تحریر : شجاع اختر اعوان
صوبہ پنجاب میں آج کل دھرنوں اور احتجاج کا بول بالا ہے۔ آئے روز تاجر ، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف ، نرسز، کلرکس اور کئی شعبوں سے وابستہ افراد احتجاجی ریلیوں اوردھرنوں کی صورت میں اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پرنظر آتے ہیں۔پنجاب بھر کے کیمسٹوں نے بھی شٹر ڈائون ہڑتالوں اور بھر پور احتجاج کاسلسلہ شروع کر رکھا ہے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے بعد اب وزیر اعلی ہاوس کے گھیراو کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ حکومت پنجاب نے 6 اگست 2015 ء کو پنجاب ڈرگز آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے ذریعے ڈرگ ایکٹ اور ترامیم میں اضافہ کیا گیا ہے ادویہ کی تحریفوںمیں خود ساختہ تبدیلیوں کی بنیاد پر سزائو ں میں اضافہ کر کے جہاں انصاف کو پابند کیاگیا ہے وہاں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ سزائیں بھی متعین کر دی گئی ہیں۔ کیمسٹ برادری کے مطابق یہ ترامیم ڈرگ ایکٹ 1976ء سے متصادم ہے۔
ڈرگ ایکٹ 1976 ایک وفاقی قانون ہے جس کا دائرہ کار سارا پاکستان ہے اس ایکٹ میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترامیم نہیں کی جاسکتیں۔ پاکستان میں ادویہ سازی زیادہ تر برٹش فارما کوپیا اور امریکن فارما کوپیا کے مسلمہ قواعدوضوابط کے تحت کی جاتی ہے۔ متذکرہ دونوں فارما کوپیا اور دنیا دیگر فارما کوپیامیں ادویہ سازی اور ان کے معیار کوجانچنے کے لیے اجزائے ترکیبی کے بارے قواعد و ضوابط موجود ہیں ان کو معیار بنا کر ہی تمام مراحل طے کیے جاتے ہیں اور متحرک جزوکو ہی دواسمجھ کر اس کے معیاری ، غیر معیاری یا جعلی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 1976ء کے ایکٹ کے مطابق بھی یہی قانون رائج ہے۔
مگر نئی ترامیم کے ذریعے حکومت پنجاب نے غیر معیاری کو اس فہرست سے نکال کر ادویات کو معیاری اور جعلی دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ دوا جس کا تجزیہ کیا جائے گا اگر اس کی زائد ترکیبی 98%بھی درست ہیں پھر بھی محض دو فیصد پر اسے جعلی قراردیا جائے گا ۔ اور اگر کسی دوا کا رنگ تبدیل ہو گیا یا پھیکا پڑ گیا یا گولی کیپسول بلسٹر کے ساتھ چپک گیا تو بھی جعلی تصور ہو گا۔ اور اس کی سخت سزا اور بھاری جرمانہ کیمسٹ کو ادا کرنا پڑے گا۔ ایسا قانون دنیا کے کسی ملک میں رائج نہیں اور نہ ہی پاکستان کے دوسرے صوبوں یا وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں ہے کوئی فارما کوپیا اس طرح کی تقسیم نہیں کرتا یہ قانون وفاق اور قانون سب کے لیے، یکساں ، کے مسلمہ اصولوں کے برعکس ہے۔
حیران کن طور پر حکومت پنجاب نے ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے اور اس کو بنیادبنا کر ڈرگ اتھارٹی آف امریکہ ، یورپین ڈرگ اتھارٹی ،میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر ریگولیرٹی اتھارٹی آف یو کے ،امریکہ ، آسٹریلیا اور جاپان کی فارن ڈرگ اتھارٹی کو متعارف کروا کر غیر ملکی ادویات کی فروخت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب درج بالا تمام ممالک کی ادویات ہمارے ہاں منظور شدہ تصور ہو ںگی اور مریضوں کو انتہائی مہنگے داموں پر مہیا کی جائیں گی۔ جبکہ پاکستان میں ادویہ سازی کے 600 ادارے کام کر رہے ہیں۔ اور پنجاب میں 250 کے قریب فارما یونٹس موجود ہیں۔ یہ ترامیم ملک میں بین الصوبائی تجارت ، ادویہ سازی ، ادویہ فروشی میں رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ ملک دیگر صوبوں کے فارما یونٹس نے پنجاب کو ادویات کی فراہمی معطل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔
اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جہاں جائز کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔ خادم اعلی پنجاب جو کہ صوبہ کے عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور ان کی نیت کے مخلص ہونے پر شک بھی نہیں کیا جاسکتا ان کے لیے میری تجویز ہے کہ میں اس تمام ترامیم ادویہ فروشی سے منسلک افراد پر ہی نہ لوگو کی جائیں اور سارا نزلہ لائسنسی اداروں پر نہ گرایا جائے
اس ترمیمی آرڈیننس کو واپس لے کر ڈرگ ایکٹ 1976 جو کہ ایک بہترین قانون ہے پر ہی عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور کوئی بھی نئی ترامیم سے پہلے تمام سٹک ہو لڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اگر عمل کیا جائے تو یقینا ہمارا تجویز کر دہ یہ نسخہ جہاں کیمسٹ برادری میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کرنے میں معاون ہو گا وہاں حکومت کی مشکلات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
تحریر : شجاع اختر اعوان