پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ن لیگ کے کارکنوں نے مختلف شہروں میں جشن منایا لاہور، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ، سرگودھا، گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، حیدر آباد، نواب شاہ سمیت کئی شہروں میں ن لیگ کے کارکنوں نے جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیںن لیگ کے کارکنوں نے ڈھول کی تھاپ پررقص کیا اور بھنگڑے ڈالے کارکنوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد بھی پیش کی وزیراعظم نواز شریف کے حق میں بڑی تعداد میں بینرز پینا فلیکس آویزاںکئے”شریفوں کے خواری” کیا اس بات پہ بھنگڑے، مٹھائیاں اور جشن منا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے دو موسٹ سینئر جج صاحبان نے میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیا ہے۔
صادق اور امین نہیں رہے کیا فتح کا جشن اس لئے منایا جا رہا ہے کہ پاناما کیس کے تین جج صاحبان نے انہیں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایتی یہ نہیں جانتے کہ جے آئی ٹی کے سامنے ”شریف” لوگ پیش ہوتے ہیں یا پھر”ملزم ”۔۔۔مجھے کہنے دیجئے۔۔۔لکھنے دیجئے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ جو کہ 540صفحات پہ مشتمل ہے کسی ایک صفحہ پہ بھی یہ نہیں لکھا کہ وزیر اعظم ”صادق اور امین ” ہیں تو پھر کیوں حکومت کے ایک وزیر کو میڈیا کے سامنے چیخ چیخ کر یہ کہنا پڑا کہ وزیر اعظم ”صادق بھی ہیں اور امین بھی”یہ کسے میسج دیا گیا ارے بھئی فیصلے میں تو واضح لکھ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے غلط بیانی سے کام لیا لہذا وہ ”صادق اور امین ” نہیں رہے باقی کے تین جج صاحبان نے اپنے فیصلہ میں کہیں یہ نہیں لکھاکہ میاں صاحب بری کر دیئے گئے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد نواز سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے مطابق ایک ووٹ کے فرق سے سردست بچ نکلے لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ یہ خطرہ مسلسل میاں صاحب کا پیچھا کرے گا آنے والے وقت میں آئینی بحران پیدا ہونے جا رہا ہے اور اس آئینی بحران میں وزیر اعظم صاحب کے لئے مشکلات دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں پا نامہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے۔ فیصلے کے بعد ”شریف وزیر اعظم” کی اخلاقی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔
حکومت اخلاقی طور پر حق حکمرانی کھو چکی ہے ۔ لال حویلی کے سربراہ نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا”وزیر اعظم دو مضامین میں فیل اور تین میں سپلی لیکن پھر بھی پپو پاس ہو گیا”سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ منوانے کے لیے اگلے ہفتے اسلام آباد میں ریلی کا اعلان کردیا)قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کردیا قومی اسمبلی اور سیینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج بھی کیا گیاپاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جمعہ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس ہوئے جس میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے بازئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر شرکت کی،قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا وزیراعظم استعفیٰ دو کے نعرے بھی لگائے گئے تمام اپوزیشن جماعتیں استعفیٰ کے مطالبے پر متفق ہیں اس لئے وزیراعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوںاپوزیشن کاکہناہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا 2 ججز نے بڑی دلیری سے فیصلہ دیا اور 3 ججوں نے اس فیصلے کی تردیدنہیں کی بلکہ مزید تحقیقات کا حکم دیا۔
تین ججز نے بھی وزیراعظم کے خلاف بہت کچھ لکھا،ججز نے فیصلے میں لکھا کہ وزیراعظم اپنی صفائی پیش نہیں کر سکے لہذا اپوزیشن اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی جے آئی ٹی پہ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف ،پی پی پی پی کے آصف علی زرداری اور دیگراپوزیشن رہنمائوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے وطن عزیز میں پہلے بھی اہم واقعات پہ جے آئی ٹی بن چکی ہیں ان کی رپورٹس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جے آئی ٹی میں بیٹھنے والے چار ادارے وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتے ہیں ماتحت افسران وزیر اعظم سے کیسی تحقیقات کریں گے۔۔ کیا یہ ادارے نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کرسکتے ہیں؟ اس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے پاناما کیس کی جے آئی ٹی تشکیل دینے کے بعد 5 رکنی بینچ ختم ہو جائے گا۔
کیس کی دوسری سماعت کیلئے چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے پاناما کا ہنگامہ رکا نہیں ابھی جاری ہے ، پاناما کیس کی جے آئی ٹی سپریم کورٹ کا موجودہ بینچ ہی تشکیل دے گا جبکہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد پانچ رکنی بینچ ختم ہو جائے گا فیصلے میں اختلافی نوٹ دینے والے ججز نئے بینچ میں شامل نہیں ہوں گے اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم کے خلاف ایک گرینڈ اپوزیشن بن جائیتحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں ”مفاہمتی جادوگر” کے ساتھ کھڑی ہوں اور اس بات کی بھی شنید ہے کہ پی پی پی پی اب پانامہ کیس کے حوالہ سے عدالت سے رجوع کرے جس سے ایک نیا پنڈورابکس کھل جائے گااس سے قبل کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کے لئے ایک گرینڈ اپوزیشن بنے اگر وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں تو یقینا ان کے سیاسی قدکاٹھ میں اضافہ ہوگا اگرجلاوطنی کے مشکل حالات میں بیگم کلثوم نوازمسلم لیگ ن کو چلا سکتی ہیں تو پھر وزیر اعظم بن کر ملک کو کیسے نہیں چلا سکتیں۔