تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
کچھ لوگ بے پرکی اڑاکر چسکے لینے کی عادتِ بدمیں مبتلاء ہوتے ہیں۔ ایساکرتے ہوئے وہ یہ تک بھی نہیں سوچتے کہ جس شخص کووہ طنز کے تیروںسے گھائل کررہے ہیںوہ مسندِاحترامِ کے کس درجے پرفائز ہے ۔اِن لوگوں نے تو پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کو بھی نہیں چھوڑا۔ وہ کہتے ہیںکہ علامہ صاحب ڈی چوک اسلام آباد میں دیاجانے والادھرنا ایک ”ڈیل ”کے تحت ختم کرکے ”پھُر” ہوگئے۔ ایسا پراپیگنڈا کرنے والے ہمارے مُرشدپر انتہائی لغواور بے بنیادالزام لگارہے ہیں۔ اُنہوںنے دھرناکسی ڈیل کے تحت نہیںبلکہ خرابیٔ صحت کی بناپر چھوڑاتھا ۔سبھی جانتے ہیںکہ علامہ صاحب دھرنے کے دنوں میں روزانہ 36 مختلف اقسام کی ادویات استعمال کیاکرتے تھے اوریہ تمام ادویات بیرونی ممالک سے درآمدکی جاتی تھیں کیونکہ انہیں پاکستان میںبنی ادویات پرسرے سے اعتبارہی نہیں۔ جب ”سازشی” نوازلیگ نے ”اَندرواَندری”سازش کرکے اُن کی”درآمدی ادویات” پرپابندی لگائی تو مولانابیمار پَڑگئے۔جس طرح دھرنوںکے دنوںمیں ہمارے پختون بھائی ”نسوار”کی تلاش میںمارے مارے پھرتے تھے اسی طرح ہمارے علامہ صاحب ادویات کی تلاش میںسَرگرداں۔
چاروناچار اُنہیںدھرنا چھوڑکر ”اپنے دیس”سدھارنا پڑاجسے سازشیوںنے ”ایویںخواہ مخوا”ڈیل کانام دے کرعلامہ صاحب کوبدنام کرنے کی ناپاک سازش شروع کردی ۔یہ لوگ جانتے ہی نہیںکہ علامہ صاحب پاکستان جیسے چھوٹے موٹے غریب ملکوںکے سربراہان سے ڈیل توکجا ،بات کرنابھی گوارانہیں کرتے ۔وہ توہمیشہ امریکہ ،کینیڈاجیسے ملکوںسے ڈیل کرکے ہی پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ پھربھلا اُنہیں پاکستانی حکمرانوںسے ڈیل کرنے کی کیاضرورت ہے۔ ویسے اُنہیںیہ غریب ملک دے بھی کیاسکتا ہے۔اُن کے تو ایک اشارۂ اَبروپر بیرونی ممالک اُن کے قدموںمیں ڈالروںکے ڈھیرلگا دیتے ہیں ۔کچھ شَرپسند کہتے ہیںکہ علامہ کو ”فارن فنڈنگ” انارکی پھیلانے کے لیے کی جاتی ہے جوسرے سے غلط ہے ۔یہ تواُن کی علمی وجاہت کاثمرہے کہ بیرونی قوتیںاُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے بیٹھی ہیں ۔مولانااپنی تحریروںاور تقریروںمیںمتعددبار غیرملکی سربراہان سے اپنی ملاقاتوںکا ذکرکر چکے ہیں ۔علامہ صاحب نے میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا”صحت کاایشو آیاتھامگر علاج کے بعدمیں انقلاب کے لیے مکمل تیارہوں۔ ڈِیل کی تہمت کاحکومتی پراپیگنڈا اپنی موت آپ مرگیا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل زیادہ عرصہ اسلام آباداور لاہورکے ایوانوںپر مسلط نہیںرہ سکیںگے”۔
علامہ صاحب دراصل بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ملک میںانقلاب لانے کے جذبے کے ساتھ پاکستان تشریف لائے لیکن حکمرانوںنے مولاناکی نیت بھانپتے ہوئے بلدیاتی انتخابات پرہی ”پھڈا” ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول مؤخرکرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے التواکے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ الیکشن کمیشن کامؤقف یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی اورریلیف میںمصروفیات کے باعث ڈیوٹیوںکے لیے سرکاری ملازمین کی خدمات الیکشن کمیشن کے سپردکرنے سے معذرت کرلی ہے ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ 55 ہزارسے زائد نشستوںپر انتخاب میںحصّہ لینے والے 2 لاکھ سے زائداُمیدوار مایوسیوںکے بحرِعمیق میںغوطے کھارہے ہیںکیونکہ 2013ء سے اب تک باربار اُن کے ساتھ یہی ”ہَتھ” ہورہا ہے۔
اُن کے 9 کروڑ روپے سیکیورٹی کی مَدمیں قومی خزانے میں جمع ہیں جن کی واپسی کی کوئی سبیل نظرنہیں آتی۔ وہ بیچارے ”نیب” میں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں”پلی بارگین” کے تحت 9 کروڑ میں سے صرف 9 سو روپے ملنے کی ہی توقع ہے۔ نیب توہم نے بنایاہی اِس لیے ہے کہ اگر کرپشن کے مگر مچھوں کو کہیں اور پناہ نہ ملے تونیب حاضر ہے ۔مگرمچھ اربوں، کھربوں کی کرپشن کرتے ہیںاورلاکھوں ،کروڑوںدے کرپاک صاف اورمزید کرپشن کے لیے پھرتیار۔ نیب نے اپنے قیام سے لے کراب تک 14 سالوںمیں پلی بارگین کے تحت صرف 18 فیصدرقم وصول کی اوروہ بھی ایسے کہ کئی بڑے مگرمچھ جھانسادینے میںکامیاب ہوگئے ۔150 مگرمچھوں نے پلی بارگین کے تحت رہائی حاصل کی اورنیب کوکئی سوارب روپے کے بدلے میںصرف 2 ارب روپے وصول ہوئے ،باقی سب ”پھُر” ہوگئے۔
سپریم کورٹ میںجمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق 262 ارب روپے کی رقم پر15 ارب روپے کی پلی بارگین ہوئی لیکن وصول ہوئے صرف 2 ارب روپے۔ کئی کھرب روپے ہڑپ کرجانے والے 285 فراڈیوںنے نیب کوچند ارب روپے دینے کاوعدہ کرکے رہائی حاصل کی لیکن فراڈ ثابت ہونے کے باوجودوہ بھی نیب کوجھانسا دینے میںکامیاب رہے ۔اب یہ حقیقت توکھُل کرسامنے آچکی ہے کہ آمرپرویز مشرف نے بااثر افرادکو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملانے کے لیے یہ ادارہ قائم کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میںبااثر افرادکو بچانے کے لیے نیب پلی بارگین کاسہارا لیتارہا اور کرپٹ ترین افرادسے اونٹ کے مُنہ میںزیرے کے برابررقم لے کراُنہیں پاکیزگی کے ایسے سرٹیفیکیٹ جاری کرتا رہاکہ ”دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکریں”۔
پرویزمشرف صاحب نے نیب کی صورت میںجو” گَند” ڈالا، اب اُسی گَندکو عزمِ صمیم کے مالک جنرل راحیل شریف صاف کرنے میںمگن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کی تمامتر ہمدردیاںاور دعائیںاُن کے ساتھ ہیں۔وہ اتنے انتھک ہیںکہ صبح شمالی وزیرستان کے اگلے مورچوںپر ہوتے ہیںتو شام کوکوئٹہ۔ سیاسی قیادت نے پاکستان کواقتصادی بلندیوںپر لے جانے کے لیے چین کے ساتھ گوادرسے خنجراب تک اقتصادی راہداری بنانے کامعاہدہ کیاجس پرہندولالے کے پیٹ میںمروڑ اُٹھنے لگے۔اُس نے نہ صرف سرحدوںپر اشتعال انگیزکارروائیاں شروع کردیں بلکہ ہرفورم پر اقتصادی راہداری کے خلاف واویلابھی شروع کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرجگہ اسے ”شٹ اَپ” کال کاسامناہی کرناپڑا۔ ہمارے سپہ سالارنے ہندولالے تک یہ دوٹوک پیغام پہنچادیاکہ اقتصادی راہداری ہرصورت میںبنے گی خواہ اِس کے لیے فوج کوکتنی ہی قربانی کیوںنہ دینی پڑے۔ اُنہوںنے فرمایا”فوج ہرقسم کی قربانی کے لیے تیارہے”۔
حیران کن ،انتہائی حیران کن کہ محض چند ماہ میں اقتصادی راہداری کے 870 کلومیٹر میں سے پاک آرمی نے 502 کلو میٹرسڑک بنا بھی ڈالی۔ کراچی آپریشن کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں تھا اگر اِس کے پیچھے وزیرِاعظم صاحب کی شدید ترین خواہش اور فوج کی طاقت نہ ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیںکہ ”شریفین”کا ایک صفحے پرہونا ہی دراصل قوم کی خوش بختی کی علامت ہے۔ بھلا کون یہ سوچ سکتا تھا کہ کراچی ایک دفعہ پھر روشنیوں کی طرف اپناسفر شروع کرسکے گا۔
کسے خیال تھاکہ کراچی سے ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری ختم ہوسکے گی ۔کون جانتاتھا کہ نوگوایریاز اورعقوبت خانوںکا خاتمہ ہوجائے گا۔کیا نائن زیروپر متواتر چھاپوںکا کوئی تصوربھی کرسکتا تھا؟۔ کیاکسی کے ذہن میںیہ خیال بھی آیاتھا کہ مختلف اداروںمیں بیٹھے کرپشن کے مگرمچھوںکے گریبانوںتک رینجرزکے ہاتھ پہنچ پائیںگے؟۔ اگرنہیں توپھر یقین جان لیںکہ یہ سب کچھ ہوا، تاحال ہورہا ہے اور”شریفین”کے عزم کے مطابق اُس وقت تک ہوتارہے گاجب تک ہرکس وناکس کواپنی آغوشِ محبت میںسمیٹ لینے والاکراچی ایک دفعہ پھرروشنیوںکے شہرمیں ڈھل نہیں جاتا۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر