لاہور: وفاقی حکومت سے مداخلت کی سفارش ،2000 سے اب تک 8 بڑے فراڈ کیس، دو ارب ساٹھ کروڑ کی کرپشن کے ثبوت مل چکے
وفاق کی طرف سے صوبائی مالی معاملات کے نگران اکاؤنٹنٹ جنرل نے پنجاب پولیس میں اربوں روپے کے 8 حالیہ گھپلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ پنجاب پولیس کے مالیاتی نظام کا ڈھانچہ بری طرح تباہ ہوچکا اوراب منہدم ہونے کے قریب ہے جبکہ محکمہ کی اعلیٰ قیادت تحقیقات سے گریزاں ہے ۔ اے جی پنجاب نے پولیس کی محکمانہ صورتحال کو سنبھالنے کیلئے وفاقی حکومت کو مداخلت کا خط لکھ دیا۔
روزنامہ دنیا نے اے جی پنجاب کرامت حسین بخاری کی طرف سے کچھ ہفتے قبل وفاقی سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کیپٹن(ر)عارف نواز کو لکھے گئے خطوط اور دیگر دستاویزات پر مشتمل شواہد اکٹھے کرلئے ، جن میں انکشاف ہوا کہ سال 2000 سے محکمہ پولیس میں جعلی بھرتیوں ، تنخواہ اور پنشن کی ادائیگیوں میں جعلسازی ،غبن ،پٹرول کی بوگس خریداریوں ،ٹھیکیداروں کو زائد ادائیگیوں اور ریکارڈ غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، اسی عرصہ کے دوران 8بڑے فراڈکیسز کی انکوائریزمیں اب تک 2 ارب 60 کروڑ روپے کرپشن کے ثبوت مل چکے ،لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ بدعنوانیوں میں ملوث کسی بھی بڑی مچھلی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کرامت حسین بخاری(جو چند روز قبل ہی گریڈ 22 میں ترقی پانے کے بعد ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان تعینات ہوئے )نے 11 اکتوبر 2017 کو وفاقی سیکرٹری داخلہ کے نام اپنے خط میں لکھا کہ’آئی جی پنجاب پولیس کو 7 ستمبر کو بڑی مالی بے قاعدگیوں اور فراڈ کے بارے میں نشاندہی کا خط لکھا گیا،جس کا جواب نہ ملنے پر 21 ستمبر کو یاد دہانی کا ایک اور خط بھجوایالیکن آئی جی آفس کی طرف سے مکمل خاموشی چلی آرہی ہے جبکہ ذمہ داروں کیخلاف جس سطح کا ایکشن ضروری ہے وہ نہیں لیا جارہاہے ، اسلئے وفاقی سیکرٹری داخلہ فراڈ اور جعل سازیوں کے اس بڑھتے ہوئے رحجان پر فوری مداخلت کریں،اس سے قبل کہ یہ معاملہ سب کے ہاتھ سے نکل جائے۔