پیرس (زاہد مصطفی اعوان سے) مختلف ممالک میں خانہ جنگی یا پھر دہشت گردی نے انسانوں کو اپنے گھربار چھوڑ نے پر مجبور کر دیا ہے ، ہزارہا شامی، عراقی، افریقی، افغان اور پاکستانی مہاجرین اور تارکین وطن، جو مختلف یورپی خطوں میں پیدل چلتے، سرحدی باڑیں پھلانگتے، ٹرینوں میں بھرے یا کھلے آسمان تلے شب بسری کرتے نظر آتے ہیں۔
جو کہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے ۔دوسری جانب یورپی ممالک تارکین وطن کے لئے قوانین کو سخت کر رہا ہے جرمنی نے مہاجرین سے متعلق پالیسی سخت کر نے پر اتفاق کیا ہے اور جو مہاجرین اس وقت جرمنی میں ہیں ان کی رہائش کے مختلف منصوبے بنائے جا رہے ہیں جس میں برلن کی صوبائی حکومت نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ٹیمپل ہوف کے متروک ہوائی اڈے پر تعمیراتی کام کی اجازت دے دی ہے۔
جرمنی میں مہاجرین کے لیے اضافی رہائش کے اس سب سے بڑے منصوبے کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ جبکہ ہالینڈپناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور سویڈن نے اسّی ہزار تارکین وطن کی ملک بدری کا اعلان کیا ہے۔ اور جو لوگ سیاسی پناہ کی درخواست دے رہے ہیں ان کی منظوری کو ایک پیچیدہ قانونی معاملہ بنا دیا گیاہے۔یورپی ملک جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کا دارومدار کافی حد تک اس پر ہے کہ درخواست جمع کرانے والے کا تعلق کس ملک سے ہے۔
خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک شام اور عراق کے علاوہ افغانستان، پاکستان اور چند افریقی ملکوں سے بھی لاکھوں افراد سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ جرمنی میں ایسے افراد کی درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے متعلقہ وزارت نے ملکوں کو تین مختلف درجوں میں تقسیم کر دیا ہے۔جس میں پاکستان کودرمیانے درجے میں رکھا گیا ہے۔
یورپ میں تارکین وطن کے موجودہ بحران کے دوران پاکستانی شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی خواہش میں یونین کے مختلف ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کا شمار ان پہلے پانچ ممالک میں ہوتا ہے جن ممالک سے سب سے زیادہ پناہ گزین گزشتہ برس یورپ پہنچے تھے۔گزشتہ برس کے پہلے دس ماہ کے دوران مختلف یورپی ملکوں میں قریب 32 ہزار پاکستانی شہریوں نے پناہ کی باقاعدہ درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
زیادہ تر پاکستانی مہاجرین کے پاس پاسپورٹ یا شناختی دستاویزات نہیں ہیں، یا انہوں نے یورپی حکام کو شناختی دستاویزات فراہم نہیں کیے۔یورپی یونین یورپ آنے والے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کو’’معاشی تارکین وطن‘‘سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے یونین میں پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دئیے جانے کے امکانات کافی کم ہیں۔