تحریر: روہیل اکبر
فافن کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب نے ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں کرپشن میں پہلا نمبر حاصل کرلیا ہے اور اگر دنیا میں کرپشن کے مقابلوں میں پنجاب کو نمائندگی کا موقعہ ملے تو وہاں پر بھی ہم اپنا یہ اعزاز برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اس وقت کرپشن میں ماہرین کی ایک فوج ظفر موج جو اس وقت صوبہ کے مختلف محکموں میں اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں اور انکی پہچان بھی بہت آسان ہے جہاں کسی اہم انتظامی سیٹ پر میرٹ سے ہٹ کر کسی جونیئر افسر کو تعینات دیکھیں سمجھیں وہاں پر کرپشن اور لوٹ مار کا کھیل جاری ہے یہی وجہ ہے پنجاب کرپشن میں پہلا نمبر لے گیا باقی صوبے بھی کوششوں میں ہیں کہ وہ بھی اس مقابلے میں وکٹری سٹینڈ پر ہوں ۔
کیونکہ حکمرانوں سے لیکر عام سرکاری ملازم تک سبھی لوٹ مار میں ملوث ہیں کچھ اکیلے مصروف ہیں تو کچھ اجتماعی طور پر پنا اپنا کام کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پر لوٹنے والا بھی شور مچا رہا ہے اور لٹانے والا بھی ۔ہمارے حکمرانوں کا آجکل ترکی میں بڑا دل لگ رہا ہے کبھی انکی پاکستان میں مہمان نوازی کی جاتی ہے تو کبھی حکمران وہاں انکے مہمان بن جاتے ہیں اور پھر اپنی تقریروں میں ترک حکومت کوآئیڈیل بھی کہتے ہیں کیا ہم کبھی انکے طرز حکمرانی کے قریب سے بھی گذرے ہیں سوشل میڈیا پر چند دنوں سے ایک تصویر گردش کررہی ہے تصویر میں ایک شخص پھلوں کی دوکان سجائے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھا ہے ۔
ہے تویہ عام سی تصویر مگر ہمارے لیے خاص اس لیے ہے کہ اسکا بھائی ترکی کا صدر ہے اس تصویر نے سوشل میڈیا پرکافی ہلچل مچا رکھی ہے اور عوام کے ذہنوں میں ایک سوال بار بار گردش کررہا ہے کہ ترک صدر کے بھائی نے پھلوں کا ٹھیلا لگانے کی بجائے کوئی آف شور کمپنی کیوں نہیں بنائی اگر وہ بنا لیتے تو طیب اردگان بھی بڑی آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ میرے بھائی کی کمپنی ہے میرا کیا تعلق ؟ترک صدر چاہتے تو اپنے بھائی کو ترکی کے کسی صوبے کا گورنر یا وزیراعلی بنا دیتے ،ترک ائر لائن کا چیئرمین لگا دیتے،کوئی نئی اتھارٹی بنا کر اسکا سربراہ مقرر کردیتے یا کسی بھی اہم سرکاری عہدے پر فائز کردیتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ اب ترکی ہے پاکستان نہیں کیونکہ یہ سارے کام تو اب ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اس کے باوجود ہم ترقی یافتہ ملک بھی بننا چاہتے ہیں جہاں ساری کی ساری سیاست اپنے خاندان ،رشتہ داروں اور دوستوں کے گرد گھوم رہی ہے بڑا بھائی جاتا ہے تو چھوٹا بھائی آجاتا ہے اب ان دونوں کے بعد ایک کا بیٹا اور دوسرے کی بیٹی عوام کو بیوقوف بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ملک میں بس یہی سیاستدان رہ گئے ہیں باقی سب تو ہیجڑے ہیں جو ان لٹیروں لیڈروں کی خوش آمد میں مصروف ہیں اور پھر بعد میں کسی کو وزیر بنا دیا جائے گا تو کسی کو مشیر رکھ لیا جائے گا ۔
جو باقی بچ جائیں گے انہیں بھی کسی نہ کسی ادارے کا چیئرمین بنا کر لوٹ مار پر لگا دیا جائیگا ایک طرف تو وزیراعظم نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ انکی حکومت کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے تو کیا وہ اپنے بھائی کو فروٹ کا ٹھیلا لگانے کی اجازت دیں گے ؟کیا ملک میں ایک بھائی وزیراعظم تو دوسرا وزیراعلی کی روایت ختم ہو پائے گی یا بس ہم ایسی تصویریں دیکھ کر یہ ہی کہتے رہیں گے کہ اے اللہ ہمارے ملک پر رحم فرما(آمین)۔ ہمیں آج تک صرف لوٹا ہی گیا ہے کبھی روٹی ،کپڑا ،مکان کے نام پر اور ہم آج تک روٹی کپڑا اور مکان کو ترس رہے ہیں کبھی ہماری منزل خود دار،خوشحال ،خود مختار پاکستان کا لالچ دیکر لوٹا گیا تو کبھی نئے پاکستان کا خواب دکھایا گیا کبھی جمہوریت کی آڑمیں ہمیں برہنہ کیا گیا تو کبھی آمریت نے ملک کو خستہ حال کردیا اور پھر انہی آمروں نے ہمیں اپنی مرضی کے سیاستدان عطا کردیے جن سے اب اچھی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوڑے کے ڈھیر سے گوھر نایاب کی امید رکھناجبکہ پاکستان کا مقصد روٹی کپڑا اور مکان نہیں تھاکلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو مکمل بانجھ کر کے اشیاء ضروریات کے پیچھے لگادیا گیا ۔
ہمارا سارانظام کرپٹ اور ادارے تباہ ہوچکے ہیں عوام الناس کی مجموعی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور اشرافیہ امیر تر ہوتی جارہی ہے ہمارے ارد گرد کرپٹ افراد کی ایک ایسی منحوس زنجیر ہے جس نے مکمل طور پرہمارے نظام کو جکڑرکھا ہے اورجس کی گرفت میں صرف کمزورطبقہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت اور سچ ہے کہ ہمارا موجودہ قانون ایسے جالے کی مانند ہے جسے کوئی بھی طاقت ور پھاڑکرجب چاہے باھر نکل سکتا ہے سوائے کمزور کے249 یہ سب ہمارے سیاستدانوں کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے قانون کو موم کی ناک بنا دیا ہے جب اور جہاں چاہا اپنی مرضی سے موڑ لیا اس وقت ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کا پاناما لیکس پر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے اسمبلی میں دعوت دے رہی ہیں مگر وزیراعظم ہیں کہ وہ اسمبلی میں آنا ہی گوارا نہیں کرتے یہی حال پنجاب میں انکے چھوٹے بھائی کا ہے وہ بھی اسمبلی میں آنا اپنی توہین سمجھتے ہیں دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریت میں وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ۔
جو عوام کی نمائندگی کا حقیقی فورم ہوتا ہے پاکستان مسلم لیگ ن دنیا کی واحد سیاسی جماعت ہے جو پارلیمانی جمہوریت کے تحت اقتدار میں ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی سے انکاری ہے اور اس کے وزیر اعظم پارلیمنٹ کی بجائے کمیشن کے سامنے جوابدہی چاہتے ہیں حالانکہ وزیر اعظم نواز شریف کو اس پارلیمنٹ سے بلکل نہیں ڈرنا چاہیے جسکی بدولت وہ آج وزارت عظمی کے عہدے پرفائز ہیں اسکے ساتھ ساتھ ایک اہم بات جو لکھنا ضروری ہے کہ بھارت نواز کی جانب سے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دینا قابل مذمت اور شرمناک عمل ہے ، پھانسیاں اور قیدو بند کی صعوبتیں بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت کو نہیں ختم کر سکتیں ۔بھارتی اشاروں پر دی جانے والی سزاؤں پر حکومت پاکستان کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ کھل کر پاکستان دشمن افراد کی مذمت کرنی چاہیے کیونکہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ۔
تحریر: روہیل اکبر
03466444144