تحریر: مسز جمشید خاکوانی
حضرت عمر بن عبدلعزیز کی زوجہ محترمہ کو ان کے والد خلیفہ عبدل ملک بن مردان نے ایک بیش قیمت گوہر دیا تھا عمر بن عبدلعزیز جب امیر المومنین ہوئے تو انہوں نے فرمایا اپنا تمام زیور بیت المال میں جمع کروا دو ورنہ میں تم سے الگ ہو جائوں گا کیونکہ مجھے گوارہ نہیں کہ تم اور تمھارا زیور جو رعایا کے روپے سے بنے ہیں اور میں ایک گھر میں رہ سکیں وہ بھی نیک بخت بیوی تھی اس نے اپنا سارا زیور بیت المال میں جمع کرا دیا۔
عمر بن عبد العزیز کے بعد جب جب یذید بن عبدالمالک بادشاہ ہوا تو اس نے اپنی بہن یعنی آپکی زوجہ محترمہ سے کہا آپ چاہیں تو اپنا زیور واپس لے سکتی ہیں انہوں نے فرمایا جو چیز اپنی خوشی سے ان کی حیات میں دے چکی ہوں اب ان کے بعد واپس لے کر کیا کرونگی عمر بن عبدالعزیز کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ مجھ سے خلیفہ دوم عباسیہ ابوجعفر منصور نے پوچھا تمھارے والد کی آمدنی کتنی تھی ؟کہا کل چار سو دینار۔یہ آمدنی رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھی اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی۔
عمر بن مہاجر جنھیں آپ نے کوتوال شہر مقرر کیا تھا کہتے ہیں آپ کی تنخواہ دو درہم روزانہ مقرر تھی آپ کا چراغ دان تین لکڑیوں کو کھڑا کر کے اس پر مٹی رکھ کر بنایا جاتا تھا جب اراکین سلطنت رات کو امور سلطنت کے لیئے آپ کے پاس جمع ہوتے تو آپ بیت المال کا چراغ جلائے رکھتے جب دربار برخاست ہو جاتا تو اس کو گل کر کے اپنا چراغ جلا لیتے ایک دن بنو مردان یعنی شاہی خاندان کے لوگ آپ کے رشتہ برادری والے آپ کے مکان پر آئے آپ کے بیٹے سے ملے اور کہا خلیفہ سے جا کر کہو آپ سے پہلے جس قدر خلفاء ہوئے ہیں سب ہمارے لیے عطایات اور جاگیریں مخصوص کرتے رہے ہیں۔
آپ نے ہم پر تمام چیزیں حرام کر دیں کیا بوجہ قرابت بھی ہمیں کچھ حق نہیں پہنچتا آپ نے جواب دیا جاگیریں اس لیے ہیں اور عطایات اس لیے موقوف ہیں کہ بیت المال میں امیروں اور غریبوں سب کا روپیہ جمع ہے تمہیں جاگیریں دے دوں اور روپیہ تمھارے عیش و عشرت کے لیے وظیفوں کی صورت میں بانٹ دوں تو بیوائوں،مسکینوں ،یتیموں، حق داروں کو کیا دوں اور خدا کی نافرمانی کر کے قیامت کے عذاب سے کس طرح نجات حاصل کروں ؟باقی رہی حق قرابت تو میرے نزدیک اس معاملہ میں تم اور ادنیٰ مسلمان جن کو تم ادنیٰ سمجھتے ہو برابر ہیں انہوں نے کہا بادشاہ خزانے کا مالک نہیں بلکہ امین ہوتا ہے ۔ایک ہمارے کرپٹ حکمران ہیں جو روزانہ اربوں کی پھکی لیتے ہیں کوئی جو نشاندہی کر دے تو ڈراتے دھمکاتے ہیں اپنی حد میں رہو۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستانکی رپورٹ برائے سال 1913۔1914میں انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف حکومت کے دوران ایک ہزار ارب روپے کی خرد برد ،بے قائدگیا اور گھپلے ہوئے ہیں آڈیٹر جنرل کی جانب سے تازہ ترین رپورٹ میں انتہائی ”نقصانات” کا ذکر کیا گیا ہے
ان میں وفاقی مجموعی فنڈز(فیڈرل کنسالیڈیٹیڈفنڈز)سے فنانس ڈویژن کی ایڈوائس پر 9.29.3ارب روپے کی بے قائدہ ہدائتی ادائگیاں
(ار ریگولر ڈائریکٹڈ پیمنٹس)شامل ہیں رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ضمنی گرانٹس کا ایک بڑا حصہ 307ارب روپے غیر منظور شدہ ہی رہے
جبکہ مالی سال 2013اور 2014 کے دوران 187ارب روپے کی رقم کے حسابات کی تصدیق نہیں ہو سکی رپورٹ میں قرضوں اور پیشگی ادائیگیوں کی مد میں 15.107ارب روپے مالیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا وفاقی حکومت کے کھاتوں میں 18.5 ارب روپے کی نقد رقم کے توازن میں بھی فرق پایا گیا ہے۔
اس کا ذکر اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی کیا ہے آڈیٹر کی جانب سے رپورٹ میں جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے مطابق عوامی اقدامات کیلئے قوائد و ضوابط معقولیت کے اصولوں اور دیانت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6.171ارب روپے خرچ کیے گئے۔
سرکاری وسائل کا غلط استعمال،چوری خردبرد اور فراڈ کر کے چالیس کروڑ روپے خرچ کیئے گئے 13 ارب روپے کے ایسے معاملات بھی شامل ہیں جو اہمیت کے حامل تو ہیں لیکن مالیاتی گوشوارے میں شامل کرنے کے لیئے ان کی تفصیلات موجود نہیں ہیں 931ارب روپے کے معاملات ایسے ہیں جن میں داخلی ضابطوں کے نظام میں کمزوریاں معلوم ہوتی ہیں جبکہ5.35ارب روپے کے کیسز،ریکوریز اور اضافی ادائیگیوں کے متعلق ہیں ۔آڈٹ کے دوران اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ 306 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ شائع ہی نہیں ہو سکی جو مجموعی ضمنی گرانٹس کا 2.5فیصد بنتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وذارت خزانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے منظوری سے قبل تمام ضمنی گرانٹس کے حوالے سے انتظامات کرے اور ضروری اقدامات کرے جو اس معاملے میں نہیں کیے گئے اس ضمن میں حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ تمام محکموں کو کہا گیا تھا وہ سپلیمنٹری گرانٹس کے متعلق معلومات فراہم کریں جو غیر شائع شدہ ہیں۔
حتمی گرانٹ کی مد میں 87ارب روپے کے اضافی اخراجات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے تصارف کا مسودہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملازمین سے جڑے اخراجات ،ریٹائر منٹ کے فوائد،تبادلوں،سبسڈی ،سول ورک،مرمتی کام کے سلسلے میں جو 87ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں دراصل رقم کا اضافی حصہ ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بجٹ میں مختص رقم سے زیادہ اخراجات نہ ہوں ۔۔لیکن اس اندھیر نگری میں کہاں کا بجٹ کہاں کی آڈٹ سب کچھ حکمرانوں کی صوابدید پے ہے جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے آخر تو ایک دن یہ انجام کو پہنچیں گے۔
تحریر: مسز جمشید خاکوانی