موہن داس گاندھی اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان ایک چھوٹا سا دلچسپ مکالمہ درج ہے۔ گاندھی جی نے ایک بار قائداعظم سے پوچھا ”آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں؟“قائداعظم نے جواب دیا ”میں اپنے فیصلوں کا فارمولا بتانے سے پہلے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں“ گاندھی جی نے کہا ”ہاں بتائیے“ قائداعظم نے فرمایا ”آپ سیاسی میدان میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ لوگوں کا موڈ‘ مزاج اور رائے کیا ہے؟ جب آپ کو لوگوں کی رائے معلوم ہو جاتی ہے تو آپ لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ان کی رائے کے مطابق اپنا فیصلہ سناتے ہیں جبکہ میں ہمیشہ اس کے برعکس فیصلہ کرتا ہوں“ گاندھی جی نے حیرت سے پوچھا ”کیا مطلب“ قائداعظم نے فرمایا ”میں صرف یہ دیکھتا ہوں‘ کیا صحیح ہے اور کیا غلط‘ اس کے بعد جو صحیح ہوتا ہے میں اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں“ گاندھی جی نے پوچھا ”کیا لوگ آپ کے اس نوعیت کے فیصلوں کو تسلیم کر لیتے ہیں“ قائداعظم نے فوراً جواب دیا ”نہیں‘ لوگ شروع شروع میں میرے ان فیصلوں کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں لیکن میں سچ پر ڈٹا رہتا ہوںیہاں تک کہ میرے فیصلوں کے مخالف آہستہ آہستہ سچائی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں“ قائداعظم نے فرمایا ”ایک صحیح فیصلہ ایسے ہزاروں غلط فیصلوں سے بہتر ہوتا ہے جو صرف لوگوں کو خوش کرنے کیلئے جائے“۔ آج کی بہترین پوسٹس پڑھنے کے لئے نیچے سکرول کریں۔ مجھے شک ہوا کی ٹیکسی میں کیمرہ لگا ہوا ایک دن میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوا اور اس کے ڈرائیور نے مجھے ایسا قیمتی سبق دیا جو مجھے بڑے بڑے سیمیناروں میں کبھی کسی معروف سپیکر سے حاصل نہیں ہوا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہتسے موٹیویشنل سیمینا ر اٹینڈ کیے تھے اور ان پر بہت سا پیسا بھی خرچ کیا تھا لیکن کل ملا کر بارہ ڈالر میں میں نے ایسا سبق ایک ٹیکسی والے سے سیکھا کہ میں دم بخود رہ گیا۔ جب وہ رکا تو میرے بیٹھنے سے پہلے، اس نے باہر نکل کر ایک مودب ڈرائیور کی طرح دروازہ کھولا۔ میں بیٹھا تو وہ بھی آگے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور اس نے مجھے مخاطب کیا کہ سر پلیز آپ کے ساتھ وال سٹریٹ جرنل رکھا ہوا ہے ۔ آپ اگر مطالعہ کرنا چاہتے ہوں تو۔ میں نے دیکھا تو بالکل صفائی سے تہہ ہوا وا ایک اخبار پڑا تھا۔ میں نے اٹھایا۔ اس نے بولا کہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی مرضی کا میوزک چلا دوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہیں یہ ’کینڈڈ کیمرہ‘ پروگرام کا کوئی حصہ تو نہیں۔ کہیں وہ مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہا تھا؟ میں نیو یارک میں بہت دفعہ ٹیکسی سے سفر کرتا تھا اور کبھی کسی نے اتنا رائل ٹریٹمنٹ نہیں دیا تھا۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیمرہ کدھر چھپایا ہوا ہے؟ وہ ہنسنے لگا اور بولا کہ سر میں در اصل کارپوریٹ سیکٹر میں دس سال جاب کرتا رہا ہوں اور اب ادھر سے تنگ آ کر میں نے اپنی ساری زندگی کی بچت سے یہ ٹیکسی خریدی ہے اور میں اپنے ہر کسٹمر کے ساتھ اسی طرح کے اخلاص سے پیش آتا ہوں۔ میں حیران ہوا۔ میں نے پوچھا کہ تم نے کارپوریٹ سیکٹر کیوں چھوڑا؟ وہ تو پیسے ہی پیسے ہیں اور کوئی بے وقوف ہی اتنا عزت والا کام چھوڑ کر ایسے کام کا انتخاب کرے گا۔ اس نے بتایا کہ کارپوریٹ سیکٹر کی ایک ہی پالیسی ہے کہ جتنا کر لیا اتنا ہی کم ہے۔ جتنا اچھا کر لیا اتنا ہی اور بہتر کرو۔ اس نے بولا کہ میں نے سیکھا کہ پیسے تو کسی بھی طرح سے کمائے جا سکتے ہیں بس انسان یہ نہیں دیکھتا کہ اس کو سکون اور آسانی سے کیسے کمایا جا سکتا ہے۔ میں ہر روز یہی کام کرتا ہوں اور میں بڑے مزے آرام اور سکون سے پیسے کما رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی مہنگے سیمینار سے اتنا کام کا سبق نہیں سیکھا تھا۔ میں نے اس کو بارہ ڈالر دیے اور اس کا دل سے شکریہ ادا کر کے چلتا بنا۔ میں بے اس کو اس کے بارہ ڈالر کے علاوہ بھاری بھرکم ٹپ بھی دی کیونکہ میرا یہ سفر بہت اچھا گزرا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اس کے تمام کسٹمر ہی اس کے ساتھ سفر کر کے خوش ہوتے ہوں گے۔