تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی
بے شمار مشکلات، مصائب، قربانیوں اور صعوبتوں کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔اس ارض پاک کی خاطر ایک طویل جدوجہد کی گئی اور لاکھوں جانیں قربان ہوئیں اس ملک کا نام پاکستان جس کا مطلب پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لیے رکھا گیا کہ یہ اسلامی ریاست ہے اور نیک ،ایماندار اور رسول کریمۖ کی پیروی کرنے والے لوگوں کا ملک ہے لیکن اس کے معرض وجود میں آنے کے بعد شیطان کے چیلوں نے اس ملک کو خیم کرنے کی ٹھان لی اور بھر پور عزم کے ساتھ اس کو نقصان پہنچانے کے در پے ہو گئے۔
کہیں فرقہ واریت کا بیج بویا اور کہیں لسانی تعصب کا،کہیں نسل پرستی کا اور کہیں صوبائیت پرستی کا۔اور پھر ان چیلوں کو مزید طاقت یہ ملی کہ جگہ جگہ انہوں نے دولت کے پجاریوں کو تقیت دی اور کرپشن کا ایسا ناسور ہمارے معاشرے میں پھیلا دیا کہ ایماندار لوگ ہی ناقپید ہونا شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔کرپشن کے کتنے واقعات ہمیں روز سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن کسی کو سزا نہیں دی جاتی۔
حکومت میں بیٹھے اُن کے وارث انہیں بچانے کے لیے فوری سر گرم ہو جاتے ہیں ۔کسی بھی ملک کے لیے جنگ سے زیادہ خطرناک صورت حال معیشت کی کمزوری پیدا کر سکتی ہے ۔چند مخلص اور محب وطن لوگ اپنے ملک کی بہتری کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کی راہ میں رکاوٹیں نہیں بلکہ دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کرپٹ لوگوں کی ہوس بڑھتی جارہی ہے اور یہ ملک کی جڑیں کوکھلی کرنے میں پوری محنت اور لگن سے سرگرم ہیں۔ چلو بہت عرصے بعد ہی صحیح۔۔پر نیب کو خیال تو آیا کہ کرپٹ لوگوں کا احتساب کرنا ہے ابھی انہوں نے اس کرپشن کے سمندر کی چھوٹی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا تو اس سمندرکی شارک،وہیل اور مگرمچھ فوری حرکت میں آگئے اور کمائی کرکے دینے والی ان مچھلیوں کی حفاظت کو فرض اولین سمجھ لیا۔میرے خیال سے نیب کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے نچلی سطح سے احتساب شروع کرتے اور آہستہ آہستہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالتے۔ضلع وائز گند کی صفائی شروع کرتے اور اعلیٰ سطح تک جاتے۔
چھوٹے اضلاع میں خاص طور پر بہت محفوظ طریقے سے کرپٹ لوگ مال کما رہے ہیںکیوں کہ وہاں کے لوگ اپنی دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں اُنہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتاکہ عوامی پیسے کو اُن کے ضلعی افسران اور کرپٹ مافیا کس طرح لوٹ رہا ہے۔کل ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والا پٹواری اچانک بنگلوں کا مالک کیسے بن گیا ایک پولیس انسپکٹر تین تین ذاتی کاریں اور پر تعیش زندگی کیسے گزار رہا ہے ضلع ترقی کے نام پر کتنا فنڈ آیا اور کتنا سیاستدانوں،اُنکے چیلوں اور سرکاری اہلکاران نے کتنا آپس میں بانٹا اور کتنا ترقی پر لگایا۔ان سب باتوں کا ویسے تو پسماندہ اضلاع میں لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا اگر پتا بھی ہو تو ان حرام کی کمائی پر پلنے والے جنگلی سانڈوں کا ایک عام آدمی مقابلہ کیسے کرے۔
پسماندہ اضلاع میں سے ایک ضلع جھنگ بھی ہے جہاں پر افسر اگر تعینات ہو جائے تو آتے ہی کہتا ہے کہ اس شہر میں کیا پر اس کے بعداس شہر کو چھوڑ کر جانے کو دل نہیں کرتا۔اور دل کرے بھی کیوں۔۔۔جب یہاں عیش وعشرت اور کرپشن کا سامان بآسانی دستیاب ہے تو کہیں اور جا نے کی تکلیف کیوں کی جائے۔اب ایک چھوٹی سی مثال ضلع جھنگ کی مین تحصیل ٹی ایم اے جھنگ میں کی جانے والی کرپشن کی ہی لے لیں جہاں سے سیاستدان اور اُن کی چمچوں نے مال کما کر خوب ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے سائیکل سے لینڈ کروزر پر آگئے ۔جہاں جھوٹی اور فرضی کو ٹیشن بنا ئی جائے وہاں لینڈ کروزرہی آئے گی۔
ٹی ایم اے جھنگ نے تحصیل جھنگ جس کا شہری علاقہ ایک دن میں پورا پیدل پھر کر دیکھا جا سکتا ہے اُس علاقے میں تین سال میں185کروڑ روپے ترقیاتی کاموں یعنی سیوریج ،سلیپ ،مین ہول ،نالیاں اور سولنگ وغیرہ بنانے پر صرف کر دیے لیکن شہر کی حالت یہ ہے کہ گلیاں ٹوٹی پھوٹی،نکاس کا نظام بالکل ناکارہ ہے اس کرپشن میں سرکاری انجینئرز کا کردار بہت اہم ہے جو سب اچھا ہے کی فوری رپورٹ کرتے ہیںٹی ایم اے جھنگ میں ایسے بھی آفسیران ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے من پسندٹھیکیداروں کو ٹھیکے دیں دیتے ہیں یہاں تو پھرتیوں،چالاکیوں اور رشوت خوری کی چرچا تو زبان زد عام ہے گزشتہ دنوں ٹی ایم اے جھنگ میں دو(2)عدر ٹینڈرز ہوئے جوکہ کرپشن کی نذر ہوگئے اور ٹینڈر والے دن آفیسران آفس سے غائب تھے جہاں ادارہ کا سربراہ آفس نہ آئے وہاں کیا نہیں ہوسکا ہے۔
لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ اپنے فائدے کا ساتھ ایم پی اے اور اُسکے ٹھیکیداروں کی فوج کا بھی تو بھلا کر رہا ہے اب عوامی خدمت کا دم بھرنے والوں کی مددکرنا اور انہیں مالا مال کرنا بھی تو ایک ذمہ داری ہے اسی طرح اسی محکمے میں کئی لوگ ایک ہی کرسی پر عرصہ دراز سے براجمان ہیں اور کوئی انہیں ٹس سے مس نہیں کرتا۔ناقص میٹریل کے استعمال کی پوچھ گچھ کرنا یہاں کے سیاستدانوں اور افسران کی نظر میں جرم عظیم ہے۔
نیب کو چا ہیے کہ جھنگ جیسے اضلاع بلکہ جھنگ سے ہی کرپشن مافیا پر قابو پانا شروع کرے یہاں موجود افسران کے اثاثہ جات اور کرپشن کی چھان بین کرے اور اُن کے ذریعے عوامی خدمت کا نعرہ لگا کرلوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرے۔جب تک اس ملک سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ نہیں ہو گا تب تک عوام پستی رہے گی اور ملک بتدریج تنزلی کا شکار ہوتا رہے گا۔
تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی