counter easy hit

آئین اور آئینہ

Constitution

Constitution

تحریر: شاہداقبال ساگر
آئین اور آئینہ جو اکثر ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ یہ نازک بہت ہوتے ہیں بڑے کام آتے ہیں ان کی احتیاط کی جاۓ انہیں کبھی ٹوٹنے نہ دیا جاۓ یہ ٹوٹ جاۓ تو نقصان ہوتا ہے اکثر کبھی غصہ میں تو کبھی لاپرواہی سے تو کبھی جلد بازی کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور کبھی تو ایسا ٹوٹتا ہے کہ نقصان کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا اور یہاں تو ٹوٹتا اور جڑتا رہتا ہے اور جب یہ جڑتا ہے تو اسکی شکل بڑی عجیب ہوجاتی ہے کسی نے خوب کہا!
My Heart Like A Glass
Rare & Delicate
Once Broken Are Can Be Mended
But Not Crake Is Always Will Be There
خیر ٹوٹنے والی چیز تھی ٹوٹ گئی اب کیسا افسوس۔

افسوس تو تب ہو جب ضمیر جاگ رہا ہو یہاں تو سرے سے اس نام کی کوئی چیز یہ ہماری زندگی میں نہیں تو کف افسوس کیوں یہ تو شعار ہے زندہ قوموں کا جو اپنے اقدار کو نہیں چھوڑتے قانون کے احترام کو فرض عین سمجھتے ہیں اور ہم ان پابندیوں کے نہیں ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں جگہ جگہ بورڈ لگا دیۓ یہاں کچرا ڈالنا منع ہے، اب کیا کچرا ہاتھ میں لۓ گھومتے رہیں کہ کچرا کہاں ڈالا جاۓ تھوکنے پر بھی پابندی یہاں مت تھوکیۓ، یہاں گاڑی کھڑی کرنا منع ہے، یہاں پیشاب کرنا منع ہے، یہاں یہ نہ کرو یہاں وہ نہ کرو یہ بھی کوئی زندگی ہے نا بابا نہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں۔

No Parking

No Parking

ہمارے بس کا یہ سب کچھ نہیں ہمارے جو دل میں آئیگا وہ کریں گے جہاں نوپارکنگ کا بورڈ لگا ہو وہاں گاڑیوں کی لمبی قطار جہاں لکھا ہو تھوکنا منع ہے وہاں اتنا تھوکا جاۓ کہ لگے پان کی دکان اور اگر آپ کسی کھلی سڑک پر گاڑی ڈرائیو کررہے ہوں اور کسی چوک پر سگنل کی بتی سرخ دیکھیں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھ کر گاڑی اور تیز کردیں اور سگنل کراس ہوتے ہی شکر ادا کریں کہ خطرے سے بچ گۓ پھر بھی اگر اطراف میں کوئی پولیس کی موبائل کھڑی دیکھیں تو قطعا” گھبرانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ آپ سے یہ سوال ہرگز نہیں پوچھے گا کہ کیا کرکے آۓ ہو بلکہ وہ تو آپ سے پوچھے گا کہ کہاں سے آرہے ہو اور اگر آپ کے ساتھ آپکی بیوی بھی گاڑی میں موجود ہو تو وہ آپ ان خاتون کے بارے میں سوال کریگا یہ کون ہے۔

آپ کا جواب اگر ہوا کہ یہ موصوفہ میری بیوی ہے وہ آپ سے نکاح نامہ مانگے گا اگر نکاح نامہ آپ کے پاس سے برآمد نہ ہوا تو وہ آپ کو تھانے لے جانے کی اور خطرناک نتائج کی دھمکی دیگا آپ کو ڈرائیگا اور دھمکاۓگا مجبورا” آپ کا ہاتھ جیب کی طرف جائیگا آپ لجلجاتے ہوۓ اسکی منت کرینگے وہ آپ کو خوف زدہ دیکھ کر اور پیسے بڑھائیگا حتی کہ آپ کی جیب خالی ہوجانے کا یقین کرکے وہ آپ کو چھوڑکر آپ احسان عظیم کرے گا وہاں سے خلاصی ہونے کے بعد اب آپ کا ردہ عمل کیا ہوگا. آپ ایسے لوگوں کے بارے میں حکمران کے بارے میں قانون بنانے والوں کے بارے میں کیا ریمارکس دینگے یقین” کچھ اچھے تو نہیں ہونگے۔

مگر ایک منٹ کیلۓ بھی آپ نے یہ سوچا کہ آپ نے کیا کیا اور آپ کے ساتھ کیا ہوا. اگر ہر شخص اپنا محاسبہ کرے ہر طبقہ اپنی زمہ داریوں کو سمجھے غلطی پر سزادی جاۓ قانون کا احترام ہو اور بلاامتیاز ہو چاہے وہ غریب ہو یا امیر ہو عام آدمی ہو یا بااثر شخصیت ہو اگر ایسا نہ ہوا تو ایسی قوموں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے جو اپنے اقدار کو چھوڑ دیتے ہیں اپنے ملک کے آئین اور قانون کا احترام نہیں کرتے وہ قومیں تباہی کی طرف چلی جاتی ہیں اور ایسے واقعات عام ہوجاتے ہیں کہ بااثر شخصیات کے ہاتھوں قانون یرغمال ہوجاتاں پر رویا نہیں جاتا۔

Crime

Crime

~s.@.g.@.r~اگر بعض دفعہ مجبوری سے یا کسی دباؤ میں آکر سزا ہوبھی جاۓ تو ایک منٹ خاموش کھڑے رہنے کو کہا جاتا ہے اور سزا ختم ہوجاتی ہے اور اگر بااثر شخصیت کے گھر کا بھی کوئی فرد اگر گھناؤنا جرم کرلے تو اسے جیل میں “A” کلاس دی جاتی ہے افسران کو پابند کیا جاتا ہے کہ جو سہولتیں دی جاسکتی ہیں دے دی جائیں بااثر شخصیات سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہیں رابطے کۓ جاتے ہیں منانے کی کوششیں تیز سے تیز ترکردی جاتی ہیں بدلے میں کروڑوں کی آفرز کی جاتی ہے قانون اور قانون کے رکھوالے رزلٹ کا انتظار کرتے ہیں کہ کب معاملہ حل ہو اور کب رہائی عمل میں لائی جاۓ اور اسکے برعکس عام آدمی سے معمولی نوعیت کا جرم دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوجاۓ تو اسکا ایشو بنادیا جاتا ہے یہ بیچارہ تھانہ کچہری کے چکر کاٹ کاٹ کر تنگ آجاتا ہے جبکہ بڑا مجرم پولیس کسٹڈی میں بھی وکٹری کا نشان بناتا نظر آتا ہے۔

یہ تبدیلی کب آۓ گی. آخر کب تک قانون کے رکھوالے بااثر شخصیات کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہیں گے. کب ہاتھ مضبوط ہونگے قانون کے. قانون مضبوط ہوگا تو ملک مضبوط ہوگا، معاشرہ مضبوط ہوگا، اسکے لۓ قانون کو اندھا ہونا ہوگا اگر قانون اندھا ہوگا تو ہر طبقہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے گا. قانون نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو ہر طبقہ اندھا ہوجاۓ گا، ہر جگہ بے راہ روی، بےحیائی، لاقانونیت عام ہوجاۓ گی تو پھر کوئی انقلاب ہی ہوگا جو شاید اسے روک سکے۔

Shahid Iqbal Sagar

Shahid Iqbal Sagar

تحریر: شاہد اقبال ساگر
0300-2341235
syedshahidiqbal54@gmail.com