عمران خان سے اختلاف بھی ہے۔ اختلاف ہونا بھی چاہیے مگر اختلاف کرنے کا حق اسے ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہوں۔ ہم اختلاف کرتے ہیں تو صرف اختلافات کرتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہمارے کسی سیاستدان نے مولانا روم کا حوالہ کبھی دیا ہو۔ عمران نے بھی ان کا صرف نام لیا۔ شہباز شریف ہوتے اور مولانا روم کا نام لیتے تو پھر ان کے دو تین اشعار بھی سناتے اور پھر فارسی زبان ہی میں تشریح کرتے۔ وہ کئی زبانوں میں روانی اور فراوانی سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مولانا روم کا نام عمران نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے لیا تھا۔ عمران مجھ سے خفا رہتے ہیں۔ وہ خفا نہ ہوں تو لوگ خفا کر دیتے ہیں۔ نجانے کیا کیا باتیں لوگ کرتے ہیں جو باتیں نہ کی جائیں ان باتوں کو آسانی سے بیان کرنے کا انہیں شوق ہوتا ہے۔ شہباز شریف سے کئی باتیں کی جاتی ہیں۔ شکر ہے وہ جلدی جلدی ناراض نہیں ہوتے۔
البتہ برادرم عامر محمود کو ایک دوست خفا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے کسی کالم میں ایک مزاحیہ کیفیت پیدا کرنے کے لیے عامر اور آمر کا موازنہ کر دیا تو اسے اس طرح بیان کیا گیا کہ کوئی غلط فہمی پیدا ہو گئی۔ میں اس کی وضاحت کر کے کوئی خوش فہمی نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا کہ خوش فہمی بہرحال غلط فہمی سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک ہی تقریر بڑی باقاعدگی اور تواتر سے کیے جا رہا ہے۔ یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ یہ بھی ہمت کی بات ہے کہ لوگ مسلسل شوق سے انہیں سنے جا رہے ہیں اور نعرے بھی لگاتے ہیں۔
عمران خان ہمیشہ کرپشن کا ذکر اپنی ہر نئی تقریر میں پرانی تقریر کے انداز میں کر دیتے ہیں۔ یہ بھی تو ہے کہ کرپشن بھی مسلسل ہو رہی ہے اور ہر بار نئے انداز میں ہوتی ہے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ کرپشن ختم نہیں ہوتی۔ ہر دور میں کرپشن تھی اسے صرف نواز شریف کے دور حکومت سے بار بار منسوب کرنا مناسب نہیں ہے۔
کوئی ایسی بات ہے جو نواز شریف کے دور میں ہے اور پہلے نہیں تھی۔ ہر دور میں یہی حال تھا اور میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ عمران خان وزیراعظم بنیں گے تو بھی یہی حال ہو گا۔ کرپشن بھی ہو گی مگر اس طرح کرپشن کے خلاف واویلا نہیں ہو گا۔
ہر بار عمران خان خیبر پی کے میں معاملات کے لیے تعریف کرتے ہیں۔ وہاں حالات کچھ بدلے ہوں گے مگر اس طرح کی تعریف کسی کے منہ سے نہیں سنی جو عمران خان سے سنی ہے۔ تحریک انصاف والے کرپٹ اور کام چور لوگ یہ باتیں سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔
خیبر پی کے میں پولیس بہتر ہو گئی ہو گی مگر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ وہاں کے کسی آدمی نے پولیس کے خلاف بات نہیں کی۔ ایک آدمی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے کے پی کے میں واپس بھی جانا ہے۔
عمران خان پرویز خٹک کی تعریف کرتے ہیں ان سے بہت بہتر لوگ بھی وہاں موجود ہیں اور تحریک انصاف میں بھی ہوں گے۔ پرویز خٹک کی یہ خوبی بھی ہے کہ وہ عمران خان کے کلاس فیلو ہیں۔ کئی لوگ اور بھی عمران خان کے قریب ہیں اور وہ ایچی سن کالج میں ہوتے تھے۔ ان سے عمران کی دوستی تھی۔ ان کو نوازنے کا اس سے بہتر موقع پھر نجانے کب آئے گا۔ حیرت ہے کہ عمران خان کے کلاس فیلو امیر لوگ ہیں اور یہ اضافی خوبی ہے جو عمران کو بہت پسند ہے۔ ایچی سونین تو چودھری نثار بھی ہیں اور عمران کے ساتھ ایک زمانے میں قربت بھی ہوتی تھی اور عمران نے چودھری صاحب کو شمولیت کی دعوت بھی دے دی تھی مگر چودھری صاحب اتنے بے وقوف نہیں کہ اس یقین دہانی کے باوجود کہ انہیں تحریک انصاف میں عمران کے بعد سب سے زیادہ عزت دی جائے گی۔ وہ تحریک انصاف میں نہیں گئے۔ انہیں کسی ’’بے انصافی‘‘ کا خدشہ تو تھا۔ ’’بے انصافی‘‘ کا خدشہ تو مسلم لیگ (ن) میں بھی رہتا ہے۔ یہاں تو جو مسلم لیگ ہے وہ بھی مسلم لیگ ن یعنی مسلم لیگ نواز شریف ہے۔
عمران خان کا رائے ونڈ مارچ نہ ڈبل مارچ بن سکا نہ کوئیک مارچ بن سکا۔ میں کسی حمایت یا مخالفت کے بغیر کہہ رہا ہوں کہ واقعی ہر شخص نواز شریف نہیں بن سکتا۔ دنیا میں کوئی ایک بھی کسی دوسرے جیسا نہیں ہے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے۔ آخر کچھ تو ان میں وصف ہو گا۔ اس پر عمران خان ریسرچ کرائیں اور پازیٹو بات کریں۔ ابھی عمران ایک بار بھی وزیراعظم نہیں بنے۔ وزیراعظم بننے کی طلب ان کی شخصیت میں ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے دو چار بار اپنے وزیراعظم بننے کی اپنی خواہش کو ایک طرف کر کے بات کرنے کی کوشش کی مگر بات بن نہ سکی۔
برادرم سعید آسی حج کے سفر کا احوال الھم لبیک کے نام سے لکھ رہے ہیں۔ سعید آسی نے برادرم اسداللہ غالب کی طرف سے ایک استقبالیے میں کہا کہ میں نے عمرہ کرنے کے بعد مرحوم مجید نظامی سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھے حاجی صاحب کہا۔ مجید نظامی صاحب نے ایک ٹوپی آسی صاحب کو عطا کی۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی کہ آسی صاحب شاہی مہمان کے طور پر دیار حجاز میں تشریف لے گئے جبکہ وہ اصل میں اللہ کے مہمان تھے۔ انہوں نے غالب صاحب کی طرف سے بلائی گئی محفل میں بتایا کہ میں نے سعودی فوجیوں کی جس مہارت اور کمٹمنٹ کا مظاہرہ دیکھا وہ حیران کن تھا۔ وہ اتنے الرٹ اور چاک و جوبند تھے کہ ان کی دفاعی صلاحیت کا احساس ہوا۔ آسی صاحب کو یقین آیا کہ ان کو ٹریننگ یقیناً پاکستانی فوجیوں نے دی ہو گی۔ آسی صاحب کے ساتھ یہ محفل سوال و جواب کی محفل بن گئی۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا جنرل راحیل شریف نومبر میں ریٹائر ہو کر چلے جائیں گے۔ آسی صاحب نے جواب دینے میں کچھ دیر کی تو میں نے کہا کہ میں نے بہت پہلے بھی یہ جملہ کہا تھا جنرل راحیل شریف ایکسٹینشن نہیں لیں گے اور جائیںگے بھی نہیں۔ یہ بات برادرم جنرل جاوید نے بھی کہی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت