لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان اور اس کے بڑے شہروں میں آبادی انتہائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور شمال میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھلتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے تین شاندار پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انہی تین پہاڑی سلسلوں میں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی سن 2050ء تک تین سو ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے، جہاں پانی کا مسئلہ آنے والے دنوں میں شدت اختیار کر سکتا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں میٹھے پانی کی طلب نہ ختم ہونے والی ہے۔ انسان کو اپنی بقا کے لیے زراعت، صنعت، گھروں بلکہ ہر شعبے میں میٹھے پانی کی ضرورت ہے۔ نمکیں پانی نہ صرف پودوں، جانوروں، انسانوں بلکہ مشینوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔ کرہ ارض پر موجود پانی کا صرف تین فیصد حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہے اور اس تین فیصد پانی کا بھی زیادہ تر حصہ سرد خطوں میں برف کی صورت میں جما ہوا ہے۔ حقیقت میں زمین پر موجود میٹھے پانی کا صرف 0.5 فیصد حصہ ہی قابل استعمال ہے۔
پاکستان نے اگر ابھی سے پانی کے استعمال کے حوالے بہتر منصوبہ بندی نہ کی، تو مستقبل میں اس ملک کے سرسبز و شاداب کھیت بھی صحراؤں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر سن دو ہزار تیس میں ہی میٹھے پانی کی رسد اور طلب میں چالیس فیصد تک کا فرق پیدا ہو جائے گا۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ پانی کی بچت کیسے کی جا سکتی ہے اور پاکستان جیسا ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کیا سیکھ سکتا ہے؟
سمندری پانی کی میٹھے پانی میں تبدیلی
پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک سمندری پانی کو (زمین پر موجود پانی کا 97 فیصد) میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے لیے اس وقت دنیا میں تین بنیادی ٹیکنالوجیز استعمال کی جا رہی ہیں۔ ماضی میں یہ طریقے بہت مہنگے تھے۔ لیکن اب یہ وقت کے ساتھ ساتھ سستے ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ایک بالکل نئی صنعت کھڑی ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں اسرائیل نے اپنی ضروریات کا 40 فیصد حصہ سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرتے ہوئے پورا کیا۔ اسرائیل نے سن 2050 تک اپنی ملکی ضروریات کا 70 فیصد حصہ ایسے ہی پورا کرنے کا ہدف مقرر رکھا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین جیسے خلیجی ممالک اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صحراؤں کو سرسبز بنانے اور عوامی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان بھی اسی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے مستقبل میں کراچی جیسے بڑے شہروں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
زرعی شعبے کے مسائل کا حل
انسانی خوراک اور زراعت کے لیے میٹھے پانی کا کردار مرکزی ہے۔ دنیا میں قابل استعمال پانی کا تقریباﹰ 69 فیصد حصہ زراعت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ بعض ترقی پذیر زرعی ممالک میں تو تقریباﹰ نوے فیصد تک میٹھا پانی صرف زراعت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ سن 2050 ء تک زراعت کے لیے پانی کی ضرورت میں مزید 20 فیصد تک کا اضافہ متوقع ہے۔ اسی وجہ سے زراعت میں پانی کی بچت پر بھی تحقیق جاری ہے۔
اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے روایتی طریقے ہیں، جو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں رائج ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہر پودے کو برابر مقدار میں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی اور بہت زیادہ پانی سورج کی تپش سے بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ پودوں کو بہتر طریقے سے پانی فراہم کرنے کے لیے سائنسدان ’ڈرپ اریگیشن‘ کا نظام متعارف کرا چکے ہیں۔ جرمن کمپنی بائر کی تحقیق کے مطابق صرف اس ایک طریقے سے ہی روایتی زراعت میں 60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس طریقے سے پائپوں کے ذریعے پانی وہاں ہی پہنچایا جاتا ہے، جہاں پودوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ابتدائی سطح پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق بعض فصلوں کو بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض کو بہت کم۔ اب زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں کے بجائے ایسی نئی فصلیں اگائی جائیں، جو پانی کا استعمال کم کرتی ہیں۔ پاکستانی صوبہ پنجاب میں زیادہ تر صرف گندم اور چاول کی دو فصلیں ہوتی ہیں۔ ان کی جگہ نئی فصلیں متعارف کراتے ہوئے کسانوں کے حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں ان دو فصلوں کے بجائے تجرباتی طور پر پپیتے کے باغات وغیرہ لگائے ہیں، جن کے کسانوں کو اچھے فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے پروگراموں کو وسعت دی جا سکتی ہے۔
اسی طرح چاول کی بھی دنیا میں دو بنیادی اقسام ہیں ایک وائلڈ رائس اور دوسری ماؤنٹین رائس۔ پاکستان میں اگنے والے وائلڈ رائس کو بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب دنیا میں سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کس طرح کم پانی استعمال کرنے والے ماؤنٹین رائس کی طرح وائلڈ رائس میں بھی ایسی جینیاتی تبدیلیاں لائی جائیں کہ اسے بھی کم سے کم پانی استعمال کرتے ہوئے اگایا جا سکے۔ پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں کو اس حوالے سے اپنی تحقیق مزید تیز کر دینا چاہیے اور دنیا بھر میں ہونے والی ریسرچ سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
شہروں میں پانی کی بچت
بڑے شہروں میں پانی کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ میٹھے پانی کی بچت کے لیے سب سے پہلے بڑے شہروں میں پانی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا بنیادی ڈھانچہ تقریباﹰ سو برس تک کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا جا رہا ہے۔ آبی نالیوں کے ذریعے ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ایسے نظام کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ایک ایسے نظام میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کے تحت گٹروں اور نالیوں کے پانی کو بھی دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے ایک مثال اسرائیل کی ہے۔ وہ پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے پچانوے فیصد سیوریج واٹر کو ری سائیکل کرتا ہے۔ مسلسل پانچ برس کی قحط سالی کے باوجود اسرائیل ’ڈبل ڈی سیلینیشن‘ جیسے مختلف اقدامات کرتے ہوئے پانی کی 80 فیصد تک مقامی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ بھارتی پنجاب کی انتظامیہ اپنے ہاں سیوریج کے پانی کو فصلوں کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے بھارتی حکام نے حال ہی میں اسرائیل سے مدد طلب کی تھی۔ پاکستان کو بھی اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر دینا چاہییں۔
انفرادی سطح پر کوششیں
پانی کی بچت کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری صرف حکومتی اداروں پر ہی عائد نہیں ہوتی۔ مستقبل میں مشکلات سے بچنے کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انسانی استعمال میں آنے والا سب سے زیادہ پانی ہوٹلوں میں ضائع کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں تو مساجد میں وضو کے لیے بھی پانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے ایک وسیع عوامی آگہی مہم کی بھی ضرورت ہے۔ اگر مستقبل میں پاکستان کو اپنے ہاں پانی کی قلت سے بچنا ہے تو اسے کئی محاذوں پر ایک ساتھ اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا۔