counter easy hit

کرپشن، بدعنوانی اور اقرباء پروری کی کہانی “مالک“

Maalik

Maalik

تحریر : مزمل فیروزی
زمانہ طالب علمی میں جب ہم کالج میں زیر تعلیم تھے اس وقت کا مشہورڈرامہ“دھواں“ ہم تمام دوستوں کا مشترکہ پسندیدہ ڈرامہ تھا اس کیوجہ افواج پاکستان سے محبت تھی (جو اب بھی ہے ) جس کے چرچے ہر ایک کی زبان پر تھے۔ ڈرامے کے خالق اور اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے عاشرعظیم نے لالی ووڈ میں اپنی پہلی فلم ’’مالک‘‘ ریلیز کیلئے پیش کی تھی جس کی نمائش بڑے زور و شور سے جاری تھی آئی ایس پی آر کے تعاون سے بننے والی فلم جس کاموضوع سیاست دانوں کی بدعنوانی تھا یہ فلم بنانے والوں کا ” جمہوری ” حق تھا کہ وہ ایسے کسی بھی موضوع کو چنتے اور اسے پردے کی زینت بناتے فوجی معاونت سے بننے والی اس فلم پہ صاحبان اقتدار کو سخت تکلیف ھوئی ظاھر سی بات ھیکہ اپنی بےعزتی کون پسند کرے گا۔

سندھ حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی اور پھرنہ جانے کس نے جادو کی چحڑی گھمائی کے چند گھنٹوں بعد ہی وہ نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا پابدی ہٹا بھی دی گئی اس کے بعدفلم کے مکالموں کو پابندی کا بودا جواز بناتے ہوئے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے پابندی کا حکمنامہ جاری کیا جو تا حال قائم ہے پابندی کے باعث ہم یہ فلم سینما میں تو نہ دیکھ سکے مگر ایک دوست جو فلم انڈسٹری سے وابستہ ہے اس کےلیپ ٹاپ پردیکھی تو دل و دماغ اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں کہ آخر فلم کی کون سی بات نواز حکومت کے خلاف ہے اور اس میں ایسا کیا ہے جس ملک میں افراتفری پھیل جائے گی اور اس میں ایسے کونسے جملے ہیں جو ہم سب سنتے نہیں رہتے ہیں۔ ذرا سنسر بورڈ سے پوچھنے کی زحمت بھی کرلی جاتی کہ ایسا کیا متنازع تھا جو فلم کو نمائش کی اجازت دیتے ہوئے تو آپ کو نہ دکھا۔

مگر اب کون سی ایسی جادوئی عینک لگا لی کہ پابندی کا حکم نامہ جاری کرنا پڑا اور سندھ سنسر بورڈ کو اپنا حکم نامہ واپس کیوں لینا پڑا تھا بحرحال عاشر عظیم کی یہ ایک زبردست تخلیق تھی چاہے وہ کسی کے کہنے یا سہارے پر بنائی گئی جس کے حق میں ہم بالکل بھی نہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیکہ فوج کو ان سب چکروں میں نہیں پڑنا چاہئے گوکہ یہ ایک اچھی کاوش تھی جو مختلف کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ فلم حب الوطنی کے جزبے سے سرشار ہے اور کرپشن، بدعنوانی اور اقرباء پروری کی کہانی ہے ۔دلچسپی کا اہم عنصر ایس ایس جی کمانڈوز والے مناظر ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ کوئی ہالی ووڈ مووی دیکھ رہے ہیں۔دو مرتبہ لگنے والی پابندی جیسا اس فلم میں کیا تھا ذہن میں بہت سے سوالات کلبلا رہے ہیں کہ ایسا کیا تھا؟ فلم میں ایک طرف وڈیرا سسٹم کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

Life

Life


دوسری جانب انسانی زندگی کے بہت سے ایسے پہلو بھی اجاگر کیے گئے ہیں جو بلاشبہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ فلم میں اقتدار کے بھوکے نوجوان وزیراعلیٰ کو شراب و شباب کا رسیا دکھایا گیا ہے۔ جس کو وطن عزیز کی سالمیت سے کوئی سروکار نہیں البتہ زاتی مفاد اور نفسانی خواہشات ہمیشہ اس پر غالب رہتی ہے دوسری جانب پاک فوج کا ریٹائرڈ کمانڈو ہے جو بیوی کی موت کے بعد بچی کی پرورش کیلئےنوکری چھوڑ کر پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسی کھولتا ہے۔ اسی کی دہائی میں روس اور افغانستان کی لڑائی کے دوران پاکستان ہجرت کرنے والا افغان خاندان بھی دکھایا گیا ہے جو اپنے وطن میں حالات بہتر ہونے کی آس لیے آتا ہے لیکن مظلوم خاندان کی ایک لڑکی وزیراعلیٰ کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہے اور حالات بہتر ہونے کی آس کے ساتھ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ نمائش پر پابندی لگا کر کیا حاصل ہوجائے گا؟ فلم میں معاشرے کے تلخ اور روایتی پہلو کو پیش کیا گیا توکون سا جرم کیا گیا؟ اگر ان نام نہاد سیاستدانوں کا اصلی اور مکروہ چہرہ دکھا یا گیا تو کیا غلط کیا ؟ فلم میں عام حالات میں پسنے والے لوگوں کی کہانی کوبیان کیا گیا روایتی ظلم و جبر دکھایا گیا ہے جو آئے روز اس معاشرے کی عوام جھیلتے ہیں تو پھر نیا کیا ہے؟ فلم کے مکالموں کو پابندی کا بودا جواز بنانے والے ان حکومتی کارندوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں ؟ عوامی حکومت میں تو سب جائز ہوتا ہے نا ؟ تو اگر فلم ساز اپنے کام کے ذریعے حکمرانوں کے کالے کرتوت عوام کے سامنے لا رہا ہے تو پھر اس کو کیوں روکا جارہا ہے۔

ہم سب کیلئے حیرت کی بات یہ ہیکہ ہم ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کیلئے ہمسائے ملک کی مثال دیتے ہیں مگر دوسری طرف جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کہ فلم ساز کس دھڑلے سے عوامی حکمرانوں کے کرتوتوں کو بڑی اسکرین پر دکھاتے ہیں مگر کوئی ان کی فلموں کو بینن نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جاتا ہے جبکہ فلم مالک میں نام تو کسی کا نہیں لیا گیا تو پھر خطرہ کس بات کا۔ کیا پابندی لگانے سے عوام یہ فلم نہیں دیکھے گی؟ہمارا تجربہ تو یہ کہتا ہیکہ جس چیز کو جتنا منع کیا جائے کہ مت دیکھو لوگ زیادہ اسی چیز کو دیکھتے ہیں اب نوجوان ہماری طرح کہیں نا کہیں سے ڈھونڈ کر یہ فلم دیکھے گے ضرور سرکار کی جانب سے پابندی رہے گی اور لوگ ہماری طرح اپنے ذرائع سے فلم دیکھتے رہے گے ہمارے سوشل میڈیا کے ایک دوست نے بتایا کہ انڈیا میں بھی مالک فلم کے بہت چرچے ہوریے ہیں اگر یہاں پابندیلگ بھی گئی تو کیا ہوا دبئی میں تو پابندی نہیں ہے نا ۔۔۔” مالک ” کے حامی و مخالفین اب اپنی دلیلوں کیساتھ ایک دوسرے کے خلاف مورچے بنائے سوشل میڈیا پر بیٹھے ہیں جو ان کا ” جمہوری ” حق ھے ۔۔۔ سیاست دان تو ھوتے ہی کرپٹ ہیں اگر انکا اصل چہرہ بے نقاب کیا گیا ھے تو اسمیں کیا برائی ھے آخر انہوں نے وطن کو دیا ھی کیا ہے؟؟؟؟۔

Muzammil Ahmed Ferozi

Muzammil Ahmed Ferozi

تحریر : مزمل فیروزی