2000 پاکستان کی عالیٰ دعلیہ نے اس ڈکٹیٹر کو حکم ۔
دیا کہ وہ ملک میں اکتوبر 2002 تک انتخابات کرائیں۔ موصوف نے ملک میں بجائے انتخابات کرانے کے 30،اپریل 2002کو ملک میں ریفرنڈمکا ڈرامہ رچایا ۔اس ریفرنڈم میں پولنگ اسٹیشنز پر بھوتوں کا راج تھا۔ مگر اس کے باوجود اسٹابلشمنٹ نے دنیا کو 96٪ نتیجے کی اچمبے والی خبر سُناکر حیرت زدہ کر کے رکھ دیا۔جس کا مغرب میں تو خوب مذاق بھی اڑایا گیا۔مگر اس ڈھٹائی کا کیا کہئے کہ موصوف پانچ سال کے لئے خود ساختہ صدرِ مملکت بن بیٹھے۔مگرشرمند گی کہیں بھی نہیں تھی۔اسکے بعد ماہ اکتوبر میں عآم انتیخابات کرائے گئے جسمیں متحدہ مجلسِ عمل کے نام سے مذہبی سیاسی جماعتوں نے زبردست کامیابی بھی حاصل کر لی تھی۔ ق لیگ کے نام سے ایک نیا طاقتور گروپ پرویز مشرف کی حمایت کے لئے کھڑاکر دیا گیا۔جس نے مشرف کو زبردست حمایت فراہم کی۔اس الیکشن میں ایم کیو ایم سندھ میں بھر پور کامیابیوں کے بعد پرویز مشرف کا بڑا سہارا ثابت ہوئی۔
اسمبلی کے فلور سے جنرل پرویز مشرف پرزور دیا گیا کہ وہفوجی وردی اتار دیں۔اس پریشر پر مشرف نے دسمبر 2004 تک فوجی وردی اتاردینے کا وعدہ کر لیاتھا۔مگر جلد ہی وہ اپنے عہد سے منحرف ہوگئے جس کے بعد مشرف نے قومی اسمبلی سے 17 ویں ترمیم اپنے ق لیگ کےحمائتیوں سے منظور کرالی۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ دس مرتبہ بھی اگر پرویز مشرف کو وردی میں منتخب کرانا پڑا تو ہم کرائیں گے۔جس سے مشرف کے حوصلے بڑھے اور اُس نے وہ وہ کام انجام دیئےجو ایک با شعور سیاسی ۤدمہ دار تو کر ہی نہیں سکتا تھا۔3نومبر2007کو اپنے مخالفین کو دبانے کی غرض سے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی لگا دی گئی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دعالت ِ عظمیٰ پرویز مشرف کی صدارت کے خلاف فیصلہ دینے جا رہی تھی۔آئین شکنی تو پرویز مشرف کرتے ہی رہے۔مگر اسی دوران لال مسجد میں مشرف نے وہ سفاکی دکھائی جس میں نوجوان لڑکیوں خوتین اور بچیوں پر فاسفورس بموں سے یلغارکر کے سینکڑوں انسانوں کے ساتھ عبدالرشید غازی اور ان کی بوڑھی ماں تک کو اس سفاک قاتل نے نہیں بخشا۔ اس سفاک جنرل نے ساری دنیا کے سامنےآگ اور خون میں لال مسجد کے مظلوموں کونہلا کر اپنا مغرب کا ایجنڈا تکمیل کو پہنچایا۔اور پاکستان میں خود کش بمبار پیدا کر کے اپنے پورے ادارے کو بھی نشانے پر لا رکھا۔
مشرف کے جرئم کی داستان بہت طویل ہے۔جس میں اس کا سب سے بڑا جرم آ ئینِ پاکستان کی کئی مرتبہ خلاف ورز ی تھی اگر مجھ جیسا نا چیز یہ کرتا تو کب کا جہنم رسید کر دیا جاتا۔مگرچونکہ یہ ایک طاقت ور اداراے کا سربراہ رہ چکا تھا اور اس ملک میں قانون بھی دو قسم کے ہیں طاقتور کے لئے کچھ اور اور کمزور تو بے چارہ ہے کمزور اس کی داد رسی کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔ اس لئے طاقتور پر آئینِ پاکستان توڑنے کی دفعہ لگا تو دو مگر اُس کوسزانہیں دے سکتے۔کیونہ وہ کمانڈو رہا ہے۔ دوسرے لال مسجد کے علاوہ غازی عبدالرشید اور اُن کی عمر رسیدہ ماں کے قتل کا مقدمہ بھی اُس پر چل رہا ہے۔ تیسرے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹوکے قتل کا مقدمہ بھی اس پر چل رہا ہے۔ مگر مجال ہے حکومت اُس کو کوئی سزا کا حقدار کہے۔موجودہ حکومت کو بعض اداروں نے ٹریپ کیا ہوا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ نوازشر یف کی نام نہاد جمہوری حکومت نے کمانڈو کی جعلی بیماری کے بہانے کو جواز بنا کر پاکستان سے فرار کرا دینے میں مکملمددو اعنت کر کے اپنے خوف کا واضح اظہار کر دیا ہے۔قوم کو اب لالی پاپ دے کر بہلانے کی نا کام کوشش کیجا رہی ہے۔ہم نے تو اُسی دن جبعدالتِ عظمیٰ نے مشرف پر فردِ جرم لگانے کی تاریخ دی تھی کہہ دیا تھا کہ اب موصوف جعلی صاحبِ فراش ہو جائیں گے۔ اس کمانڈونے ہماری پیشنگوئی کی لاج رکھ لی اور بہادر ی کے ساتھ اپنے بیرونِ ملک فرار کی درخوست عدالت میں لگوادی اور ثابت کر دیا کہ “نہ آئین نہ عدالت سب سے مضبوط جنرل ” اور وہ بھی پاکستان کا اور سونے پہ سُہاگہ ریٹائرڈ جنرل۔۔
مشرف کو جن راستوں سے فرار کرایا گیا اُن کا علم حکومت اور ااداروں کے سوائے کسی کو ناتھا۔یہ جعلی بیمار بہاد ر اپنے پیروں سے چل کر جہاز پر چڑھا نہ کوئی اسٹریچر اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر ساتھ تھا۔دوبئی پہنچتے ہی موصو ف نے ہماری حکومت کی بیوقوفیوں پر زور دار قہقہ لگایا۔اور قہقہوں کے گونج میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنستامسکراتا ہواایئر پورٹ سے باہر نکلا اور جہاں اسنے میڈیکل چیک جس کے لئے باہر بھاگا تھا کراناتھا کوملتوی کردیا۔اب مار پیچھے پکار کے مترادف سانپ نکل گیا لکیر پیٹتے رہو۔بڑی عجیب بات ہے کہ سندھ ہائی کورٹ اور نہ سُپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی بلکہ عدالت کی جانب سے 16 اپریل2016 کو مشرف کی درخوست مسترد کردی تھی۔مگر این ۤر کا کمال اس ملک میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔اب میاں مشرف واپس نہیں آتے جب تک وہ معاف نہ کر دیئے جائیں
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com