تحریر: دانیہ امتیاز
”ایک شخص کو راستے پر سو کا نوٹ ملا۔ اس نے وہ نوٹ اپنی جیب میں چھپا کر رکھ لیا اور سیدھا ایک اچھے سے ہوٹل میں جاکر مختلف کھانوں کا آرڈر دے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد جب بل سامنے آیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ اس پر ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو بلا کر اس شخص کو پولیس کے حوالے کردیا۔ کچھ دور جاکر اس شخص نے اپنی جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور پولیس اہلکار کے ہاتھ پر رکھا اور وہاں سے باآسانی روانہ ہوگیا“۔ یہیں حال آج کے ہمارے معاشرے کا ہو چکا ہے۔ اس تلخ واقعے کے بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آج ہمارے یہاں بھی کرپشن اور بدعنوانی کے بادل چار سوچھائے ہوئے ہیں۔
ان بادلوں نے ہماری زندگیوں میں اندھیرا کر رکھا ہے۔ حبس اور گھٹن کے اس ماحول میں جہاں مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھی دی ہے وہیں ہر شخص کرپشن کی دہائی دیتا نظرآتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ان بے قاعدگیوں کا ملبہ بڑی آسانی سے حکمرانوں اور سیاستدانوں پر بھی ڈالا جاتا ہے، جب کہ مذکورہ لطیفہ کو دیکھا جائے تو شاید اداروں اور ان سیاست دانوں کو کرپشن جیسی لعنت میں ملوث کرنے والے خود وہیں لوگ ہیں جو کرپشن کا رونا روتے ہیں۔ حالات جیسے بھی ہیں اور جس طرف بھی جارہے ہیں وہ اپنی جگہ تاہم ہم یہ بھول جاتے ہیں، کہ اگر سارا نظام کرپٹ ہے توہم بھی اسی نظام کا حصہ ہیں۔ ہم خود پر نظر نہیں ڈالتے یا شاید ڈالنا نہیں چاہتے۔
کیا سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیاں لانا، ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنا غلط نہیں؟ کیا دفتروں میں چپڑاسی اور زیلی افسر کو پیسے دے کر اپنی فائل اوپر کروالینا، اسپتال میں آیا کی مٹھی گرم کرکے اپنے نمبر سے پہلے ڈاکٹر کو دکھانا کرپشن کے مترادف نہیں؟ مختلف اشیاءمیں ملاوٹ کرکے چیزوں کو مہنگے داموں کرکے ناجائز منافع کمانا کرپشن نہیں؟ ہماری نوجوان نسل بھی کرپشن کی بہت شکایت کرتی نظر آتی ہے۔کیا کالج یونیورسٹی سے کلاس بینک کرکے غلط حاضری لگوانا امتحان سے قبل پیپرآﺅٹ کرواناکرپشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ اثرورسوخ کے بل بوتے پراور تھوڑے سے پیسے خرچ کرکے داخلہ لینا بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔
ہم اپنے ہر کام کو مجبوری، ایمرجنسی کا لیبل دے کر غلط طریقوں سے سرانجام دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس طرح ایک عاشق اپنے محبوب کی سب برائیوں کواپنے دل میں ایک گڑھا کھود کر دفن کردیتا ہے، اسی طرح ہم بھی اپنی تمام کوتاہیوں، غلطیوں کو مجبوری کا نام دے کر صحیح اور غلط کے احساس کو اپنے دل میں ایک گڑھے کے اندر ہمیشہ کے لئے دفن کرچکے ہیں۔ غرض یہ کہ کرپشن صرف سیاستدان یا حکمران ہی نہیں کرتے بلکہ آپ، میں اور ہم سب کررہے ہیں اور یہی تلخ حقیقت ہے، کہ ہماری زندگیاں زیادہ ترہماری ہی کی گئی کرپشن سے متاثر ہورہی ہیں۔
قطرہ قطرہ کرکے دریا بنتا ہے اور ہماری روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں مشکلات ومصائب کا سمندر بن کر ہماری زندگیوں میں طوفان برپا کرری ہیں۔ ہم اپنی غلطیوں سے نظریں چرا کر سارا الزام حکومت اور ان سے متعلقہ اداروں پر نہیں ڈال سکتے۔ قوائد و ضوابط میں سختی نہ ہونے کا جوازبنا کر ہم غلط کاموں کوجاری نہیں رکھ سکتے۔ بہانے بنانے اور آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ناصرف آپنی آنکھیں کھولیں بلکہ اپنی کوتاہیوں کو بھی پہچانیں اور ان کا اقرار کریں۔
اپنے اپنے طور پر صحیح اور ایمانداری سے کام کرکے خود اپنا احتساب کر کے ہم اپنی زندگیوں میں آئے اس بھونچال سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور پھر ہم اس قابل ہوںگے کہ اونچلی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئے کچھ کر سکیں گے۔ ایک مشہور قول ہے کہ جو قوم بری ہو اس پر ان کے حکمران بھی ویسے ہی مسلط کردیے جاتے ہیں۔ اس لئے حکمران طبقہ کو درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود ٹھیک ہوں جب ہم اپنی اصلاح کرلینگے تو معاملات کافی حد تک خود ہی بہتر ہوجائینگے اور بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے بڑی بڑی کرپشن کرنے والے بھی سنبھل جائینگے، اگرنہ سنبھلے تو ہماری سچائی اور ایمانداری کی طاقت ان سے خود نمٹ لے گی۔
تحریر: دانیہ امتیاز