تحریر: عقیل احمد خان لودھی
یوں تو آئین پاکستان وطن عزیز میں بسنے والے تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر ڈیل کرنے کی بات کرتا ہے مگر گزشتہ 68 سالوں سے جو کچھ یہاں بسنے والی عام مخلوق کیساتھ ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ قیام پاکستان کے وجود سے ہی چند خاندانوں کو انگریزوں کی خدمات اورلعنتی خوشامد کے صلہ میں خصوصی انعام واکرام اور عہدوں سے نوازا گیا لمبی چوڑی جائیدادوں اور جاگیروں کا مالک بنایا گیا جبکہ عام آدمی کا ہر سطح پر استحصال کیا جاتا تھااور آج آزادی کے 68سال بعد بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اتنے عرصے میں اگر کسی چیز میں تبدیلی آئی ہے تو وہ چمڑی کی ہے پہلے گوری چمڑی والے عام انسانوں کی چمڑی ادھیڑا کرتے تھے اب رنگوں کا قدرے فرق ہے اور یہاں ان کی باقیات یہ فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔جس وطن عزیز کو حا صل کرنے کا مقصد انگریزوں کی غلامی سے نجات تھی۔
آج اسی وطن میں لٹیروں اور وڈیروں کی غلامی کا نظام رائج ہے ان لٹیروں وڈیروں کی غلامی اور خوشامدی کرو تو سب ٹھیک ورنہ بھگتو!بات کی جائے انصاف کی توانصاف کسی معاشرے کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے ہاں یہ حسن بری طرح گہنا چکا ہے، یہاں انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کئی کیسز اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔تعلیم کا ذکر ہو توکسی بھی مہذب معاشرے کی اہم ترین ضرورت تعلیم ہوتی ہے اور ہمارے یہاں تعلیمی میدان میں ہی طویل عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت یکساں سہولیات فراہم نہیں کرسکی آج بھی سرکاری سکولوں/کالجوں میں داخلہ کیلئے عام آدمی کی اولاد کو جو جتن کرنا پڑتے ہیں وہی جانتے ہیں۔حساس اور باشعور پاکستانی ایسے حالات سے سخت پریشان ہیں۔مسیحائوں نے جلاد وں کا روپ اختیار کرکھا ہے۔
پرائمری کلاس میں داخلہ کیلئے سکولوں میں سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں ایسے میرٹ اورعوام الناس کیلئے ایسی حکومتی سروسز کے کیا کہنے سبحان اﷲ۔ ہائی کلاسز کیلئے سرکاری سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا کالجوں میں سیٹیں نہیں ہوتیں کونسا میرٹ ہے یہاں؟، یونیورسٹیوں میں سیاسی پوسٹیں ، امیرزادوں کو گھر بیٹھے داخلے مل جاتے ہیں وہ بھی اس صورت کہ یہاں اگر وہ رہنا گوارہ کریں ورنہ ان کیلئے دنیا بھر کے بہترین تعلیمی ادارے اور ان کے آنے جانے کیلئے جدید ہوائی سفری سہولیات ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیںجبکہ غریب کو میرٹ کے چکر میں اتنا گھسیٹا جاتا ہے کہ اسے نانی یاد آجاتی ہے۔جب ایک ریاست کے ادارے آئین کے مطابق نونہالان وطن کوتعلیم کے معاملہ میں ہی برابری کی بنیاد پر سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے تو باقی شعبہ جات کی حالت کے بارے میں بخوبی گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کس بھائو بکتی ہے۔
صحت کے شعبہ کو دیکھا جائے تو اس وطن میں موجود عوام کا درد دل میں رکھنے والے لیڈروں اور حکمرانوں کو پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے اپنی ذات کیلئے کوئی سروکار نہیں انہیں کھانسی بھی ہوتو علاج لندن سے ادھر نہیں ہوتا غریب بیچاروں کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے قصائیوں کا روپ دھار رکھا ہوتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کیساتھ بے رحمانہ سلوک کیا جاتا ہے لواحقین کو احتجاج پر غیر اخلاقی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ظلم اور بددیانتی کی انتہا ء یہ ہے کہ انسانی جانوں کے تقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے گائنی شعبہ کی خواتین ڈاکٹرز بھی ذاتی لالچ کی خاطر پرائیویٹ کلینکوں پر مہنگے آپریشنز پر مجبور کرتی ہیں نارمل حالات میں بھی بلا ضرورت آپریشن ہی کر کے انسانی جانوں سے کھیلا جاتا اور اپنے لئے حرام اکٹھا کیا جاتا ہے۔
ہسپتالوں میں آنے والی ادویات کو ٹھکانے لگا کر مریضوں کو پرائیویٹ میڈیکل سٹورز سے ادویات کی خریداری کروائی جاتی ہے نشاندہی کی جائے شکایات کی جائیں کوئی پوچھتا نہیں وجہ کیا ہے کہ نیچے سے اوپر تک الا ماشاء اﷲ سب ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں۔ تھانہ کچہریوں کے طریقہ کار سے کون واقف نہیں ؟ کوئی جتنا بڑا لٹیرا اس کی اتنی زیادہ عزت !معمولی چوری کے الزام میں عام ملزمان کو تھانوں میں الٹا لٹکا کر،رولے پھیر کر اور دیگر ایسے ہی انسانیت سوز طریقوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر اﷲ کے فضل سے چالان کے بعد وہ جیلوں میں گلتا سڑتا رہتا ہے جہاں سے بھی واپسی پر کوئی اچھا انسان بن کر نہیں آتا بلکہ نشے کاعادی اور کوئی بڑا چور ڈکیت بن کر نکلتا ہے اگر بے گناہی میں سزا کاٹ آیا تو مختلف گینگز کا حصہ بن کر معاشرے کے عام لوگوں سے اپنی سزا کا بدلہ لینا فرض عین سمجھتا ہے۔
پناہ گاہ ایسے لوگوں کی وہی سیاسی اور بااثر افراد کے ڈیرے کہ جہاں تک کسی تھانیدار کی رسائی نہیں ہوتی کہ ایسے بااثر افراد اگر خود کوئی عوامی رہنما نہ ہوں تو ان کا کوئی بھائی،کوئی بیٹاکسی اہم ادارے میں کسی بڑے عہدے کا مالک ہوتا ہے کہ جہاں بغرض چھاپہ مارنے جاتے ہوئے مقامی پولیس/ اہلکاروں کے پر جلتے ہیں ،دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہورہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستانی عوام کی ویسے مت ماری گئی ہے ، جھوٹے سچے انتخابات کے مواقعوں پر ایسے لیڈروں کے چنائو کو عمومی ترجیح دی جاتی ہے کہ جنہوںنے کالے دھن سے اپنا خوب اثر ورسوخ بنایا ہوکوئی قبضہ گروپ یا کم ازکم ٹائوٹ تو ضرور ہو۔ آئین پاکستان میں عصمت فروشی، جوائ، سود اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کرنے کی ضمانت دی گئی ہے صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ جگہ جگہ قحبہ خانے کھلے ہوئے ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں غیر اخلاقی دھندے ہوتے ہیں منشیات شراب نوشی، جوے کے اڈے لیڈروں کی سرپرستی میں چلتے ہیں ۔غربت کے مارے افراد کو مجبوری میں قرض کی ضرورت پڑ جائے تو کہیں سے قرض نہیں ملتا۔
اداروں سے قرضوں کے حصول پر بھاری سود کا نفاذ ہے ۔ سود وہ حرام چیز ہے کہ جس پر قرآن پاک میں لعنت بھیجی گئی ہے مگر یہاں ہمارے ہاں کیا ہے کہ سودی کاروبار کو تقویت پہنچائی جارہی ہے ۔ حتیٰ کہ ایڈوانس کے نام پر موبائل فون کمپنیاں سود کا دھندہ کررہی ہیں حالانکہ موبائل فون کمپنیاں صارف کے اکائونٹ سے جہاں کئی پوشیدہ چارجز کٹوتی کرتی ہیں وہاں صارف کے ہی10روپوں کو ریزرو رکھ کر اسے ایمرجنسی میں لٹایا جاسکتا ہے مگر یہاں ہر چیز اس کے برعکس ہے بینکوں میں جہاں سود جیسی لعنت کا کاروبار ہوتا ہے عوام کو دھوکہ دینے کیلئے مختلف بینکوں کے نام اسلام سے منسوب ہیں یہ تو ایک ایسی ہی بات ہوگئی کہ کسی کو کہا جائے کہ وہ اسلامی ریاست میں مسلم شراب ہائوس کے نام سے دکان کھول لے۔یہاں مزدوروں کو ان کے کام کے مطابق اجرت نہیں ملتی دن رات ایک کر کے خون پسینے سے کمائی کرنے والوں کیلئے 13ہزار طے کرنے کے نام پر بھی 8سے 10ہزار دیکر ٹرخایا جاتا ہے جبکہ دفاتر میں بیٹھ کر مکھیاں مارنے والے یا کمیشنوں ٹھیکوں پر کام کرنے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہوں کے علاوہ اضافی بنالیتے ہیں۔
مختلف محکموں میں روزگار کے حصول کی بات ہو تو ہر طرف میرٹ کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے مگر عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ بیوروکریسی اورسیاستدانوں کی اولادیں ،چہیتے تمام اداروں کی اعلیٰ پوسٹوں پر براجمان کئے جارہے ہیں باقی عام پوسٹوں پر ان لوگوں کے چیلوں کی اولادیں بھرتی کرلی جاتی ہیں کسی بھی جگہ عام یا غریب آدمی کی اولاد کی ان اعلیٰ عہدوں پر آج تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی کوئی بڑی مجبوری آڑے نہ آجائے تو 100 میں سے ایک یا دو سیٹوں پر کسی غریب کو کھپا کر اس کی اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ الحفیظ والامان ۔مختلف ٹیسٹوں کے نام پر غریب امیدواروں کی تعلیمی قابلیت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انہی کی جیبوں سے مزید کروڑوں روپے ہتھیا لئے جاتے ہیں نتیجہ آتا ہے انٹرویوز ہوتے ہیں آخر کار وہی ان اداروں میں کھپا دیئے جاتے ہیں جن کا کوئی ماما چاچا اثر ورسوخ کاحامل ہو۔
اگر ابا جی ماما چاچا خود سیاستدان یا کوئی بڑا عہدیدار نہیں تو ایسے خوش قسمت کا ان افراد سے تعلق ضرور ہوتا ہے چاہے وہ خوشامد کا ہی تعلق کیوں نہ ہو ایسے امیدواروں کی ریکروٹمنٹ کمیٹیوں سے طے ہوتی ہے انہیں نوکریوں کے ٹیسٹوں میں خانے خالی چھوڑنے یا متبادل حل شدہ پرچوں کی سہولت فراہم کرکے کاغذوں میں سب OKکردیا جاتا ہے تا کہ پوچھ گچھ کی صورت میں کوئی مسئلہ نہ بنے ایسے امیدواروں کو ایڈوانس ہی سوالات کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی سہولت بھی مل جاتی ہے جہاں تک میرٹ کی حقیقت ہے تو ایک ایسا معاشرہ جہاں طبقاتی نظام کو پروان چڑھایا جا رہا ہو وہاں کیا میرٹ اور کیا میرٹ کی باتیںکیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
کوئی نہتا غریب اپنے جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے احتجاج کیلئے سڑکوں پرآئے تو اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے لیڈر وہیں کے وہیں بلکہ پہلے سے بھی بڑے لیڈر ، سانحہ ماڈل ٹائون کے فریقین کو ہی دیکھ لیا جائے کسی کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑا جن پر گولیاں برسائیں گئیں یامارے جانے والے عام اور غریب لوگ ہی تھے۔ ایسے لوگوں کو طیش دلوا کرسڑکوں پر لانے والوں کیلئے کیا قانون یا آئین میں کچھ موجود نہیں تھا؟ کہ انہیں بھی کم ازکم جیلوں میں تو ڈالا جاتااگر سانحے میں مارے گئے افراد قانون کی بالادستی کی خاطر مارے گئے تھے تو ان کو طیش دلوانے والے کیسے اس ملک کی عوام کے لیڈر ہوسکتے ہیں؟ یہ ہر طرفہ خونی سیاست ہے اور اس سے وابستہ افراد کو اپنے اقتدار کے سوا کسی چیز تقاضے سے کچھ غرض نہیں۔ ایسی ہی سیاسی جماعتوں کے نام نہاد رہنما ملک پاکستان اور اس کے پہرے داروںمسلح افواج کو کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں۔
بے جا دشمنی میں پاگل ہونے والے انڈیا جیسے ملک سے امداد طلب کرتے ہیں تو دوسری جانب اسی ملک کے حکمران اپنے ہم پلہ ہم خیال ایسے رہنمائوں سے ٹیلی فونک رابطے کرکے ان سے مدد مانگ رہے ہوتے ہیں ۔ا ن سے ملکی سلامتی کیلئے مشورے لئے جاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔آئین کی بات کریں تو اس کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آئینی ریاست میں اس کے باشندے بڑی منظم اور خوشحال زندگیاں بسر کررہے ہوں گے مگر یہاں 80 فیصد سے زائد لوگ جس حال میں جیتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں مفلوک الحا ل اور بے چارگی کی زندگی۔کیا سارے کا سارا آئین بھی یہاں کے باشندوں کو امن سکون کی گارنٹی نہیں دے سکتا؟۔ آئین پاکستان کے چیدہ چیدہ آرٹیکلز ملاحظہ ہوں اور پھر فیصلہ کرلیا جائے کہ آئین اور عملی صورت میں کس قدر تضادہے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا ۔۔۔ آئین کا آرٹیکل 3 کہتا ہے کہ مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا۔
ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے آرٹیکل 25 الف:ـ تعلیم کا حق ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ آرٹیکل 37:ـ معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ؛ اس کے تحت مملکت:(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی (ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی؛(ج) فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلی تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی؛(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی؛(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار۔
اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں ، مقرر کرنے کے لیے ، اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلقہ مراعات دینے کے لیے ، احکام وضع کرے گی؛(و) مختلف علاقوں کے افراد کو ، تعلیم ، تربیت ، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں ، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے ، پورا پورا حصہ لے سکیں ؛(ز) عصمت فروشی ، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال ، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت ، نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کرے گی ؛(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی ، سوائے اس کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو ، روک تھام کرے گی ؛ اور(ط) نظم و نسق حکومت کی مرکزیت دور کر ے گی تا کہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی ہو۔
آرٹیکل 38 عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ؛۔ اس کے تحت مملکت(الف) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرکے ، دولت اور وسائل پیدوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر و ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس ، ذات ، مذہب یا نسل ، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی؛(ب) تمام شہریوں کے لیے ، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی؛(ج) پاکستان کی ملازمت میں ، یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشری بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری ، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلا لحاظ جنس ، ذات ، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک ، لباس ، رہائش ، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی
(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت ، افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی؛(و) ربائ(سود)کو جتنی جلد ممکن ہو ختم کرے گی ]؛اور[(ز) تمام وفاقی ملازمتوں میں بشمول خود مختار اداروں اور کارپوریشنوں کے جن کا قیام وفاقی حکومت کے ذریعے عمل میں آیا ہو، یا وفاقی حکومت کی زیرنگرانی ہوں ، صوبوں کا حصہ یقینی بنایا جائے گا اور ماضی میں صوبوں کے حصوں کی تقسیم میں ہونے والی فروگزاشت کو درست کیا جائے گا۔ آئین کے درج بالا کسی ایک بھی آرٹیکل پر من وعن عملدرآمد ہورہا ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا تا کہ میں اپنی معلومات میں اضافہ کیساتھ اپنی ضروری اصلاح کا فریضہ سرانجام دے سکوں جہاں تک حکومتی میرٹ کی بات ہے تو روزگار کی فراہمی کیلئے صاف اور خالص میرٹ پر نوکریاں دینے کا میرے نزدیک ایک یہی حل ہے کہ کسی بھی پوسٹ کیلئے درکار تعلیمی قابلیت رکھنے والے امیدواروں کے ناموں کی پرچیاں ڈالکر چنائو کرلیا جائے۔
ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے ایم پی اے ایم این اے وزراء بھی کسی این ٹی ایس ،کمیشن ٹیسٹ کے پاس کرنے سے برسراقتدار نہیں آتے بلکہ وہ بھی پرچی کا ہی سہارا لیتے ہیںاس طرح قسمت والے غریب امیدواروں کو بھی ملک کیلئے اپنی خدمات فراہم کرنے کیساتھ ساتھ اپنے حالات درست کرنے کا موقعہ مل سکے گا اور صاف شفاف انتخابات کی طرح اس طریقہ کارپرکوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکے گا ۔ورنہ تو آئین پاکستان کو ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرکے کروڑوں عوام الناس کو برسوں سے بے وقوف بنائے ہوئے ہیںاور یہ سلسلہ مستقبل میں دور دور تک کہیں درست ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔
تحریر: عقیل احمد خان لودھی
0334-4499404