تحریر: وقارانساء
پرسکون زندگی کی خواہش ہر انسان کی ہوتی ہے- اس کے لئے وہ وسائل اکٹھے کرتا ہے دن رات محنت کرتا ہے سامان آسائش جمع کرتا ہے- لیکن پھر بھی سکون نہیں ملتا- مال ودولت کو سکون کا باعث سمجھا سکون نہ ملا نہ ہی پر آسائش زندگی سکون کی وجہ بن سکی – بچپن کی پریشانیاں تعلیم کی پریشانیاں ازدواجی زندگی کے اتار چڑھاؤ اولاد کے نہ ہونے کی اور پھر ان کے نافرمان ہونے کا رونا اور شادی بیاہ کے معاملات تک انسان یہی سمجھتا ہے۔
کہ یہ ہو جائے تو سکون ہو گا لیکن زندگیوں سے سکون یيسے اڑگیا ہے جیسے کوئی پرندہ وہ سامان راحت کاروبار گاڑیاں اچھے گھر تو جمع کر لیتا ہے لیکن وہ اسباب راحت نہیں بنتے آج ہر انسان سکون کی تلاش میں ہے لیکن وہ پانے کی چیز نہیں کہ مال ودولت سے خریدا جاسکے اس کو ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے کوئی نشے کا عادی ہوگیا تو کوئی برائی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا پھر بھی سکون ھاتھ نہ آیا –نہ آسائشوں میں نہ نمائشوں میں نہ ہی کسی اعلی درجے کے شاپنگ مال پر دستیاب ہوا کہ امراءکے ھاتھ ہی لگ جاتا – دنيامیں تو انسان کو مختلف حالات وواقعات سے دو چار ہونا پڑتا ہے یہ تو آزمائشوں کا گھر ہے – اس میں رہتے ہوئے نہ تو خلاف مزاج باتوں سے بچا جا سکتا ہے نہ ہی پریشانی اور تکلیف سے – کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کو ٹال سکتا ہے بس اس کے لئے اپنی سوچ کا محور تبدیل کرنا ہو گا – اور وہ محورہے تعلق باللہ۔
جب اللہ سے تعلق جڑ جائے تو پریشانی نہیں ہوتی پھر بندہ ان سب مشکلات اور پریشانیوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر خوشدلی سے قبول کر لیتا ہے – کیونکہ جس کو اللہ سے محبت ہوگی اس کو اس وقتی تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہو گا -وہ رب جو جانتا ہے انسان نہیں جان سکتا وہ مہربان رب تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے –وہ اپنے بندے کو آزماتا ہے – کبھی وہ دولت دے کر آزماتا ہے کبھی دولت لے کر بندہ مومن کا کام ثابت قدم رہنا ہے دنياوی مشکلات یا تو گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں یا یہ درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہیں -اور رب سے قرب کا بھی باعث ہوتی ہیں-اس لئے ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
مثبت سوچ بھی پریشانیوں کو کم کرتی ہے آزمائشوں اور پریشانیوں سے نجات انسان کے اختیار میں نہیں نہ تو اس کو بدلا جا سکتا ہے – تقدیر پر شاکر رہیں- دل کی دنیا کو اللہ کی محبت سے آباد کریں – اللہ کی محبت اور خشیت سے دل کو طاقت ملے گی یہ وہ ٹانک ہے جو پہاڑوں جیسی تکالیف اور پریشانیوں سے بھی دل کو کمزور نہیں ہونے دیتا کیونکہ مومن کا دل بہت مضبوط ہوتا ہے –آزمائش اور تکليف کووہ الارم سمجھتا ہے پھر سوچتا ہے ميرے رب نے مجھے یاد کیا ہے کہیں میں اس کی یاد سے غافل تو نہیں ہو رھا تھا ؟ – مجھے تو ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ہے -اور اگر اللہ چاہتا تو اس سے زیادہ آزمائش میں مجھے مبتلا کر سکتا تھا کیونکہ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے – پھر بھی اس کا شکر ہے اس نے بہت سوں سے اچھا رکھا ہے یہ باتیں اسے مثبت انرجی دیتی ہیں بندہ پر سکون ہوجاتا ہے – ہر حال میں اس رب کا شکر ايسا بندہ پھر واویلا نہیں کرتا اور منفی باتیں نہیں سوچتا کہ مجھ پر ہی کیوں آئیں یہ پریشانیاں اور نہ ہی پھر زبان سے کفر کے کلمات نکلیں گے کہ نعوذ باللہ اللہ نے تو پریشانیوں کے لئے مجھے ہی دیکھ رکھا ہے۔
جن کا رب سے تعلق نہیں ہوتا وہ اللہ سے اچھا گمان نہیں رکھتے ان کے دل پر اللہ کی نافرمانی سے دھبے پڑ جاتے ہیں اور گناہ کا ہر دھبہ دل کو کمزور کر دیتا ہے- اور زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے – بندہ پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے ان آزمائشوں سے زیادہ پریشان اس کو اس کے منفی خیالات کرتے ہیں
اس صورتحال میں اصلاح قلوب کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بندہ اطمینان پا سکے اب سوال یہ ہےکہ
اصلاح قلب یيسے ہو؟۔
1-یسب سے پہلے تقدیر پر راضی رہیں – سوچ لیں کہ اس ذات کے علاوہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ آپ کو کسی پریشانی میں مبتلا کر سکے!اور نہ ہی کوئی اس سے اللہ کے سوا نکال سکتا ہے۔
اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہوں مایوسی ایسا مرض ہے جو زندہ سے جینے کی امید چھین کر اس کو مردہ بنا دیتا ہے- اس کے علاج کے لئے اللہ کے سامنے اپنا دامن پھیلائیں پھر دیکھیں کہ اللہ کی رحمیں اور مدد کيسے آتی ہے۔
2- زندگی میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش زندگی کا سکون برباد کر دیتی ہے- چاہےوہ گھر ہو مال ہو اولاد ہو یا اعلی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کی خواہش۔
3 – حسد سکون کو برباد کر دیتا ہے ایسا شخص کسی کو خوشحال نہیں دیکھ سکتا ہے – ہر وقت یہ احساس کے اس کے پاس سب کیوں میرے پاس کیوں نہیں؟ وہ اللہ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتا – اس کا خون جلتا رہتا ہے – تو اس سے بچنے کے لئے اس کا علاج کریں۔
اس کا علاج یہ ہے کہ جس سے حسد محسوس ہو اس کی تعریف کریں – یہ کام مشکل تو ہو گا ليکن یہ حسد کا علاج بھی ہے – جب بھی اس سے ملیں خندہ پیشانی سے ملیں- اس کو تحفہ دیں اس کی پس پشت اس کی ترقی اور بھلائی کی دعا کریں ۔ان باتوں پر عمل سے دل کا حسد ختم ہو جائے گا
4 – حسد سے بھی بڑھ کر بغض رکھنا دل کو بے سکون کرتا ہے خواہ مخواہ ہی کسی سے بیر رکھنا عداوت رکھنا – کہ کوئی چیز مجھے ملے یا نہ ملے اس سے چھن جائے ان سب سے بچنے کا ایک حل تعلق باللہ – اور وہ ایسے ہی بنے گااس کے سامنے کھڑے ہوجائیں عاجزی سے – گناھوں کی رو رو کر معافی مانگیں ان آنسوؤں کی ٹھنڈی پھوار دل پر پڑے گی -اپنے پروردگار کے حضور توبہ کے لئے گڑگڑائیں اس سے اللہ کا قرب حاصل ہو گا عبادت کریں دوسروں کو تکلیف نہ دیں ہو سکے تو دوسروں کے کام آئیں – نیکی کا معیار تقوی ہے گناھوں سے بچنا ہے – دین کے کاموں میں خود کو لگائیں – اللہ کے سامنے اپنی پریشانی بیان کریں دعا کریں پھر عجيب خوشی ملے گی جو آپ کو پر سکون کر دے گی۔
تحریر: وقارانساء