تحریر : نعیم الرحمان شائق
یقین جانیے، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے “نقل کی روک تھام ” کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے۔ بھارت کے طلبہ کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں کا بنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں تو یہ بالکل اچھی بات نہیں ہے ۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا۔ ہمارے حساس دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے۔ اس لیے ہم نے ایک جذباتی کالم لکھ مارا۔ کیوں کہ ہمارے لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی تھی کہ نقل “صرف ” ہمارے بچے کرتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں معلوم ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک چھوٹی سی ترمیم کرنی پڑی ۔اب ہمارے لا شعور کا خیال تھا : “نقل ہمارے بچے بھی کرتے ہیں۔”اس “صرف” نے سارا کام خراب کر دیا۔ اور ہم نے نقل کے نقائص بیان کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔ اب ہمیں بہت پشیمانی ہو رہی ہے ۔ پر اب کیا ہووت اب چڑیا ں چگ گئیں کھیت ۔ ہمیں اس بات کا تاسف کھائے جا رہا ہے کہ ہم نے اپنے کھلنڈرے طالب علموں کے جذبات کی ذرا بھی قدر نہیں کی ۔ہم نے ان کے “بنیادی اور جمہوری” حق کے خلاف بول کر بہت بڑی خطا کی ہے۔
اب ہم ان دو خبروں کا احوال بیان کرتے ہیں ، جن کو پڑھ کر ہمارے خیالات میں ایک “انقلابی” تبدیلی رو نما ہوئی ۔ان میں سے پہلی خبر یہ ہے کہ امریکی ریاست میری لینڈ کا محکمہ ِ تعلیم دو ایسے طالب علموں کے خلاف قانونی کا رروائی کی کو شش کر رہا ہے ، جنھوں نے میٹرک کے امتحان میں انگریزی کے پرچے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے نقل کی تھی ۔ امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔ اس لیے وہاں کے طالب علموں نے نقل کے لیے بھی “ترقی یافتہ ” طریقہ استعمال کیا۔ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے، اس لیے یہاں نقل کے لیے بھی “ترقی پزیر ” طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ یہاں ٹوئٹر سے زیادہ پرچیوں سے مدد لی جاتی ہے۔ میری لینڈ کی ریاست کے محکمہ تعلیم کے ترجمان ولیم رائین ہارڈ کہتے ہیں : “پہلے طلبا اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کسی دوسرے طالب علم کی تحریر دیکھ کر نقل مارتے تھے۔ اب لیکن امتحان میں نقل مارنے کے لیے جدید ذرائع استعمال کیے جانے لگے ہیں۔”اس طرح کی باتیں ہم بھی کبھی ترنگ میں آ کر کہہ دیتے ہیں۔ مگر یقین جانیے کہ اس طرح کی باتوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سب کچھ وہی رہتا ہے۔
ولیم رائن ہارڈ کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ آج کے بچے بہت تیز ہیں۔ وہ نقل کرنے کے ہر فن سے واقف ہیں۔ انھیں نقل کے ایسے ایسے طریقوں کا علم ہے، جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔ پھر دور بھی جدید ہے۔ جدید دور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر شے میں جدت کا ظہور ہو۔ اگر ان کی ریاست کے بچے نقل کے طریقہ ہائے کار میں جدت لاتے ہیں تو کیا ہوا؟ جیسی کو مارٹ نے ، جو امتحانات کا اہتمام کرنے اور ان امتحانات کا اہتمام کرنے والی ایک کمپنی کے ترجمان ہیں، بین الاقوامی نیوز ایجنسی روئٹرز کا بتایا کہ موجودہ امتحانات کے دوران اب تک چھ امریکی ریاستوں میں طلبہ کی طرف سے ’آن لائن چیٹنگ‘ کے مجموعی طور پر 76 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔جیسی کومارٹ کے اس انکشاف سے معلوم ہوا کہ معاملہ دو بچوں تک محدود نہیں ، بلکہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔اس لیے اب یہی بہتر محسوس ہوتا ہے کہ طلبہ کو ان کا بنیادی حق دے دینا چاہیے ۔ریاست میری لینڈ کے یہ ہونہار بچے اگر کسی دقیق مضمون میں نقل کرتے تو تو بات بنتی ۔ مگر انھوں نے انگریزی میں نقل کر کے دنیا کو ورطہ ِ حیرت میں ڈال دیا ۔ یہ بات باور کرادی کہ آسان مضامین میں نقل کرنا بھی کوئی اچنبھے یا عیب کی بات نہیں ۔ ہر مضمون میں نقل کی جاسکتی ہے۔ چاہے وہ مشکل ہو یا آسان۔
اب دوسری خبر کی بات کرتے ہیں۔ یہ خبر زیادہ دور کی نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ہے ۔ بی بی سی رقم طراز ہے :”بھارت کی ریاست بہار میں امتحانات کے دوران نقل کرنا عام ہے لیکن نئی حاصل ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس بڑے پیمانے پر نقل بڑی بے باکی سے ہوتی ہے۔” بی بی سی نے اس خبر میں سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کی ہے کہ اس خبر کے ساتھ ایک ایسی تصویر چسپاں کی ہے ، جس میں ایک عمارت کی کھڑکی سے طلبہ و طالبات کے “عزیز و اقارب ” اپنے بچوں کو نقل کا سامان مہیا کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ بی بی سی نے یہ بھی لکھ دیا: “سکینڈری سکول کے امتحان کے دوران طالب علموں کے دوست اور یہاں تک کہ ان کے والدین دیواریں پھلانگ کر انھیں سوالات کے جوابات اور نقل میں مدد دینے والا دیگر مواد پہنچاتے نظر آتے ہیں۔” اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ بات نظر سے گزری : “بی بی سی ہندی کے منیشن سندیلا کے مطابق مقامی اخبارات ایسی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں جس میں والدین اپنے بچوں کو نقل کرنے میں مدد دے رہے ہیں اور اس کوشش میں بعض تو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔” اس جذبہ و ایثا کو ہم کیا نام دیں ۔ بھارت ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے ۔ وہاں کے بچے ہمارے بچوں سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں ۔ اب جب وہاں اس طرح نقل کا رواج ہے ، تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنے بچوں کو نقل کے نقائص کا درس دینے والے ۔بی بی سی کی اس خبر سے یہ بھی معلوم ہوا : “اب تک چار سو طالب علموں کو نقل کرنے پر امتحانات سے نکال دیا گیا ہے تاہم حکومت اکیلے اس مسئلے پر قابو نہیں پا سکتی اور اس میں میں والدین اور طالب علموں کو بھی ساتھ دینا چاہیے۔” امریکی ریاست میری لینڈ میں نقل کے 76 واقعات سامنے آئے ہیں تو اس کے بر عکس بھارتی ریاست بہار می 40 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت اگر اس مسئلے پر قابو نہیں پاسکتی تو اس مسئلے کو بالکل چھوڑ دے ۔کیوں کہ مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اسے بالکل نظر انداز کر دیا جائے!
تحریر : نعیم الرحمان شائق
shaaiq89@gmail.com