تحریر: ساجد حسین شاہ
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی صدا میرے کانوں میں گونجتی ہے کہ ہما رے حکمران کر پٹ ہیں حکمران ملک کو لوٹ کر کھا گئے وغیرہ وغیرہ مجھے اس بات سے ہر گز اختلاف نہیں مگر کر پشن کسے کہتے ہیں اس سوال کے جو اب کی تلا ش میں ہوں کرپشن کی کو ئی حد بندی نہیں کی گئی کہ اتنے پیسوں سے کی ہوئی تو کر پشن وگر نہ نا ہو گی ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے اندر کے انسان کو گد گدا رہا ہے کہ اگر میں کچھ غلط کروں تو وہ کرپشن نہیں مگر اگر کو ئی منسٹر کرے تو اسکا شما ر کر پشن میں ہو گا کر پشن کی یہ تعر یف تو دل کو شا د کر رہی ہے اس طرح ہم ہر الزام با آسانی نظام پر ڈال کر خود صاف وشفاف بن جا تے ہیں اور حکمرا نوں کو برا بھلا کہنے سے نہ صرف ہما رے دل کا بو جھ ہلکا ہوجاتا ہے بلکہ زمانے سے اداسی بھی کم ہو جاتی ہے ہم یہ سفر پچھلے سڑ سٹھ برس سے طے کر رہے ہیں مگر ابھی تک یہ بھید ہم پر نہ کھل سکا کہ اصل معنوں میںکر پٹ ہے کو ن عوام یا حکمران ۔کہتے ہیں کے ایک آ دمی کے بہت سے رو پ ہو تے ہیں جو وقت بوقت بدلتے رہتے ہیں مگر افسوس ہما رے ہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے یہ روپ وقت کے سا تھ نہیں بلکے اپنی حو س کے ساتھ بد لتے رہتے ہیں اگر کوئی کام میرے لیے منافع بخش ہے تو میں کسی نہ کسی طر ح کو ئی من گھڑت دلا ئل پیش کر کے اسے جا ئزقرار دے ہی دوں گا بلکل اسی طرح ہم کر پشن کی تعریف کو اسی ترازو پر تولتے ہیں۔
دو سروں پر تنقید کر نا دنیا کا سب سے سہل کام ہے اس لیے تو ہماری ہر مجلس میں یہ فعل عام ہے بس دوسروں پر تنقید کے خوب تیر برسائو اور جب دل کا بو جھ ہلکا محسو س کر نے لگو تو ایک گلا س ٹھنڈے پا نی کا نو ش فرما لو مگر خود پر تنقید کر نے کے لیے جواں ہمتی درکا ر ہے یہ ہمت کرنا ہر کسی کے شیان شان نہیںاس کے بر عکس اگر ہم حکمت عملی سے کام لیں اور تنقید کا سہا را چھو ڑ دیں تو شا ید خاطر خواہ نتائج حاصل کر سکیں ہمارے اندر دو چیزوں کی اشد کمی پائی جاتی ہے وہ ہیں صبر و شکر جو مل گیا اس پر شا کر اور جو حاصل کرنا ہے اس پر صبر جب قو میں اس نعمت سے محروم رہ جا ئیں تو خدا ئی بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے ایک اور با ت جو ہم میں بہت عام ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا ملبہ قسمت پر ڈال کرخود برّی زماں ہو جا تے ہیںجب کے قسمت کے کچھ پہلوں کے تر تیب کار ہم خو د ہو تے ہیں۔دوبا رہ ز یربحث عنوان کی طرف آ تے ہیںکسی کی حق تلفی کرنا ,اپنے تھوڑے سے مفاد کے لیے دوسروں کو نقصان پہچانا یا اپنے فرائض میں کوتاہی برتنا کیا یہ سب کر پشن نہیں مجھے سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چا ہیے کہ کہیں میں بھی تو کر پٹ نہیں اگر جواب نفی میں ہو اور خود کو کر پٹ نہ پا ئوںتو شو ق سے حکمرانوں کو کر پٹ پکار سکتا ہوںلیکن اگر ایسا نہیں تو پھر اپنی کرپشن سے نجات حاصل کرنا میری اولین ترجیح ہونی چا ہیے
میرے قر یبی دوست جنکا کرپشن کیخلاف عمدہ پر چار ہوتا ہے اورمیں انکی ہر بات سے آما دہ ہوں نیز انکی اسی ادا نے انہیں میرے دل کے بہت قریب رکھا تھاگزری ہو ئی گرمیوں میں جب پاکستان گیا تو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا لیکن دلی طور پر بہت مایوس بھی ہوا کیو نکہ ان کے مہما ن خانے میں ائیر کنڈیشن نسب ہے جو بلا تا خیر لگا رہتا تھابجلی آ نکھ مچو لی کھیلتی رہتی مگر کمرا ہر وقت ٹھنڈا ہی رہتا تھامیں نے مزا حتا ان صا حب سے پو چھا کے اتنی مہنگی بجلی کے باوجود ان ٹھنڈی ہوا ئو ں سے لطف اندوز ہو نا کچھ حیران کن با ت ہے کہیں حکومت نے بجلی کا محکمہ آ پ کے حوالے تو نہیں کر دیا صاحب مسکرا تے ہو ئے بولے نہیں اپنی ایسی قسمت کہاں بس میٹر ریڈر کو ہر ماہ چندہ دیتا ہوں اس لیے بل قا بل بر دا شت ہے یہ اسی انسان کادوسرا روپ تھاجو میرے لیے انتہائی حیرا کن اور تکلیف دہ تھاکیو نکہ میں اس دو ست کا شمار ان چند دوستوں میں کرتا تھا جن کی عزت میںوا قعی دل کی گہرائیوں سے کرتا ہوں لیکن ایسے کئی ضمیر فروش لوگ ہیں جو ایسی ہی کر پشن کے مر تکب ہیں جن کی بد ولت کتنے ہی لو گ متا ثر ہو تے ہیں کتنے ہی معصوم بچے رات بھر پر سکو ن نیند سے محروم رہتے ہیں مگر جب بجلی گم ہو تی ہے تو سب سے پہلے انہی لو گو ں کی آ واز محکموں اور حکو مت کو کو سنے کے لیے بلند ہو تی ہے بڑے بز رگ کہتے ہیں کہ جب کو ئی غلط کام کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک بو جھ بن جا تا ہے جو اسے ملا مت کر تا ر ہتا ہے مگر نا جا نے وہ آواز ہما رے اندر ہی کیوں دب کر رہ گئی ہے کر پشن تو کر پشن ہی ہے چا ہے وہ چند رو پوں کی ہویااربوں کی کر نے وا لا عام آ دمی ہو یا پھر کو ئی منسٹر کر پٹ ہی کہلا ئے گادونوں کا گنا ہ ہم وز ن ہے اس لیے تو ہما رے اوپر ایسے حکمران مسلط کر دیے گئے ہیںکیو نکہ جیسی رعا یا ہو تی ہے ویسے ہی حکمران ہو تے ہیں لہذا حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے پہلے ہمیں اپنا موازنہ کر نا ہو گا اپنے طرز عمل اور سوچ کا دائرہ کار تبدیل کرنا ہو گا۔
کر پشن کے اس دور میں ہم کسی سے پیچھے نہیں بلکہ دنیا کے تما م مما لک کو ما ت دیتے آ ئے ہیں ایک سو پچھتر ممالک میں کر پشن کے لحا ظ سے ہم ایک سو چھبیس ویں نمبر پر تھے اور 1995-96 میں تو ہمیں دنیا کا دوسرا کر پٹ تر ین ملک سمجھا جا رہا تھا مگر حا لیہ دنوں میں کر پشن سے متعلق بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے تجزیے کے مطا بق پا کستان میں کر پشن میںخاطر خواہ کمی آ ئی ہے اور پا کستان ایک سو چھبیسویں نمبر سے پچا سویں نمبر پر آ گیا ہے جو پچھلے بیس برس کی سب سے کم تر ین سطح ہے یہ ہما رے لیے کسی خو ش خبری سے کم نہیں مگر اب بھی ہم کر پشن کے میدان میں کا فی آ گے ہیں لیکن افسوس نا ک اور شر منا ک بات یہ ہے کہ جو محکمے کر پشن کی روک تھا م کے لیے بنا ئے گئے ہیں وہ کرپشن کے میدان میں سب پر سبقت لے گئے ہیں ایسے محکموں سے ہم کیا تو قعا ت وا بستہ کر یں گے اس لییہمیں اداروں یا حکمرانوں سے پہلے خود کا احتساب کرنا چاہیے اگر ہم خو د کو اس لعنت سے دور کر لیں تو وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالی ہمارے لیے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں گے جو اعلیٰ صفا ت کے نمو نے ہوں گے انشا اللہ
تحریر: ساجد حسین شاہ
ریاض، سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631