تحریر: رخ یعقوب
“ابو جی یہ دیکھیں آپ کی بیٹی کے کرتوت ۔ ” فہد بھائی ایک دم چیختے ھوئے دروازے سے اندر داخل ھوتے ابو جی سے بول پڑے۔ “کیا ھوا میری بٹیا کیوں ایسے بیٹھی ھے ؟ ” ابو جی نے فہد بھائی کی بات کو در اعتنا جانتے ھوئے رتی برابر اہمیت نہ دی۔
“ابو جی اس کے پاس سے یہ موبائیل فون برآمد ھواھے ۔” فہد بھائی زہر خند لہجے میں بولے ۔ اور اس کی مارنے کی آگے لپکے لیکن ابوجی کے میرے آگے کھڑے ھونے کی بنا پر وہیں رک گئے ۔ اور میری امی پر قہر آلود نگاہ ڈالی او بولا
“یہ ھے آپ کی تربیت ؟ ۔ کالج گئے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہ ھوئے اور لگی ۔ ۔ ۔ ” اس سے پہلے کہ فہد بھائی پاس بیٹھیں حیران پریشان امی سے بات پوری کرتے ابوجی پلٹ کر ایک ایسی سرد نگاہ ڈالی کہ فہد بھائی کی زبان سخت طیش میں بھی تالو سے چپک کر رہ گئی۔
“ابو جی یہ ۔ ۔ یہ میری دوست کا ھے ۔ اس نے دیا تھا مجھے ” میں گھگھیاتے ھوئے بولی “ابو جی ایسا ایک فون پہلے بھی مجھے مل چکا ھے اس سے ۔ ” فہد بھائی شدید غیظ و غضب میں سب راز کھولنے کو تیار کھڑے تھے ۔
“ابو جی معاف کر دیں ” میں کوئی راہ نہ پا کر ابو جی کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگی ۔ ساتھ ہی کئی واقعات آنکھوں آگے آکر رقص کرنے لگے ۔
کہیں غیرت کے نام پر قتل ھوئی بیٹی
کہیں گلا کاٹ دیا اسی غیرت میں
گلا دبا کر اپنی غیرت کا جنازہ نکلنے سے روک دیا
کہیں زندہ جلا دیا ۔
بیٹی کو موت دے کر غیرت کو حیات دے دی
مختلف انداز اپنائے گئے
باپ شفیق باپ نہ رہا ۔
بھائی سایہ نہ رہا
ماں جلانے کے لئے سامان کرتی نظر آئی
مجھے میری موت میری آنکھوں کے سامنے ناچتی نظر آنے لگی ۔ ابلیس کا جھومتا رقص آنکھوں آگے دندنانے لگا ۔ ایسا محسوس ھوا کہ بنا کسی کے ہاتھ لگائے سانس ابھی سے سینے میں اٹک رہی ۔ دھڑ بے جان ھوتا محسوس ھوا۔
انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ
ابوجی کی نرم محبت سے لبریز لیکن تنبیہی آواز میرے سر پر ہاتھ رکھ کر گونجی ۔
“فہد میری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی ۔ اگر وہ کہہ رہی ھے کہ یہ فون اس کی سہیلی کا ھے تو یہ فون اس کی سہیلی کا ہی ھے ۔ خبردار اگر کسی نے میری بیٹی کو اب کچھ کہا ۔ جاؤ بیٹا آپ پڑھو جا کر ۔فہد ہاتھ کاٹ دوں گا اگر اب میری بیٹی کی طرف اٹھے تو ” ابو جی کا یہ کہنا ایک دم میرے لئے تپتی تارکول کی سڑک پر ننگے پاؤں چلتے ھوئے ایک دم ٹھنڈی رحم محبت کی بارش کی طرح محسوس ھوا جس نے برستی گرمی اور غضب کو منہ چھپا کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیا ۔
شیطان کے ہنستے کھلے منہ پر ایسے زور کا تھپڑ پڑا کہ وہ بوکھلاہٹ میں یہ بھی بھول گیا ھو گا کہ یہاں سے جانا تھا ۔ کیونکہ وہ جو توقع کئے بیٹھا تھا کہ یہاں خون کی ہولی ھوتے دیکھے گا ۔ رشتوں کا تقدس اڑائے جانے کا تماشہ ھوتے دیکھنا تھا ۔ لیکن یہاں تو ایک شیطان کا روپ دھارنے کی بجائے شفقت کا بول بالا کر ھوا۔
میرے ابو جی نے سب سے بڑے اور اکلوتے بیٹے کو جھاڑ کر ایسے رکھ دیا کہ جیسے اکلوتی بیٹی ھوں ان کی ۔ جہاں بھائی اپنی بات کی سچائی کو ثابت نہ کر پائے ۔ اور ابو جی کے غصے کی گرج برس سے جھاڑ دیئے گئے ۔ شرمندہ ھوئے وہیں میں اسی شرمندگی کے بوجھ تلے ایسے دبی کہ تا عمر نہ اٹھ پائی ۔ ابو جی کے اعتبار پیار شفقت مان کی چھاؤں نے مجھے ایسے زیر بار کیا کہ تاحیات سر اٹھا نہ سکی اور اپنی نظروں کو وہ پاکیزکی عطا کی ۔ اپنے جذبات کو وہ سچائی بخشی۔
ایسی سیدھی راہ کی جانب گامزن کیا جو صراط مستقیم کہلاتی ۔ مجھے اس اعتبار کی لاج رکھنی تھی جو اس بوڑھے باپ کے ہاتھ کی لرزش میں تھی جب اس نے میرے سر کو اپنے بوڑھا ہاتھ سے ڈھانپا تھا۔ چھت مہیا کی تھی اپنے اعتماد کی ۔ اس کی ثابت قدمی میں تاعمر محسوس کرتی رہی جو میں نے تب جانی جب بھائی کے الزامات کی بوچھاڑ کے باوجود میرے ابو جی کے آنکھوں سے چھلکتے ساتھ میں تھی۔ مجھے ان تمام الزامات کی تردید اپنے اعمال سے کرنی تھی۔ چنانچہ کہ وہ الزامات سچ پر مبنی تھے ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر: رخ یعقوب