کشمیریوں کی تنظیموں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چوبیس نومبر کو لائن آف کنٹرول توڑ دیں گے۔
ایل او سی نے کشمیر کو اسی طرح دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے جس طرح دیوار برلن نے جرمن قوم کو تقسیم کر رکھا تھا۔
مگر 9 نومبر 1989 کو جرمن دیوار توڑ دی گئی، اسے ہتھوڑوں کی ضرب سے توڑا گیا، لوگوں نے اسے ناخنوں سے نوچا۔ دیوار برلن توڑنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی، جب سے1961 میں یہ دیوار تعمیر کی گئی تھی، جرمنوں نے اسے توڑنے کی کوششیں جاری رکھیں، انہیں کبھی تو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ، کبھی وہ دیوار کے اوپر خاردار تار میں الجھ گئے، اور کبھی اس تار میں بجلی چھوڑ دی گئی اور اس کے اوپر سے کودنے والے تاروں میں دوڑنے والی ہائی وولٹیج بجلی سے جھلس کر کوئلہ بن گئے اور ان کی لاشوں کو نشان عبرت بنانے کے لئے ہفتوں تک لٹکا رہنے دیا گیا۔
میں کبھی جرمنی نہیںگیا، میں دیوار برلن ٹوٹنے کا منظر نہیں دیکھ سکا، مگر میں نے جرمن سفیر کو دسمبر 1989 میں لاہور مدعو کیا، انہوں نے دیوار برلن کے ایک ٹکڑے کی زیارت اس طرح کروائی جیسے اس سے زیادہ متبرک دنیا کی کوئی اور چیز نہ ہو۔
کشمیر کے دو حصوں کا بٹوارہ کرنے والی لائن آف کنٹرول کو بھی دیوار برلن کی طرح منہدم ہو جانا چاہئے۔
مگر کنٹرول لائن کو ناقابل عبور بنانے کے لئے بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے پوری ایل او سی پر بارہ فٹ اونچی دیوار اور اس پر خاردار باڑ لگا رکھی ہے، باڑ کے ساتھ بارودی سرنگیںنصب ہیں، نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے ایسے سنسر گھاس پھونس میں چھپا دیئے گئے ہیںجو کیڑے مکوڑے کی سرسراہٹ پر بھی الارم بجا دیتے ہیں۔ باڑ کے ساتھ ساتھ واچ ٹاور کھڑے کر دیئے گئے ہیں جہاں دوربینوں اور مشین گنوں سے مسلح سنتری چوکس بیٹھے ہیں۔ ذرا پیچھے ہٹ کر منجینو لائن کی طرح کنکریٹ کے مورچوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ اس لائن کو عبور کرنے کا خیال ہی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا دیتا ہے۔اور اب کشمیریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس خطرناک اور دشوار گزار لائن کو زیر و زبر کر کے رکھ دیں گے، دل سے ان کی کامیابی کیلئے دعا نکلتی ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں اور ایسے لوگ بھارت میں بھی ہیں جو واہگہ کی لکیر کو مٹانے کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ واہگہ کی لکیر کیا ہے۔ ہمارے کچھ لوگ برسوں سے بھارتی آزادی کا جشن منانے پندرہ اگست کی رات بارہ بجے واہگہ کی لکیر پر موم بتیاں روشن کرتے ہیں مگر اس سال انہیں اس حرکت کی جرأت نہیں ہوئی۔
واہگہ کی لکیر اور ایل ا و سی کی لکیر میں کوئی مماثلت نہیں۔ مجھے یہاں واہگہ کی لکیر کے تقدس کے حق میں دلائل دینے کے ضرورت نہیں کہ یہ دو آزاد اور خود مختار ممالک کے درمیان لکیر ہے جبکہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی ایل او سی یو این او کے ریکارڈ میں بھی متنازعہ ہے اور اسے مانیٹر کرنے کیلئے اقوا م متحدہ کا مبصر گروپ دونوں طرف آج بھی تعینات ہے۔ ننانوے میں وزیراعظم نواز شریف ہنگامی طور پر واشنگٹن میں صدر کلنٹن سے ملے تھے اور جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق صدر کلنٹن نے وعدہ کیا کہ وہ خود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوشاں رہیںگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جناب بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے، ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیوار برلن کے انہدام کے بعد کشمیر میں انتفاضہ کے آغاز پر کنٹرول لائن پر جا کر اپنا دوپٹہ لہرایا تھا اور ایک عالم وارفتگی میں نعرہ لگایا تھا، آزادی! آزادی!۔ پاکستان مسلم لیگ اگر وہی جماعت ہے جس کے سربراہ حضرت قائداعظم تھے تو وہ یاد رکھے کہ قائد نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ ہے اور آج جب بھارت نے پاکستان کے لئے دریائوں کا پانی بند کر کے ہماری اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے تو قائد کے الفاظ کی حقیقت کھل کر ثابت ہو جاتی ہے اور ہمیں شرمندگی محسوس ہونی چاہئے کہ ہم اپنی اقتصادی شہہ رگ کی حفاظت نہیں کر سکے۔
حافظ محمد سعید نے دو روز پیشتر عمران خان سے اپیل کی تھی کہ وہ اسلام آباد کو بند نہ کریں، ملک میں اس انتشار سے پاکستانیوں اور دنیا کی توجہ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے جبرو ستم سے ہٹ جائے گی۔ حافظ سعید کی یہ اپیل ایک لحاظ سے حکومت کے حق میں جاتی تھی۔ میں نے ابھی سوشل میڈیا پر موجودہ آرمی چیف کی ایک پرانی تقریر سنی ہے جس میں انہوں نے عزم کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی ا ور سفارتی مدد کرتا رہے گا اور ہمارے وزیراعظم تو یہ اعلان جنرل اسمبلی میںکر آئے ہیں۔ مگر ملک میں انتشار کی سیاست سے کشمیر پس پردہ چلا گیا ہے۔
اب کشمیریوںنے چوبیس نومبر کو کنٹرول لائن کو روندنے اور توڑنے کا علان کیا ہے، کیا پتہ انہیں پاکستان سے کوئی حمائت ملتی ہے یا ہم بھارتی ڈر سے گھروںمیں دبکے رہیں گے۔ دیوار برلن کو توڑنے والوں کو آزادی کے متوالے کہا گیا تو کنٹرول لائن توڑنے والے بھی آزادی ہی مانگتے ہیں، سری نگر مین ہر لمحے یہ نعرہ گونجتا ہے، کیا چاہئے، آزادی ! آزادی! کیا ہی اچھا ہو کہ آزاد کشمیر حکومت اس موقع پر دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ نہ کرے، کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خاں نے جو دس لاکھ افراد اسلام آباد کے گھیرائو کے لئے تیار کئے تھے، انہیں چوبیس نومبر کو کنٹرول لائن توڑنے کی کال دیں اور پیپلز پارٹی بھی اپنے بانی بھٹو کے اس قول پر پورا اترے کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے، یہ وعدہ ہزار سال بعد نہیں، آج پورا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ چوبیس نومبر کو جماعت اسلامی بھی نکلے، جے یو آئی بھی نکلے، اے این پی بھی نکلے اور اچکزئی کی پارٹی بھی نکلے، بچی کھچی ایم کیو ایم بھی نکلے۔ جب کروڑوں لوگ کنٹرو ل لائن کو پار کریں گے تو دنیا کی کوئی فوجی طاقت ان کا راستہ نہیں روک پائے گی۔
خدا کرے، چوبیس نومبر کاسورج امید کی کرنوں سے لبریز ہو کر طلوع ہو، وہ کشمیرمیںبھارتی فوج کی اندھیر گردی کو آزادی کے روشنی سے منور کر دے۔ خدا کرے، خدا کرے !
مگر میرے دل میں وسوسے ہیں، مایوسی ہے۔ ہم نے ایف سی کے ان جوانوں کی تخواہ میں سو فی صد اضافہ کر دیا جنہوں نے ایک ہفتے تک دارالحکومت اور موٹر وے پر ڈنڈے، اور آنسو گیس برسانے کی انتہا کر دی، ہم نے آنسو گیس کے دم گھٹ کر شہید ہونے والی تین دن کی بچی کے والد کو بھی دس لاکھ کا چیک دے دیا، ہم ہر دھماکے میں شہید ہونے والے کو پانچ لاکھ یا دس لاکھ دیتے ہیں اور پنڈ ارائیاں میںایم آئی کے جس لانس نائیک نے جاتی امرا پر دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بنانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس کے ورثا کو ایک کروڑ کا نذرانہ پیش کیا مگر میرے علم میں نہیں کہ موٹر وے کی کھائی میں گر کر شہید ہونے والے فوجی کرنل کے وارثوں کو بھی حکومت نے پوچھا ہو، ایسی کوئی مثال نہیں کہ شکر گڑھ، ناروال ، بجوات یا کنٹرول لائن پر شہید ہونے والوں کے ورثا کی مالی معاونت کی گئی ہو، ان کے مال مویشی کا بھی نقصان ہوتا ہے، گھر بار بھی گولہ باری سے تباہ ہو جاتے ہیں اور وہ بے یار و مددگار پھرتے ہیں، الٹا ہم تمسخر اڑاتے ہیں کہ یہ شخر گڑیئے ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے، اللہ ہمیں ہدات دے!
میرے مرشد محترم مجید نظامی کی خواہش تھی کہ کشمیر ان کی زندگی میں آزادی سے ہمکنار ہو جائے، خواہشات کو موت نہیں آتی، میں ان کی خواہش کی تکمیل کے لئے دست بدعا ہوں۔
میں کالم مکمل کر کے اپنے دفتر کو ای میل کرنے والا ہی تھا کہ کابینہ کا یہ فیصلہ آ گیا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے متاثر ہونے والوں کی امداد کی جائے گی۔ میںا س فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں اور میرا یہ تاثر بھی درست ثابت ہوا ہے کہ اب تک ہم نے ان لوگوں کو نظر انداز کئے رکھا تھا۔