جب بھی انتخابات آتے ہیں، ہر پاکستانی اس خواہش اور امید پہ ووٹ دیتا ہے کہ اب کی بار حالات بدلیں گے، بیروزگاروں کو روزگار ملے گا، مریضوں کو صحت کی اچھی سہولیات، نوجوانوں کو بہتر تعلیم، مزدوروں کو سونے کی قیمت کے برابر اجرت ملے گی، کسانوں کو اچھا ہونے کی امید پولنگ اسٹیشن تک لے آتی ہے، لیکن صورتحال مختلف ہے۔ ستر سال سے بھولے انسانوں کے خواب چکنا چور ہورہے ہیں، امیدیں دم توڑ رہی ہیں، خواہشیں مررہی ہیں۔
میری منطق کو اس وقت تقویت ملی جب میں پنجاب کے گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں پہنچا جہاں تقریریں کرنیوالوں کے منہ سے موتی جھڑ رہے تھے اور سامنے بیٹھی جسم جلی خواتین بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ در اصل یہ تقریب انہی کےلیے سجائی گئی تھی، وجہ یہی مظلوم تھیں۔ لیکن تذکرہ نواز شریف کا تھا، شہباز شریف کی ’’اسپیڈو‘‘کا تھا۔ زندہ انسانوں کی قبروں پر چلنے والی میٹرو کا تھا۔ شاہی محل میں بے تکی تقریریں سن کر دم گھٹنے لگا، بیزار ہوکر باہر بھاگا تو مال روڈ پر عین پنجاب اسمبلی کے سامنے روڈ بند تھا، قریب جانے پر معلوم ہوا کہ صوبہ بھر کے کسان اپنی زمینوں میں پیدا کیے جانیوالے والے آلو، سبزیاں، گنے لیے بیٹھے ہیں، وہ اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج تھے۔ حقیقت ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو اسی طبقے کا ہوا ہے؛ کئی خاندانوں کو محلوں سے فٹ پاتھ پر آتے دیکھا ہے۔
اس وقت کسان کی اجناس کھیتوں میں رُل رہی ہیں، سیاستدانوں کی شوگر ملوں نے ان کا گنا اونے پونے خریدا، کئی کاشتکاروں کو تو کھیت میں ہی فصل جلانا پڑی، آج کل آلو کا یہ حال ہے کہ کوئی خریدار ہی نہیں مل رہا۔ ابھی گندم کی کٹائی ہونیوالی ہے، حالات بتا رہے ہیں کہ گندم کا دانہ دانہ ہونے کا خدشہ ہے۔
کسانوں کے دھرنے کے تھوڑے سے فاصلے پر لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی اپنا رونا رورہی تھیں۔ وہ اپنے واجبات کی ادائیگی، اسکیل کی اپ گریڈیشن کا مطالبہ کررہی ہیں، اسی اثناء میں سوشل میڈیا پر ایک تصویر اور اس کے نیچے لکھی تحریر دیکھ کر رونا آگیا۔ یہ تصویر میرے صحافی دوست کے لخت جگر عبداللہ کی تھی جو لاہور کے چلڈرن اسپتال میں ہاتھ میں ڈرپ تھامے بیڈ کے انتظار میں کھڑا ہے، ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض۔
اس سے بڑا واقعہ سروسز اسپتال میں ہوا جسے سانحہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں مسیحاؤں اور ان کے پالتو غنڈوں نے بہن کی ڈلیوری کےلیے آنے والے سنیل سلیم (کانسٹیبل موٹر وے پولیس) کو مار مار کر قتل کردیا۔ معذرت کے ساتھ، ’’لینے آئے تھے جو دوائے دل، جان اپنی گنو ا گئے‘‘ بے لگام ینگ ڈاکٹرز اور بے مہار انتظامیہ چوری بھی کرتی ہے اور سینہ زوری بھی۔ آپ ہی تصور کر لیجیے، اگر ایک صحافی اور پولیس والے کا یہ حال کیا گیا تو عام آدمی کی کیا زندگی ہوگی۔
ستر برس ہوگئے پاکستان بنے، اتنی عمر میں تو بچے ہی نہیں ریاستیں بھی بالغ ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ وہی روش، وہی طرز حکمرانی۔ کتنے ظلم کی بات ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہمارے بچے آج بھی گندگی کے ڈھیروں میں روزق تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں 1 دن کا بچہ ہو یا 99 سال کا بوڑھا، ہر کوئی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہے۔ حکومت عوام کے نام پر انتہائی کڑی شرائط پر قرض حاصل کرتی ہے مگر اس قرض سے اشرافیہ عیاشی کرتی ہے۔ نوجوانواں کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن روز گار نہیں، ہسپتال ہیں مگر سہولیات نہیں، تعلیمی ادارے ہیں مگر تعلیم نہیں۔
جناب وزیر علیٰ! سڑکوں کے جال ضرور بچھائیں، پلوں پر سے میٹرو بھی گزاریں، لیکن گوشت پوست کے انسانوں کو نہ روندیں؛ عبداللہ جیسے معصوم کو بیڈ بھی فراہم کریں۔ آپ کا حساب شروع ہوچکا ہے، کہیں یہ طویل نہ ہوجائے۔ آپ کو چھینک آجائے تو جہاز لندن جانے کےلیے تیار کھڑے ہوتے ہیں، مگر عام لوگوں کے پاس سرکاری ہسپتال ہوتے ہیں، انہی کو بہتر کردیجیے، کسانوں سے روٹی مت چھینئے۔ آپ کے طویل دورِ حکومت کے باوجود جنازے گندگی سے اٹھ رہے ہیں تو ایسی گڈگورننس، اسپیڈو ترقی کیافائدہ۔