تحریر: لالہ ثناء اللہ بھٹی
گوادر بلوچستان کا انتہائی اہمیت کا حامل ضلع ہے جو کہ 600 کلومیٹر طویل ساحل پر محیط ہے۔ 1958ء تک گوادر کا علاقہ ؛ خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا۔ 8دسمبر 1958ء کو 55 کروڑ روپے میں گوادر کو عمان سے خریدا گیا۔ 1964ء میں گوادر کو بندرگاہ کے لئے موزوں ترین قرار دیدیا گیا۔ 2002ء میں چین کے تعاون سے گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ گوادر بندرگاہ؛ دنیا کی تیسری گہری ترین بندرگاہ ہے۔ یہ بندرگاہ دنیا کے سب سے بڑے سمندری تجارتی راستے پر واقع ہے۔
گوادر سے کاشغر (چین) کا فاصلہ 3000کلومیٹر ہے، جبکہ چینی بندرگاہ سے کاشغر (چین)کا فاصلہ تقریباََ 9500کلومیٹر ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ دوست ملک چین کو بھی گوادر بندر گاہ سے بڑے فوائد حاصل ہونگے۔ چین جوکہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے، کے لئے گوادر کی بندرگاہ سونے کی کان جیسی اہمیت کی حامل ہے۔ چین اگر گوادر بندرگاہ کے راستے تیل درآمد کرتا ہے تو اس سے چین کو سالانہ 20ارب ڈالر کی بچت اور پاکستان کو 5ارب ڈالر کی آمدن ہوگی، جس سے چین کی معیشت مزید مضبوط ہوگی اور پاکستان کی معیشت میں بھی بہتری کے آثار پیدا ہونگے۔ گوادر کی بندرگاہ سے تقریباََ2لاکھ خاندانوں کو روزگار اور روشن مستقبل ملے گا۔ وسطی ایشیاء کی ریاستوں کو گوادر پر تجارتی سہولیات فراہم کرکے قومی آمدن میں 40ارب ڈالر کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے کی شام اسلام آباد میں بیداریء فکر فورم میں گوادر بندرگاہ کے حوالے سے معلوماتی نشست ہوئی جس میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے گوادر پرموشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے چیئرمین کرنل (ر) مقبول آفریدی نے مہمان اسپیکر کی حیثیت سے شرکت کی۔ کرنل(ر)مقبول آفریدی نے شریکانِ محفل کو گوادر بندرگاہ کے حوالے سے انتہائی معلوماتی لیکچر دیا۔ مہمان اسپیکر کے مطابق دنیا کا نیا اکنامک محور گوادر کے گرد گھومتا ہے۔
گوادر سے دبئی تقریباََ 700کلومیٹر ہے۔ دبئی کی بندر گاہ کا شمار دنیا کے سب سے بڑی دس بندرگاہوں میں ہوتا ہے اور سمندری ٹریفک گوادر کے قریب سے گزرتی ہوئی دبئی اور ایران وغیرہ کی بندرگاہوں تک جاتی ہے۔ یعنی گوادر سمندری ٹریفک کے راستے میں آتا ہے۔ حاضرینِ محفل کو یہ پوائنٹ کو سمجھانے کی غرض سے کرنل مقبول آفریدی نے ایک مثال دی کہ اگر گاہک میری دکان کو کراس کرکے مجھ سے اگلی دوکانوں میں جاتے ہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ میرے پاس مطلوبہ سامان موجود نہیں ہیں۔ اور یہی مثال یہ پوائنٹ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اگر پاکستان میں گوادر بندرگاہ کو فعال کیا جائے تو پاکستان کو اسکا بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ مہمان اسپیکر کے تجزیے اور ریسرچ کے مطابق گوادر بندرگاہ پہ پورا سنٹرل ایشیاء ، ویسٹ چائنہ، روس اور انڈیا کا ایک مخصوص حصہ ، ڈیپنڈنٹ ہے، کیونکہ ان تمام ممالک کے لئے دیگر بندرگاہوں کی نسبت ، گوادر بندرگاہ زیادہ نزدیک ہے اور روس کی بندرگاہیں ایک سال میں چھ مہینے کے لیے برفباری کی وجہ سے بند ہوتی ہیں۔روس کو سال کے 12مہینے آپریشنل رہنے کے لیے گوادر پورٹ کا سہار لینا پڑے گا۔
پاکستان نے 2002ء میں چین کے تعاون سے گوادر پر کام شروع کیا ۔ اب کہا جارہا ہے کہ چین، گوادر بندرگاہ کی توسیع اور علاقے میں ایک بڑے ایئر پورٹ کی تعمیر سمیت بعض بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر بھی متفق ہوگیا ہے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی کل تعداد 9ہے، اور ان پر مجموعی طور پر ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ بعض چینی کمپنیوں نے تیل و گیس کے شعبے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے گوادر میں آئل ریفائنریز کی تعمیر کے لیے اپنے منصوبوں سمیت متعلقہ حکام سے رابطے کیے ہیں۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ چینی کمپنیاں اپنے وہ منصوبے کب تک شروع کرپائیں گی، جن کی تکمیل کے لیے بندرگاہ کی تعمیر کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ گوادر بندرگاہ خلیج کے دھانے پر اور دنیا بھر میں تیل کی نقل و حمل کے سب سے بڑے اور اہم سمندری گذرگاہ، آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔ اسکی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ گوادر اور باقی بلوچستان ؛ ایک بہت بڑا علاقائی و معاشی تجارتی مرکز میں تبدیل ہوجائے گا۔ ساتھ ہی یہ افغانستان کے ذریعے ، دنیا سے الگ تھلگ سینٹرل ایشیاء کو بھی اس تجارتی مرکز سے منسلک کردے گا اور ساتھ ہی گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کو خلیجی اور ایرانی تیل تک رسائی کے لیے مختصر ترین راستہ بھی مل سکے گا۔ گوادر بندرگاہ کی مدد سے ای سی او (E.C.O)میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ای سی او کی میٹنگ میں 6بندرگاہیں ڈکلیئر کی گئی ہیں، جن میں ترکی کی دو، ایران کی دو اور پاکستان کی دو بندرگاہیں (کراچی اور گوادر) شامل ہیں۔ ای سی او کی ڈکلیئر شدہ 6بندرگاہوں میں سے سب سے زیادہ پوٹینشل گوادر کی ہے۔ گوادر ایک مکمل قدرتی پورٹ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکستان کے لیے تحفہ ہے۔ کرنل آفریدی نے گوادر کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک ان کا عزم تھا کہ گوادر پورٹ، دبئی پورٹ کی طرز کا بنایا جائے گا لیکن مزید ریسرچ اور تجزیوں سے انہیں معلوم ہوا کہ گوادر کی اہمیت اس بھی کہیں زیادہ ہے اور انشاء اللہ ، جب گوادر پورٹ آپریشنل ہوجائے گا تو دبئی ، گوادر کی جیب میں ہوگا۔ مہمان اسپیکر نے دبئی سے موازنے کو گوادر کی توہین قرار دیتے ہوئے حاضرین کو اپنا ایک قطعہ سنایا جو قارئین کے گوش گزار ہے:
اے پاکستان!
بن جائیں گے تیرے راستے سونے کے
دنیا آئے گی تیرے در پہ سوالی بن کے
بن جائیں گے تمہارے کھوٹے سکے سونے کے
کرکے کاروبار، بن جائو گے دھنی قسمت کے
فورم میں شریک پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ کمانڈر ڈاکٹر اظہر نے گوادر میں سکیوریٹی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق گوادر میں سکیوریٹی کی صورتحال خراب بتائی جاتی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس بات کو بہت جلدی مان لیتے ہیں کیونکہ گوادر بلوچستان کا ضلع ہے اور بلوچستان میں سکیوریٹی کی صورتحال خراب ہے اور اسی وجہ سے عام طور پر گوادر کو بھی سکیوریٹی کے حوالے سے محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن حقائق مختلف ہیں۔ گوادر میں بلوچ قبائلی لوگ نہیں ہیں۔ گوادر میں بسنے والے لوگ اپنے آپ کو بلوچی کی بجائے ‘گوادری’ کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں پر بسنے والے علیحدگی اور شرپسند قبائلیوںکی وجہ سے بلوچستان کے چندعلاقوں میں سکیوریٹی کی صورتحال خراب ہے جبکہ گوادر میں بسنے والے لوگ بہت شریف النفس اور دوستانہ رویہ رکھنے والے ہیں۔ قارئین! ریٹائرڈ کمانڈر ڈاکٹر اظہر نے گوادر بندرگاہ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے اور پی ایچ ڈی کے ریسرچ ورک کے لیے انہوں نے بہت عرصہ گوادر میں قیام کیا۔ کمانڈر اظہر کے مطابق گوادر کے لوگ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں کی نسبت آزاد خیال ہیں۔سکیوریٹی کے متعلق اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کمانڈر اظہر کا کہنا تھا کہ 2004ء میں گوادر میں ایک بم بلاسٹ ہوا تھا، جس میں3 چینی انجینئرز ہلاک ہوئے تھے، اور اسکے بعد سے آج کی تاریخ تک گوادر میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
اپنی بات کی وضاحت کے لیے کمانڈر اظہر نے ایک مصنف کا حوالہ دیا۔معروف مصنف رابرٹ کیپلن نے 9مرتبہ پاکستان کے وزٹ کیے اور اپنے ہر وزٹ کے دوران کئی کئی دن پاکستان میں قیام کیا اوررابرٹ کیپلن نے آن دی ریکارڈ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں میرے لیے سب سے زیادہ محفوظ جگہ’گوادر’ تھی۔ آج اگر گوادر کو سکیوریٹی کے حوالے سے پرخطر قرار دیا جارہا ہے تو اسکی وجہ دشمنانِ پاکستان ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے دشمن کبھی بھی گوادر بندرگاہ کو بنتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، جس سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشتگرد بلوچستان کے کسی دوسرے علاقے میں کاروائی کرتے ہیں اور دشمنانِ پاکستان اس کاروائی میں گوادر کے علاقے کو بدنام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے گوادر سے 200کلومیٹر دور ایک علاقے میں دہشتگردی ہوئی اور میڈیا نے اس دہشتگردی کو گوادر کے علاقے کی نسبت سے ہائی لائیٹ کردیا۔ اس بات کو سمجھانے کی غرض سے کمانڈر صاحب نے ایک مثال دی کہ یہ بالکل ایسی ہی ہے جیسے گجرات میں دہشتگردی کی کوئی کاروائی ہو اور اسے اسلام آباد کے علاقے میں دہشتگردی کے حوالے کے طور پر اٹھایا جائے۔ کمانڈر اظہر کے مطابق گوادر کو کوئی ٹی وی چینل کوریج نہیں دے رہا۔ گوادر میں ملک بھر سے شائع ہونیوالے اخبارات کی ترسیل کا نظام نہیں ہے۔ گوادر میں چند ایک مقامی اخبار نکلتے ہیں اور اسکے علاوہ کوئی بھی نیشنل اخبار نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی افسوسناک بات ہے۔
ونگ کمانڈر (ر) فتح شیر بھٹی صاحب نے حاضرینِ محفل کو بتایا کہ 2008ء میں انہوں نے چینی اعلیٰ شخصیات کو ایک تقریب میں بتایا کہ چائنہ نے اپنی ایکسپورٹ کو بھی بڑھا لیا اور ترقی بھی کافی کرلی لیکن چائنہ نے ‘ لاجسٹک’ کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ تجارت کو دیکھا جائے تو اس میں دو فیکٹرز بہت اہمیت کے حامل ہیں ؛ نمبر ایک ‘ پروڈکشن’ اور نمبر دو ‘ لاجسٹک’ ۔ چائنہ نے پروڈکشن کو بہت توجہ دی لیکن لاجسٹک پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا ۔ انہوں نے چینی شخصیات کو مزید بتایا کہ اگر دنیا میں چائنہ کا کوئی بہترین دوست ہے تو وہ ” پاکستان” ہے اور چین کے لیے بہت سے معاملات میں اسلام آباد، بیجنگ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر چائنہ ؛ گوادر منصوبے میں عملی اقدام کرتا ہے تو اس سے چائنہ کی معیشیت مزید مستحکم ہوسکتی ہے اور پاکستان بھی ترقی کی راہ پہ گامزن ہوسکے گا۔
سلطانہ فائونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم غنی نے فورم کو بتایا کہ انہوں نے 2004ء میں گوادر کا وزٹ کیا جب چائنہ وہاں کام کررہا تھا ۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے گوادر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اگر گوادر میں آئل ریفائنریز اور آئل ریزرو سینٹر (Oil Reserve Centre)بنا یاجائے جہاں سے ساری دنیا پٹرول لے سکے؛ اس اقدام سے پاکستان کی معیشیت کو بے حساب فائدہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے بتایا کہ دنیا نہیں چاہتی کہ پاکستان ، گوادر پورٹ پر کام کرے ۔ دنیا میں پورٹس بنانے میں سب سے زیادہ ایکسپرٹیز ‘ چائنہ’ کے پاس ہیں۔ چائنہ نے امریکا میں پورٹس بنا کر انہیں فعال کیا ہے۔ پاکستان نے گوادر پورٹ منصوبے کو چائنہ کے سپرد کرکے بہت اچھا کیا ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو اس سے اربوں ڈالر ز کی غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں ہوگی، جس سے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے جنوب ایشیاء اور مشرقی ایشیاء کے درمیان رابطے بھی بڑھیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب حکومتِ پاکستان بلوچوں کی شکایتوں کا ازالہ کرکے علیحدگی پسندوں کو مرکزی دھارے میں لائے گی۔ساتھ ہی بلوچی بھائیوں کو یہ بھی یقین دلانا ہوگا کہ نہ صرف وسائل پر ان کے حقوق کا احترام ہوگا بلکہ ان کے تمام تر دیگر تحفظات کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ آخر میں مہمان اسپیکر جناب کرنل (ر) مقبول آفریدی نے حاضرین کو ایک شعر سنایا جو قارئین کے پیشِ نظر ہے:
لکھ دیا کاتبِ تقدیر نے، ہے یہی مقدرِ پاکستان
ہے میرا بھی ایمان، تعمیرِ گوادر سے ہے ترقی ء پاکستان
تحریر: لالہ ثناء اللہ بھٹی