تحریر: روہیل اکبر
آجکل حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لاشوں کی سیاست کا اظہار بڑے زور شور سے کیا جارہا ہے حکومت والے کہتے ہیں کہ عمران خان کو اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے اور لوگوں کو بھڑکانے کے لیے اپنی سیاست میں لاشوں کی ضرورت ہے جسے پھر وہ اپنے کندھے پر رکھے شہر شہر گھومیں گے جبکہ اپوزیشن جماعتیں جو اس وقت سڑکوں پر ہیں ان کے لیڈران فرماتے ہیں کہ حکومت ہمارے پر امن مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے ہمارے بے گناہ اور معصوم کارکنوں کو قتل کررہی ہے تاکہ لوگ قتل و غارت کے ڈر سے سیاسی جلسے جلوسوں میں آنا بند کردیں ملک میں لاشوں کی سیاست کا آغاز اس دور میں نہیں ہوا۔
بلکہ قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں لاشوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے اور جوں جوں وقت گذرتا گیا ویسے ہی سیاسی ماحول اور سیاست کے میدان میں گرمی لانے کے لیے لاشوں کا کردار بھی بڑھتا گیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت کے نااہل مشیروں اور ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی بدولت پہلے منہاج القران کے باہر ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے سیدھی گولیاں چلا کر ورکروں کو مار ڈالا بعد میں اسلام آباد میں یہی واقعہ دھرایا گیا اسکے بعد فیصل آباد میں بھی حق نواز کو سیدھی گولی مار کر ابدی نید سلا دیا گیا ہمارے لیڈر چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاسی لیڈر چاہتے ہیں کہ انکے ورکروں پر پولیس ظلم کے پہاڑ توڑتی رہے اورانہیں مارتی رہے تاکہ وہ ان حکومتی مظالم کو عوام کے سامنے لا کر روتے رہیں انکی ہمدردیاں حاصل کرکے کسی نہ کسی طریقہ سے حکومت میں آجائیں اور پھر ساری زندگی انکی پروٹوکول کے سائے میں ہی گذر جائے رہ گئی عوام کی بات وہ روتی رہے اور تڑپتی رہے کیونکہ عوام بے چاری ہے ہی اسی مقصد کے لیے جبکہ ہمارے سیاسی کارکن بھی انتے باشعوراور سمجھدار۔
نہیں ہوئے کہ وہ اپنے جائز مطالبات ہی اپنے لیڈروں سے کوئی بات منوا سکے مطالبات منوانا تو بڑی دور کی بات ہے کارکن اپنے لیڈر کے ساتھ ایک تصویر بھی نہیں بنوا سکتے جسے وہ سند کے طور پر فریم کروا کر اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں لگوا سکیں جبکہ ایسے سیاسی مینڈک جو ہر حکمران جماعت میں حکومت کے مزے لینے کے بعد جب کسی اور پارٹی کی مقبولیت دیکھتے ہیں تو پھر پھدک کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں ایسے سیاسی رہنماؤں کے پاس دولت اور عقل خوب ہوتی ہے جسے وہ استعمال کرکے اپنے لیے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ صاف کرلیتے ہیں جبکہ خون دینے والے ،پولیس تشدد برداشت کرنے والے اور اپنے لیڈر کی ہر بات کو حق سچ مان کر میدان میں نکلنے والے ساری عمر ورکر ہی رہتے ہیں کبھی وہ اپنے بھائی کو کلرک بھرتی کروانے کے لیے تو کبھی وہ اپنے بیٹے کو کانسٹیبل لگوانے کے لیے منتیں کرتے نظر آئیں گے اور ہمارے لیڈر جو انہی سیاسی ورکروں کے کاندھوں پر پاؤں رکھ کر آگے نکلتے ہیں بعد میں انہی ورکروں کے سر کچلتے ہوئے اپنی سیاسی دوکانداری کو بڑھاتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں۔
ہمارے پارٹی ورکر شروع دن سے لیکراپنی زندگی کے آخری دن تک اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر سے وفا کرتے ہیں مگر انکے لیڈر جہاں اپنا مفاد دیکھیں گے بھاگ کر وہاں چلے جائیں گے کیونکہ سیاست میں کسی کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا صرف اپنے اپنے مفادات دیکھے اور سمجھے جاتے ہیں اسی گندی سیاست کی وجہ سے ہمارے سیاستدان پاکستان کو جس نہج پر ہم لے آئے ہیں وہاں پر اب نہ تو کسی ایماندار شخص کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی ایسے رہنماء کی ضرورت رہ گئی جو ملک وقوم کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے اپنے ورکروں سمیت ہر فرد کی تربیت ہی اس طرح کردی ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو ووٹ دینا تو دور کی بات ہے اسے اس سیاسی ماحول میں برداشت بھی نہیں کرسکتے جو کھانا پینا اور کھلانا نہ جانتا ہو ہماری بیروزگاری کا یہ حال ہو چکا ہے کہ ہم سیاسی ورکر کوئی کام کاج تو کرنہیں سکتے کبھی کسی کا کوئی کام کروادیا تو چار پیسے مل گئے ورنہ بیٹھے ہوئے ہیں اللہ کی آس پر اور جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں۔
انہیں ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا جب بھی الیکشن آتے ہیں تو بہت سے لوگ بڑے شوق سے اپنے کاغذات جمع کرواتے ہیں اور پارٹی ٹکٹ کے لیے امیدوار کروڑوں روپے پارٹی فنڈ میں جمع کروا کر اربوں روپے خرچ کرکے ہمارے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اب تک جتنے بھی الیکشن گذرے ہیں ان تمام انتخابات میں بعض ایسے امیدوار بھی ہوتے ہیں جن کی اپنے محلہ اور شہر میں شہرت بہت اچھی ہوتی ہے اور کچھ لوگ اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے انہیں الیکشن میں حصہ دلواتے ہیں مگر ان لوگوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوجاتی ہیں کیونکہ ایسے محب وطن اور ایماندار لوگ ہمیں قبول ہی نہیں ہیں ہم انہیں ووٹ دیتے ہیں جو بڑی گاڑی پر بڑے بڑے نوٹ بانٹا پھرے اور پھر کامیاب ہونے کے بعد خوب لوٹ مار کرے ہم اسے بھاری اکثریت سے جتواتے ہیں جیتنے کے بعد وہی رکن اسمبلی عوام کے نام پر ملنے والے فنڈز کو کھانا اپنا فرض سمجھتا ہے پروٹوکول اسکا کا خاندانی ورثہ بن جاتا ہے اقتدار میں رہتے ہوئے عوام کا خون اسکی زبان کو جو مزہ دیتا ہے پھر اسی عوامی خون کو کسی بھی جگہ گرانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا سیاسی ورکر کا خون ہر جگہ ضائع ہوتا ہے۔
جسکی خاطر خون بہایا جاتا ہے وہ اسے پھر مدتوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں جو پہلے سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں انکے اہل خانہ آج بھی انکی تصویروں کو گلے سے لگائے سوگوار بیٹھے ہیں انہیں نہ تو کوئی مالی امداد دی گئی نہ ہی انکے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا گیا کیونکہ ہر پارٹی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ورکروں اور انکی لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے جسکے بغیر اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہوا جاسکتا۔
تحریر: روہیل اکبر