تحریر: نعیم الرحمان شائق
پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب نقل کلچر ہے۔ مجھے دیگر صوبوں کا علم نہیں ، لیکن جس طرح صوبہ ِ سندھ کے شہر کراچی میں نقل ہوتی ہے ، اس سے ہماری تعلیم کے معیار کا پول کھل جاتا ہے ۔ ان دنوں امتحانا ت کا دور دورہ ہے۔ اسکولوں میں امتحانات ہو گئے ہیں ۔ اگلے مہینے کی ابتدا میں کراچی میں جماعت نہم اور دہم کے امتحانات شروع ہوں گے ۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات ہوں گے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ امتحانات سے بالکل خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے چہروں سے پریشانی ذرا بھی نہیں جھلکتی ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں نقل کر کے پاس ہو جائیں گے ۔ یہ نقل ہی ان کے کام یاب ہونے کا واحد سہارہ ہے۔
نقل ایک دیمک کی مانند ہے ، جو ہمارے تعلیمی نظام کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ پہلے نقل جماعت نہم اور دہم تک محدود تھی ۔ پھر بڑھ کر گیارہویں اور بارہویں جماعت تک پہنچ گئی ۔ اب اس سے اوپر کی کلاسوں میں بھی بڑی شان کے ساتھ نقل کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تعلیم کا نظام درہم برہم ہوتا جار ہاہے۔ لیکن کوئی اس زہر ِ قاتل کے لیے موثر عملی اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ امتحانات سے پہلے ہم متعلقہ حکام کے بیانات اخبارات میں پڑھتے ہیں ، جس میں اس بات کا عزم کیا جاتا ہے کہ اس دفعہ نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقداماتکیے جائیں گے ۔لیکن ایسا ہوتا نہیں ۔ بیانات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارےتعلیمی زوال کا زور ذرا بھی نہیں تھمتا۔ اس میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں ہر ایک نقل میں ملوث ہیں ۔ بہت سے درد دل رکھنے والے انسان ہیں ، جو اس زہر سے اپنی نئی نسل کو بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ بہت سے ایسے امتحانی مراکز ہیں ، جہاں بالکل نقل نہیں ہوتی۔ بہت سے ایسے طالب ِعلم ہیں ، جو نقل سے اپنا تعلیم دامن بچائے رکھتے ہیں۔ بہت سے ایسے والدین ہیں ، جو اپنے بچوں کو تلقین ہی نہیں ، تاکید کرتے ہیں کہ نقل سے باز رہنا۔ بہت سے استاد ایسے ہیں جو بہ صد خلوص اپنے شاگردوں کو امتحانات کی تیاری کراتے ہیں ، تاکہ وہ نقل سے باز رہیں ۔ میری نظر میں یہ سب لوگ ایک بہترین کام سر انجام دے رہے ہیں ،ان کے اس کام کی جتنی ستائش اور حوصلہ افزائی کی جائے ، کم ہے۔
لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ، جو نقل کے ذریعے ہماری تعلیم کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔ میں نے ایسے ایسے امتحانی مراکز بھی دیکھے ہیں ، جہاں کلاس سے نگران کو بدمعاشی کے زور پر نکال دیا جاتا ہے۔ اور پھر بچوں کو چند روپوں کے عوض حل شدہ پرچے دے دیے جاتے ہیں۔ امتحانات کے دوران ہر ایک کو اندر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جو اپنے جاننے والے طلبہ کے لیے نقل لاتے ہیں ۔آپ خود سوچیے کہ اس طرح کے ماحول میں ہماری تعلیم بھلا کیوں کر پروان چڑھے گی ۔ وہ لوگ ، جو نقل کے اس برے کھیل میں ملوث ہیں ، انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ اپنی آنے والی نسل کے لیے بہت برا کر رہے ہیں ۔تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ لیکن جب یہی تعلیم نقل جیسی بیماری کے بھینٹ چرھ جائے تو پھر تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
صوبہ سندھ میں نقل کے لیے سخت قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ طالب علم جماعت سے امتحانی کاپی باہر نہیں لے جا سکتا۔ نقل کرنا تو در کنار، وہ امتحانی مرکز میں موبائل بھی نہیں لا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نقل کے خلاف بنائے گئے ان قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب ہر گز “نہیں ” میں ہوگا۔ پھر اگلا سوال یہ ہے کہ ان قوانین پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اب نقل کلچر اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس کا زور ، اگر متعلقہ حکام توڑنا چاہیں توبھی ، بڑی مشکل سے ٹوٹے گا۔ آسان لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب صورت حال بہ ایں جا رسید کہ نقل کے خلاف مستعمل قوانین پر فی الفور عمل نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال اور زیادہ خطرناک ہے ۔ جس کا تدارک ، جتنا جلد ہو سکے ، کر دینا چاہیے۔
ہمارے طلبہ امتحانات میں ناجائز ذرائع استعمال کرکے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔ ڈگریاں لے کر جب وہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں تو بہ مشکل ہی کوئی اچھی نوکری تلاش کر پاتے ہیں ۔ اکثر وہ بے نیل و مرام لوٹتے ہیں ۔یا پھر کسی چھوٹی موٹی نوکری پر قناعت کر لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب وہ تعلیم جیسے مقدس فریضے میں بھی ناجائز ذرائع استعمال کرکے دو چار ڈگریاں لے لیتے ہیں تو ان میں ذرا بھی قابلیت پیدا نہیں ہوتی۔ جب کہ نوکری ڈگری سے زیادہ قابلیت مانگتی ہے۔ جتنی بڑی نوکری ہوگی ، اتنی بڑی قابلیت کی محتاج ہو گی ۔ایسے “پڑھے لکھے “نوجوانوں کوجب نوکری نہیں ملتی تو وہ دانت پیستے رہ جاتے ہیں اور گلے شکوے کرتے پھرتے ہیں کہ یہاں رکھا ہی کیا ہے۔ ہم نے اتنا “پڑھ ” لیا ہے۔ لیکن نوکری ہی نہیں ملتی۔ یہاں تو سب اپنوں کو نوازتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
تقریبا ایک سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا ، جس میں نقل کی روک تھام کے لیے چند تجاویز دی تھیں ۔ آج کی اپنی تحریر میں وہی تجاویز دوبارہ دہرا کر اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔ 1۔ سال کے ابتدا میں ہی سرکاری سطح پر یہ اعلان کر دیا جائے کہ اس دفعہ جو اسٹوڈنٹ کسی بھی ذریعے سے (مثلا موبائل ، کاپی یا کسی اور ذریعے سے )نقل کرتے ہوئے پکڑا جائے گا، اس کے خلاف قانونی کار روائی کرنے سے بالکل گریز نہیں کیا جائے گا ۔(مجھے باقی صوبوں کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ وہاں نقل کی کیا سزا ہے ، لیکن سندھ میں نقل کی سزا یہ ہے کہ امید وار تین سال تک امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا ۔) 2۔ تمام اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپل ، ہیڈ ماسٹروغیرہ کو سال کی ابتدا میں ہی محکمہ ِ تعلیم کی جانب سے نوٹس بھیج دیا جائے کہ وہ اپنے شاگردوں کی پڑھائی پر خصوصی توجہ دیں اور انھیں امتحانات کے دوران نقل نہ کرنے کی تنبیہ کریں ، تا کہ وہ قانونی کارر وائی اور سزا سے بچ سکیں۔
3 ۔ امتحانی مراکز میں سوائے امید واروں ، نگرانوں اور متعلقہ حکام کے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ ( میں نے بارہا دیکھا ہے کہ امیدواروں کے رشتہ دار اور دوست وغیرہ امتحانی مراکز میں بے باکی سے داخل ہو جاتے ہیں اور امید واروں کو نقل فراہم کرتے ہیں۔ اکثر اوقات نگران کو ڈرا دھمکا کر کلاس سے ہی نکال دیتے ہیں۔ یہ کتنے فسوس کی بات ہے!) 4۔ چھوٹی چھوٹی جیبی سائز کی حل شدہ کتابوں پر پابندی عائد کی جائے ۔(برائے مہربانی ان کتابوں کے شائع کرنے والے ناراض نہ ہوں ، کیوں کہ یہ حل شدہ جیبی سائز کی کتابیں نہ صرف طلباء کو نقل فراہم کرنے میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں ، بلکہ ان کی وجہ سے طلباء نصاب کی اصل کتاب بھی نہیں پڑھتے ۔) 5۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ نقل کے سدباب کے قانون پر عمل ضرور کیا جائے۔ (ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں قوانین تو بن جاتے ہیں ، لیکن عمل نہیں کیا جاتا۔)
تحریر: نعیم الرحمان شائق
shaaiq89@gmail.com