تحریر۔۔۔راشد علی راشد اعوان
بریگیڈئیر ریٹائرڈ عبد الحفیظ کا تعلق ضلع مانسہرہ سے ہے آپ 24 جنوری 1954 کو مانسہرہ ہی میں پیدا ہوئے ،ابتدائی پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول مانسہرہ سے حاصل کی اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول مانسہرہ سے پاس کرنے کے بعد بقیہ تعلیم ایبٹ آباد سے حاصل کی،آپ نے MA پولیٹیکل سائنس میں پشاور یونیورسٹی سے اور MAایجوکیشن پنجاب یونیورسٹی سے کیا ،آپ کی زندگی مسلسل تگ و دو سے عبارت ہے ،میٹرک ہی کے دوران آپ مستقبل کیلئے فکر مند اور مکمل منصوبہ بندی رکھتے تھے،آپ کے پرائمری،مڈل،ہائی اور یونیورسٹی لیول کے کلاس فیلو بھی اس وقت ملک کے بہترین ایڈمسنٹریٹرز اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں،آپ کا کہنا ہے کہ گو کہ انہیں موجودہ حالات کے مقابلے میں اپنے دورمیں مستقبل کے حوالے سے مناسب گائیڈ لائن و مکمل رہنمائی تو نہیں مل سکی مگر اپنے کلاس فیلوز کے ہمراہ علمی نشستوں میں عموماً بحث مباحثے چل نکلتے تھے اور اور ان ہی مباحثوں کی بدولت آپ نے فوج میں کمیشن حاصل کیا ،فوج میں کمیشن کورس حاصل کرنے والے عبد الحفیظ بریگیڈئیر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے آپ نے کیڈٹ کورس میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور 1980 میں ایجوکیشن کور میں بھرتی ہو گئے،آپ نے 31 سال تک فوج میں اپنی خدمات سرانجام دیں
سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے عبد الحفیظ بریگیڈیئرکے عہدے سے ریٹائرڈہوئے ،آپ نے کیڈٹ کور میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ آپ کو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف،سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز کیانی اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کیساتھ بھی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے،بریگیڈئیر ریٹائرڈ عبدالحفیظ نے اپنی دوران ملازمت میں پی ایم اے کاکول ،آرمی برن ہال کالج فار بوائز اور دیگر فوج کے بڑے اور اہم اداروں میں انسٹرکٹرکی خدمات سرانجام دیں،آپ کو بہترین خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ2011میں ریٹائرڈ منٹ کے بعد آپ کی تقرری بحثیت پرنسپل لارنس کالج مری کی گئی اصولوں پرسختی سے کاربند اور قواعدو ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنے والے جب بریگیڈئیر ریٹائرڈ عبد الحفیظ نے غیر اصولی اور بدیانتی پر مبنی ایک سیاسی دبائو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو انہیں خریدنے اور منانے کی کوششیں بھی کی گئیں مگر آپ نے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور مستعفیٰ ہو گئے
آپ کی بے پائیہ خدمات اور وسیع علمی تجربے کی بنیاد پر آپ کو تقریباً ڈیڑھ سال قبل پاکستان سکائوٹ کیڈٹ کالج بٹراسی کا پرنسپل تعینات کیا گیا ،آپ کی تعیناتی کے بعد کیڈٹ کالج بٹراسی نے علمی،ادبی،تحقیقاتی اور ہم نصابی و نصابی سرگرمیوں میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، گزشتہ دنوں آپ سے ایک طویل نشست کی اور مختلف سوالات و جوابات کی صورت میں آپ کے تجربات اور خیالات کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کی کوشش کی ہے جو کہ نظر قارئین کی جا رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو جدید تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کر سکتے ہیں؟
تو انہوں نے بتایا تجربات اور بحثیت ایک ایجوکیشنیسٹ ہونے کی بناء پر میری رائے کو مقدم رکھا ہے ،دنیا کی دیگر اقوام کی طرح پاکستانیوں میں بھی بحثیت قوم جہاں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں چند ایک ایسی کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ” تحقیق کا فقدان” انہی خامیوں میں سے ایک اہم ہے، ریسرچ یا تحقیق کا فقدان ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب ہم من گھڑت اور سنی سنائی باتوں پر محض اس لئے یقین کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں تحقیق کی عادت نہیں،ماضی میں ہمارے ہاں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں کی حالت بہت تشویشناک ہے ان میں اساتذہ کی کمی ، عمارت کی بد حالی، نامناسب تعلیمی ماحول اور طالبعلموں کے لئے سہولتوں کی عدم دستیابی کا دور دورہ ہے معاشرے میں ایک خاص ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے سرکاری اداروں خصوصا تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی تاثر کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی سرکاری سکولوں کے حوالے سے ان موضوعات کی تشہیر کی جاتی ہے جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی رویہ قائم ہونے میں آسانی ہو لیکن ہم نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ،ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں
اب تعمیری پہلووں سے صرف نظر کرنا اور منفی پہلووں کو اجاگر کرنا یقیناًناانصافی ہے تصویر کے دونوں کے رخ دیکھ کر اپنی رائے قائم کی جائے تو یہ زیادہ مفید ہو گا،تعلیم کا حصول ہمارے مذہبی تعلیمات کی رُو سے بھی انتہائی ضروری ہے ہمارے نبی ۖ آخر الزمان نے بھی علم کے حصول پر زور دیا ہے چنانچہ ایک انسان اس وقت تک اپنے معراج کو نہیں چھو پاتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو اور تعلیم زندگی کیلئے نہیں بلکہ بذات خود ذندگی ہے،تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے، تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا، 21صدی میںتعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جا رہی ہے، آج کی زندگی میںتعلیم سب سے زیادہ اہم اقتصادی مسئلہ ہے، آج کے ترقیاتی دور میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے، تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچاننے اور ان کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون ثابت و مدد گار ہوتی ہے، تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں،لہذا یہ ایک حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی کہانی میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے
جس قوم نے اس میدان میں عروج حاصل کیا، باقی دنیااس قوم کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی،پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور پاکستانی قوم میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی بھی قوم کو ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے سازگار ماحول اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، پاکستان کے ہنر مند افراد کا ایک بڑا طبقہ بیرونِ ملک مقیم ہے جس کے ذریعے ملک میں کثیر زرِ مبادلہ آ رہا ہے مگر ہماری افرادی قوت سے ہمارا ملک محروم ہو رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان افراد سے جامع فائدہ اٹھانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ قابل افراد اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دے سکیں،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں واپس آئیں اور وطنِ عزیز کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں،اس حوالے سے سب سے اہم ہمارا نظامِ تعلیم ہے، در اصل اگر ہمارا نظامِ تعلیم مؤثر تعلیم اور فنی تعلیم لوگوں کو فراہم کرے تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم کیوں اتنا ناقص اور فرسودہ ہے کہ ہنر مندافراد پیدا کرنے میں ناکام ہے، اس کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہنے کے باوجود غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں،سوال یہ نہیں کہ کون سی زبان میں تعلیم دی جا رہی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ تعلیم انگریزی میں ہو یا اردو میں ہمارے ناقص تعلیمی نظام کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا کیونکہ نہ تو اچھے انسان تیار کر رہا ہے اور نہ ہی ملک میں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے،بے مقصد باتیں ہم تعلیمی نصاب میں بچوں کو پڑھاتے ہیں جو صرف لفظوں تک محدود رہتی ہے اور طالب علموں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی،تعلیم کا یہ نظام اتنا ناقص کیوں ہے ؟ ہمارے ملک میں تعلیم کو اتنی کم اہمیت کیوں حاصل ہے ؟ حالانکہ مہذب ملکوں میں تو تعلیم کو اوّل ترجیح کے طور پر رکھا جاتا ہے میرے نزدیک ان سوالوں کے جوابات یہ ہیں کہ عہدِ حاضر میں دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار بھی تعلیمی ترقی پر ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں، بے شک دنیا بدل چکی ہے لہٰذا از سرِ نو نصابِ تعلیم مرتب کر کے بہتر تعلیمی منصوبہ بندی کے ذریعے نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ نئی نسل حصولِ علم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد صحیح معنوں میں مستقبل کی معمار بن سکے۔
موجودہ نظام تعلیم میں موجود ابہام کے بارے میں بریگیڈئیر(ر) عبد الحفیظ نے بتایاقران پاک کا پہلا لفظ ہی اقراء تھااور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اس میدان میں اپنے قدم جمائے رکھے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور جیسے جیسے ‘اقراء ‘ کا درس ان کے ذہنوں سے محو ہوا ،غلامی نے اپنا گھیراتنگ کر دیا، انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے،دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیں،اس لئے اسلام نے سب سے زیادہ زور علم حاصل کرنے پر دیا ہے،علم حاصل کرنے کے لئے پیدائش سے لحد تک وقت کی کوئی قید نہیں، صرف عزم و ہمت اور جہد مسلسل کامیابی و کامرانی کا واحد راستہ ہے،دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مرد و زن کے لئے لازمی ہے ،ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں، علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہوتا ہے، کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا، اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے، اسلام نے مردو عورت دونوں کے حصول، علم کی تاکید کی ہے
علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہوسکتا ہے اور اس دریا کے پانی میںکوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔۔ کامیابی محنت اور لگن میں پنہاںہے، زندگی کی اقدار میں نکھار و وقار صرف علم سے ہی آسکتا ہے، ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے، ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے عورتوں کے لئے بھی علم اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے ہے، گویا عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن میں سے ایک کی بھی علم سے لاتعلقی کائنات کے نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے،اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارنظاام تعلیم اتنا معیاری ہے کہ اس کے حصول سے جدید تقاضون کے مطابق ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ کیا جا سکے؟قوموں کی داستانِ عروج و زوال کو اٹھا کر دیکھیں تو اس حقیقت سے انکار اور راہِ فرار ممکن نہیں کہ ملکوں اور قوموں کی تعمیر’ ترقی’ خوشحالی اور استحکام کا عمل نظام تعلیم سے مشروط ہے، اسی حقیقت کو مدنظر رکھ کر دنیا بھر کی ریاستیں اپنے شہریوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرتی ہیں، ملک و قوم کی تہذیب و ثقافت اور نظریے کو تحقیق’ جستجو اور تخلیق کے عمل سے مربوط کرکے نظام تعلیم ترتیب دیے جاتے ہیں، قومی’ سماجی و معاشرتی حالات و ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھ کر طویل المیعاد پالیسیاں بنتی ہیں،ان پالیسیوں پر عمل درآمد کا منظم طریقہ کار تشکیل دیا جاتا ہے
وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر پالیسیوں کو تسلسل فراہم کیا جاتا ہے اب اگر ہمپنے ملک کے نظام تعلیم کے حال اور اس کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ آزادی حاصل کیے ہوئے ہمیں 67 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہی، لیکن آج تک ہم اپنی شرح خواندگی 50 فیصد تک بھی نہیںلے جاسکے،شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 160ویں، اسلامی ممالک میں 54 ویں اور دنیا کے گنجان ترین ممالک کی تنظیمEـ9 میں آخری نمبر پر ہے،صدیوں کی آبلہ پائی، دیدہ ریزی اور لاتعداد قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے اس ملکِ خداداد میں آج تک ہم مطلوبہ مقاصد حاصل کیوں نہ کرسکے؟ تنکا تنکا پلکوں سے چن کر بنایا ہوا آشیانہ آج آندھیوں اور طوفانوں کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں کیوں ہے؟ آج سندھی، بلوچی، کشمیری اور پٹھان کی پہچان تو برقرار ہے لیکن ایک ”پاکستانی” کی پہچان کیوں دھندلانے لگی ہے؟
وہ آستانہ کہ جس کی چوکھٹ پر ہزاروں جوانِ رعنا قربان ہوئی، جس کے در و دیوار کو اَن گنت پاکباز شہداء کے خون سے غسل دیا گیا آج کیوں غیر ملکیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے؟ شہدا کی اس مقدس امانت کو اس حال میں پہنچانے والے کون لوگ ہیں؟ ہاں وہی شناسا چہری، جانی پہچانی شخصیتیں جنہوں نے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہوتے ہی قومی خزانے کو خوب لوٹا، اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے اندھوں کی طرح استعمال کیا، لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے پالے ہوئے ان کالے انگریزوں نے ہر شعبہ زندگی کے ساتھ گھنائونے کھیل، کھیل کر اپنے ارمان تو پورے کیے ہی، لیکن سب سے زیادہ زیادتی تعمیر و ترقی کی راہ داریوں میں ”شاہ کلید” کی حیثیت رکھنے والے نظام تعلیم سے کی، وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے والے چند ایک اسباب میں سے اہم ترین سبب تعلیم اور نظام تعلیم کے حوالے سے ناقص پالیسیاں ہیں، وطن عزیز کی موجودہ شرم ناک صورت حال کی سب سے بڑی وجہ طبقاتی نظام تعلیم ہے،برصغیر میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ایسا نظام تعلیم تخلیق کیا جس میں حاکم ہمیشہ حاکم اور محکوم ہمیشہ محکوم رہے، تعلیمی اداروں سے ذہنی طور پر غلامانہ سوچ، فکر اور خیال کے لوگوں کی کھیپ کی کھیپ حا صل کی جاسکتی ہے مگر ایک اچھا انسان اور علم و ہنر کی بنیاد پر ترقی یافتہ قوموں کا نمقابلہ کرنے یا ان کا ہم پلہ ہونے والا شاید نہیں،بدقسمتی سے آزادی کے 67 سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ”اسٹیٹس کو” کی وہی سوچ ہمارے نظام تعلیم اور تمام تر تعلیمی پالیسیوں کا مرکزی خیال چلی آرہی ہے
تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے سالانہ بجٹ ہی سے ہماری قومی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی زندگی میں کیا اہمیت دیتے ہیں، تعلیم جیسے اہم شعبے میں خرچ کرنے کے لیے ان کے خزانے میں پیسے نہیں ہوتے آج تک پاکستانی حکومت نے اپنے مالی بجٹ میں جی ڈی پی کا 3فیصد سے زیادہ تعلیم کے لیے مختص نہیں کیا، قومی ترجیحات میں تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے وسائل کی کمی اور تعلیمی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر جاپہنچے، وسائل کی کمی، میرٹ کی پامالی، اساتذہ کے لیے تنخواہوں کا مناسب پیکج نہ ہونے کی بناء پر لائق اور ذہین افراد کا اعتماد رائج نظام تعلیم سے اٹھ گیا، اس کے نتیجے میں سرکار کے تعلیمی اداروں میں وہی لوگ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جو بڑی سفارش اور رشوت دینے کی اہلیت رکھتے تھے، میرٹ کے اس کھلے قتل عام کی وجہ سے نظام تعلیم میں وہ لوگ آئے جنہوں نے تعلیم کو تجارت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، تعلیم کے ساتھ مسلسل سرکاری عدم توجہی اور سوتیلی ماں جیسے سلوک سے نجی شعبے کو تعلیم کے میدان میں قدم جمانے اور اپنی دکان چمکانے کا بھرپور موقع ملا، سرکار نے بھی بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم کے نجی شعبے کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے معیار تعلیم کی بلندی اور شرح خواندگی میں اضافے کے خوش نما نعروں سے ہر سطح پر نجی تعلیمی اداروں کا جال بچھ گیا،
آج ہر گلی، محلے اور بستی میں تعلیم کی خدمت، معیاری نظام تعلیم جیسے خوش نما نعروں کے ساتھ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک لوگ اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں، نجی شعبہ تعلیم میں بھاری رقوم لے کر انگریزی، اردو، آکسفورڈ، امریکن، جرمن، فرنچ اور پاکستانی نصاب کے محلول کے ذریعے اب تک ایسی نسل کی تیاری کا عمل جاری ہے جو نمائشی، غیر میعاری اور غیر اسلامی مخلوط تعلیمی ماحول میں پڑھ کر ”نہ خدا ملا نہ وصالِ صنم” کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے، ملک میں 26 مختلف نظام ہائے تعلیم رائج ہونے کی وجہ سے معاشرے میں یکسانیت کا فقدان ہے، ہر طبقہ ہائے زندگی کے لیے الگ نصاب، الگ زبان اور الگ نظام تعلیم نے معاشرے کو کئی طبقات میں تقسیم کردیا اور انتشار کی وہ آگ بھڑکی ہوئی ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،امیر اور غریب کی تحقیر اور تفریق، لسانیت کا پرچار، قوم پرستی کی بنیاد پر قتل عام، حب الوطنی کے جذبے کا فقدان اور بے مقصدیت وہ خوفناک مسائل ہیں جو ایک زبان، ایک نصاب اور ایک نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں، تعلیم کے نام پر کھلی ان مہنگی دکانوں کے ساتھ ساتھ سرکار نے بھی غریب اور متوسط طبقے کے زخموں پر نمک پاشی کا خوب انتظام کیا، سرکاری تعلیمی اداروں میں محدود کوٹہ سسٹم، سیلف فنانس اسکیم، فیسوں میں بے تحاشا اضافے نے غریب اور متوسط طلبہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند کردئیے ہیں۔ نجی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکار کے اداروں میں سیلف فنانس اسکیم کے تحت حصول علم کے لیے جو فیس وصول کی جاتی ہیں
ایک متوسط طبقے کا مزدور یا ملازم ساری زندگی اتنی بھاری رقوم ادا نہیں کرسکتا، ایک غریب طالب علم کے لیے تعلیم کے دروازے بند کردینے کے لیے اس کا ایک یہی جرم کافی ہے کہ وہ غریب ہے اور لوٹ مار کرکے امیر نہیں ہوا، بدقسمتی سے تعلیم جیسے حساس شعبے کو بھی مقامی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں جو آئندہ نسل کو غیروں کا غلام بنادیں گی، جو قومیں تعلیم اور تعلیمی نظام کو اک مذاق کے طور پر لیتی ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں صدیوں کی مسافت پیچھے رہ جاتی ہیں،کیونکہ نظام ِ تعلیم ہی وہ چیز ہے جو معاشرے کی ہر جہت کو درست سمت میں متعین کرتا ہے،قائد اعظم نظام ِ تعلیم کی اہمیت اور موثریت سے آگاہ تھے یہی وجہ تھی کی ان کی ہدایت پر پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد 1947میں ایجو کیشن کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انہوں نے نظام ِ تعلیم کی تشکیل کے لئے واضح ہدایات جاری کیں اور وطن عزیز کے لئے نظام ِ تعلیم کے بنیادی خدو خال وضع کر یے تھے ،بدقسمتی سے قائدِ اعظم اس دنیا فانی سے جلد کوچ کر گئے اور بعد میں تعلیمی نظام کے پالیسی سازوں نے غلامانہ نظام تعلیم سے ملتا جلتا نظام تعلیم اس ملک میںمتعارف کروایا اور بعد ازاں نافذ کر دیا جو اب تک موجود ہے،جس کی رُوسے ان کا اور ان کی اولادوں کا ہمیشہ حکمران رہنے اور غریب عوام کو کلرک اور نوکر بنا کر رکھنے کا خواب ابتک بڑے کامیابی سے پورا ہورہا ہے، یہ بات بڑی قابل توجہ ہیقیام پاکستان سے اب تک یہ انتہائی اہم کام کیوں نہیں ہو سکا؟ جواب بڑا سیدھا اور واضح ہے
یہ اربابِ اختیار بھی دراصل جنہوں نے اس طبقاتی نظامِ تعلیم کی سازش کی تاکہ وہ خود اور ان کی اولادیں ہمیشہ حکمران رہیں اور عام عوام ہمیشہ ان کے غلام ہی رہیں، سرکاری تعلیمی ادارے جو غریب عوام کے بچوں کی تعلیمی درسگاہیں ہیں وہ بھی اب تباہی کے آخری کنارے پر ہیں، کہیں سکول کی عمارت ہے تو استاد نہیں،کہیں استاد ہیں تو سکول کی عمارت نہیں آزاد فضا میں کھلے آسمان تلے میدان میں تعلیم دی جا رہی ہے، یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کوئی بھی نظریاتی ملک باقی رہ نہیں سکتا جب تک کہ اس کے بنیادی نظریہ پر اس قوم کا ایمان پختہ سے پختہ تر نہ ہوجائے، چنانچہ ضرورت ہے کہ اس نہایت خوفناک صورت حال کی طرف توجہ دلائی جائے کہ ”ایک نظریاتی ریاست کے لئے نظریاتی نظام تعلیم” کی اتنی ضرورت ہے جتنا کہ کسی انسان کو زندہ رہنے کے لئے ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہیملک عزیز کی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اس کے لئے سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ ”نظام تعلیم کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے،دوسری اہم بات کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو پالیسی میکرز، اساتذہ، طلباء اور والدین کے ذریعے بھی بہتری کی جانب لے جا سکتے ہیں اور کسی بھی ریاست کے نظام تعلیم میں یہی چار بنیادی فیکٹر بھی ہیں ،جب تک یہ چاروں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گے تب تک متوقع نتائج بھی ممکن نہیں کیونکہ ان ہی کی دلچسپی و دلجمعی کے ذریعے ہی نتائج کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
یکساں نظام تعلیم کے نفاذ پہ بریگیڈئیر(ر) عبد الحفیظ نے کہاکہ تعمیری انقلاب کے لئے جس علم اور جس تعلیم کی ضرورت ہے اس کی عمارت چار ستونوں پر گہری بنیاد پر استوار مطلوب ہے،پہلا ستون حقیقی ماخذ کے ساتھ علم یا نصاب ہے، دوسرا ستون اس علم کو آگے منتقل کرنے والا ایسا معلم ہے جس کے قول وفعل اور اخلاق وکردار سے اس حقیقی علم کی خوشبو آئے، تیسرا ستون والدین ہیں جس کے شب و روز بچے کے تدریسی نصاب اور معلم کی محنت کی پشت پناہی کریں، یعنی گھر کا ماحول علم اور تعلیم سے مطابقت رکھتا ہو، چوتھا ستون میڈیا اور سماج ومعاشرہ ہے جس کی معاونت مثبت نتائج کی ضمانت دے سکے گی،مذکورہ چار عناصر ہوں تو ان پر انقلاب کی چھت ہر بْرے وقت سے ملک وقوم کی حفاظت کرتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانان عالم نے علم سے ناطہ جوڑے رکھا اس نے زراعت، صنعت، سائنس وطب، تسخیر کا ئنات و ارضیات غرض ہر میدان میں اس نے ترقیوں اور کامرانیوں کے زینے عبور کیے،علم کا شاید ہی ایسا کوئی شعبہ ہو جس میں مسلمان علماء وسائنسدانوں نے تشنہ چھوڑاہو، بدقسمتی تو یہ رہی کہ ہم نے وارث ہونے کا حق ادا نہ کیا، ملک عزیز میں اگر یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنا مقصود ہے اور یہ یقیناً ایک متحد قوم کی ضرورت ہے تو قوم کے بچوں کو دو مختلف سمتوں میں چلانے کے بجائے ایک مشترکہ نصاب پر جمع کرنا ہوگا
تعلیمی فضا میں اس افراتفری کے نتیجے میں قوم میں بھی ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے،فرقہ وارانہ فسادات ، صوبائی اور علاقائی تعصبات، طبقاتی کشمکش ،مغربی اور اسلامی تہذیب کا تصادم اور انتہا پسندی یکساں تعلیمی نظام کے نہ ہونے کا نتیجہ ہیں،سوال یہ ہے کہ کیاہمارا نظام تعلیم بچے کی چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لا ر ہا ہے یا ان کو لکیر کا فقیر بنا رہا ہے؟ کیا ہم ایک مہذب اور صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ نسل پروان چڑھا رہے ہیں یا اخلاق اور مقاصد سے عاری قوم؟بدقسمتی سے وطن عزیز میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے اور ایک مضبوط قوم بننے کیلئے صرف پالیسیوں کو ہی تواتر کے ساتھ تبدیل کیا جاتا رہا کبھی بنیادی مسائل کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ابھی تک یکساں جدت پسند نصاب ہی رائج نہیں کیا جا سکا جو بچے کو مثبت تخلیقی سرگرمیوں کی طرف لے جا کر اس کو سوشل ریفارمر بنائے، جو معاشرے کے بگاڑ کی روک تھام اور بناؤ کے طریقے سکھائے،جو بچے سے رٹہ لگانے کی عادت چھڑا کر ذہین طالب علم اور بہترین ریسرچر بنائے،سب سے بڑی مثال جاپان کی ہے، آج جاپان کی شرح خواندگی اقتصادی و معاشی ترقی دنیا کیلئے ایک روشن مثال ہے،قابل افسوس امر تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم زبان پر بھی متفق نہ ہو سکے،ملک کا ایک اہم مسئلہ یکساں نصاب تعلیم کا ہے،ہمارے ملک میں مختلف نصاب پڑھائے جا رہے ہیں،پبلک سیکٹر کا اپنانصاب،مدرسہ ایجوکیشن کا اپنا اور پرائیویٹ سکولوں کا اپنا نصاب ہے بلکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تو مزید نصابوں کا ایک جال ہے،
ایک سکول میں آکسفورڈ ہے تو دوسرے میں امریکن نصاب، اگرچہ ہر تعلیمی پالیسی کی طرح اب پبلک اور پرائیویٹ سکولوں کیلئے یکساں نصاب کی اہمیت پر تسلیم بھی کر لیا گیا ہے تاہم عملی طور پر ابھی تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے،میرے نزدیک ایک ایسا نصاب تعلیم وضع کیا جائے کہ دسویں جماعت تک تمام بچے اس قابل ہوجائیں کہ ایک طرف ڈاکٹر اور انجینئر اور دوسرے عصری علوم میںمہارت حاصل کرنے کی ان میں قابلیت پیداہو اور ساتھ ساتھ اگر کوئی بچہ قرآن و سنت پر مبنی دینی علوم اور مذہبی علوم سیکھنے میں دلچسپی رکھتاہوتو وہ عالم دین بننے کے لیے بنیادی صلاحیت حاصل کرچکا ہو،اب یکساں نظام تعلیم کا نفاذ ملک کے انتظامی امور سنبھالنے والے ہی لاگو و ممکن بنا سکتے ہیں اس لیے جب تک ملک کے پالیسی ساز ادارے ہی دلچسپی نہیں لیں گے تو ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ ممکن نہیں ہو گا،پالیسی سازوں کے نزدیک تعلیم کو اولیت دینے کی ضرورت ہے ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم کو اہمیت دے کر ہی ممکنہ نتائج حاصل کیے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھتے چلے گئے،اسمبلیوں میں جانے والے افراد ہی اپنے حلقے کو سامنے رکھ کر پالیسیاں ترتیب دے سکتے ہیں اور وہ پالیسی ساز اداروں اور حکومت کے معاون ثابت ہو سکتے ہیں،دوسرا اہم عنصر اساتذہ ہیں جو کہ اپنی سیاسی وفاداریوں یا اپنی یونین کی سیاسی دلچسپیوں کو ختم کر کے تعلیم پر توجہ دیں،تعلیمی سوچ کو پروان چڑھائیں ،حکومتی فرائض میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہیے
اساتذہ کو وہ رتبہ کو عزت عطا کی جائے جو کہ ایک استاد ہو حاصل ہونی چاہیے یا مجموعی اعتبار سے جس کا وہ حقدار ٹھہرتا ہے،لارنس کالج میں جب میں پرنسپل تھا تو اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے میری تعلیمی سوچ اور رائے کو مقدم رکھ کر ایک کانفرنس کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا تاکہ وہ ملک میں نظام تعلیم کے حوالے سے حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اٹھا سکیں جس کی آنے والے وقتوںمیں ضرورت ہے تاہم وہ اپنے وعدے کے مطابق کانفرنس کا انعقاد اپنی کم مدت کے باعث ممکن نہ بنا سکے تھے،یکساں نظام تعلیم کا نفاذ قطعی طور پر مشکل نہیں اور نہ ہی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے،تمام سکولوں چاہے وہ پرائیویٹ ہیں یا سرکاری ادارے وہاں سکول یونیفارم ایک جیسا ہو،اردو میڈیم سے نکل کر انگلش میڈیم کی جانب آنا ہوگا تاکہ ہم احساس کمتری کے زہر سے بھی پاک ہو سکیں امیر و غریب کا فرق مٹا کر نظام تعلیم ایسا ہونا چاہیے کہ جہاں تعلیم دی جائے نہ کہ فروخت کی جائے،وزیر تعلیم ایسے شخص کو بنانا چاہیے جسے معلوم ہو کہ تعلیم کیا ہے اور اس کی دلچسپی بھی کہ وہ کیسے نظام تعلیم میں موجود خامیوں کو اپنی صلاحیتوں سے کیسے دور کر سکتا ہے،صوبائی اور وفاقی سطح پر وزراء کے ساتھ سیکرٹریز کا تقرر بھی اس کے تجربات اور تعلیمی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
طالب علم اور استاد کو تقدس کے رشتے پہ بات کرتے ہوئے بریگیڈئیر(ر) عبدالحفیظ نے بڑا خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم و تربیت انسان کی سب سے پہلی،اصل اور بنیادی ضرورت ہے حتیٰ کہ بچوں کے لیے دوسری تمام ضرورتوں سے زیادہ اہم ضرورت تعلیم و تربیت ہے،تعلیم و تربیت کا مرحلہ انسان کا بچپن ہی ہے، ماں باپ تو اپنا تعلیم و تربیت کا مرحلہ گزار آئے ہیں لیکن ان کے بچے ابھی اس مرحلے میں موجود ہیں، بچپن میں ایک بات سیکھنا ایسے ہی ہے جیسے انسان نے پتھر پر کوئی چیز کندہ کردی ہو یااس کا نقش بنادیا ہو، ہزاروں سال پہلے پتھروں پر جو نقش بنائے گئے تھے آج تک یادگارکہ طور پر موجود ہیں،کہیں میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں تو کہیں اہم جگہوں پر یہ پتھر اور کتبے نصب ہیں،بچپنے کے عمر تعلیم و تربیت کے لئے بہت اہم ہے،خداوند تبارک وتعالیٰ نے انسان کے اندر جو مناسب ترین عمر سیکھنے کی رکھی ہے وہ یہی بچپنے کی عمر ہے اس عمر میں بچے کے اندر صرف سیکھنے اور پڑھنے کی گنجائش ہے،اور اسی عمر میں اسے تہذیب اور تمدن کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے،استاد اپنے طلباء کیلئے ایک رول ماڈل ہوتا ہے،بچے اپنے استاد ہی کو دنیا کا سب سے بہترین انسان تصور کرتے ہیں ،اس لیے استاد کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کا اثر بچے کے ذہن اور نفسیات پر نہ صرف مرتب کر سکے
بلکہ بچے ان ہی اثرات سے متاثر ہو اور اپنی شخصیت بھی اسی طرز پر سنوارنے کی جستجو رکھے، آج کے اس دور میں جہاں مادّی منفعت اور خود غرضی کی بنا پر ہر رشتہ اور تعلق کی اہمیت مفقود ہوتی جارہی ہے وہیں اْستاد اور شاگرد کے مبارک روحانی رشتہ کی اہمیت بھی کم اور اس کاتقدس بھی پامال ہوتا جارہا ہے،اس سلسلے میں جہاں اساتذہ سے اپنا مقام سمجھنے میں کوتاہی ہورہی ہے وہیںشاگرد بھی ان کواپنا مقامِ عطا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے آئے دن شاگرد اپنے اساتذہ سے بدتمیزی اور گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں،مجھے اپنے سکول دور کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ میں غالباً مڈل کلاس میں ہوں گا ایک دن مجھے والد صاحب نے کسی کام کیلئے بازار بھیجا اور سرشام بازار میں میری اپنے استاد محترم ماسٹر غلام حسین مرحوم سے ملاقات ہوئی جنھیں میں نے سلام کیا تو انہوں نے مجھ سے دیکھتے ہی پوچھا کہ حفیظ تم اور اس وقت بازار میں؟ کیوں آئے ہو ؟تو میں نے بتایا کہ کہ والد صاحب نے کسی کام سے بھیجا ہے تو انہوں نے لہجے میں قدرے نرمی برتتے ہوئے کہا کہ اچھا۔۔مگر انہوں نے صرف اچھا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اگلے روز میرے والد صاحب کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے نے والد صاحب سے پوچھا کہ کل فلاں ٹائم پہ آپ نے حفیظ کو بازار میںفلاںکسی جگہ پر کام کیلئے بھیجا تھا تو انہوں نے ہاں میں تسلی دی۔۔دراصل یہ استاد اور شاگرد کا ہی رشتہ ہے جس کی بدولت استاد کو اپنے شاگرد کے بارے میں اور شاگرد کو اپنے استاد کے بارے میں فکر ہوتی ہے، چنانچہ اس بارے میں اگرچہ ایک طرف آج پوری دنیا کے ذی حس لوگ فکر مند ہیں وہیں دوسری جانب اس مرض میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے، جس کی وجہ سے پورا تعلیمی ڈھانچہ اس قدر متاثر ہوا ہے
تعلیمی ادارے اور ان سے فارغ ہونے والے طلبابہت ساری خرابیوں کے موجب بن رہے ہیں، اگرچہ تعلیمی اداروں سے طلباء عملی مشین تو بن جاتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے تعلیم دی جاتی تھی وہ مقصد ان میں نہیں پایا جاتا، کیونکہ” تعلیم ایک ہنر ہے جس سے ماہرانِ خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں”،آج ہمیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، ماہرانِ خصوصی یعنی ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سیاستدان تو بنائے جا رہے ہیں لیکن انسان پیدا نہیں کیے جا رہے، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اگرچہ موجود ہیں لیکن استاد کے معنی کیا ہیں، استاد کا مقام کیا ہے، اور اس کے حقوق طلبا اور طلبہ کے حقوق اساتذہ پر کیا ہیں ،اس سے آج کا طالب علم اور استاد کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں رہا،اس کی چکاچوند اور آزاد خیالی نے اس قدر تعلیمی نظام اور اس سے جڑے لوگوں کا کام ختم کر دیا کہ آج حقیقی معنوں میں نہ کوئی استاد رہا اور نہ ہی کوئی شاگرد، یہ رشتہ کب کا اس دنیا سے نابود ہوچکا ہے، یہ رشتہ مثل ”باپ بیٹے کا” رشتہ تھا، لیکن آج اس رشتہ کو ختم کر کے اس عظیم اور پاک رشتہ کی جگہ آزاد خیالی کے نام پر ایک دوسرا رشتہ قائم کیا جا چکا ہے ،چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر سب سے پہلا کام معلم کا ہے، معلم صحیح تعلیمات سے آراستہ ہو گا
تو طلباء بھی صحیح تعلیم کے نور سے منور ہو پائیں گے اور اگر استاد ہی اصل اور حقیقی روحانی تعلیم سے نابلد ہو تو سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیاں ہماری تربیت گاہ بننے کی بجائے ہماری تباہی کا ہتھیار بن جائیں گی، ترقی یافتہ ممالک میں طالب علم کو میٹرک کی تعلیم کے دوران ٹیچرز بچوں کو ان کی صلاحیتوں کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر،انجنئیر، سیاسدان،ڈاکٹر یا آرمی آفیسر وغیرہ وغیرہ کیا بن سکتے ہیں،ترقی یافتہ ممالک تعلیم کو مکمل ہمہ جہتی سے تعبیر کرتے ہیں اور بچوں کی مکمل نشونما کا ذمہ لیتے ہیں، بچوں کی جب تک چار سیکٹرز میں مکمل تربیت نہیں کی جاتی تب تک وہ حصول علم کے بنیادی اوصاف سے بھی باخبر نہیں ہو سکتا،1) اکیڈیمک(تربیت)،،بچے کو ابتدائی نالج 2) جسمانی تربیت3) سوشل یا سماجی تربیت اور4) جذباتی گروتھ، بچے کو تربیت دینی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے باہمی تعلق کیسے رکھ سکتا ہے،اساتذہ بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں کہ وہ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوںکی عزت کریں ،بچے کے احساسات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے ،بچہ جب سکول جانے لگے تو اسے شوق پیدا ہو کہ وہ سکول جا رہا ہے،اسی طرح ٹیچرز کو کوبھی بچوں سے میانہ رویہ اپنا کر سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے کیونکہ تعلیمی نظام میں معلم کا اپنا ایک درجہ ہے، وہ طلبہ کا روحانی باپ ہے اور ملت کا معمار بھی، آئندہ نسلوں کی سیرت سازی اسی کے ذمہ ہے اور مستقبل کے شہریوں کا بننا اور بگڑنا بہت حد تک اسی کی کوششوں اور فکر پر منحصر ہے اس لییاس اہم منصب کے لحاظ سے ایک معلم کے اندر اعلیٰ اوصاف ہونے چاہئیں،معلم کے اوصاف اعلیٰ ہوں گے تو طلبا کے اوصاف پر ان کی چھاپ پڑے گی اور اگر معلم اوصاف ِحمیدہ سے خالی ہو تو طالب علموں کی کھیپ سے اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان نکل آنا مشکل ہے۔
تعلیمی اداروں میں کیا ڈنڈے پہ بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کسی بھی ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جہاں انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ممکن بنائے’ وہاں انہیں تعلیم جیسے بنیادی ہنر کی دستیابی بھی ہر صورت میں میسر کرے کیونکہ بامقصد اور کارآمد تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے’ جس سے کوئی شخص نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتا ہے’ بلکہ اپنے خاندان اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی بھی ممکن بنا سکتا ہے، امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی’ جاپان اور کوریا کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا’ مگر آج یہ تینوں ممالک معاشی طور پر ترقی یافتہ ہیں کیونکہ ان ممالک نے جنگ عظیم کے بعد اپنی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا پندرہ فیصد سے بیس فیصد تک تعلیم’ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر خرچ کیا،یہ فنی تعلیم ہی کا کرشمہ ہے کہ آج چین’ سنگاپور’ ملائشیا’ تائیوان اور انڈونیشیا کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہا ہے اور ان ممالک کی فی کس آمدنی سالانہ چھ ہزار ڈالر سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے لوگوں کا معیار زندگی انتہائی بلند ہے ،تعلیم کی مفت فراہمی پر فلاحی ریاست کا بنیادی فرض ہے’ ہمارے پاکستان میں بہتر اور کارآمد تعلیم جو کسی بھی نوجوان کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے’ وہ انتہائی مہنگی ہے اور اس کا استحقاق ہمارے معاشرے کے امراء کو ہے
جبکہ غریبوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع غیرپیداواری ہیں کیونکہ پاکستان کے مدرسے’ سرکاری پرائمری اور ہائی سکولز کالجز اور یونیورسٹیاں ہمارے جمہودی نظام تعلیم اور اساتذہ کی کام چوری’ نااہلی اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ طالب علموں کو اس قدر ہنرمند بناتے ہی نہیں ہیں کہ وہ معاشرے میں مسابقت کے ذریعے اعلیٰ مقام حاصل کر پائیں تاہم شاذ و نادر (چند استثنائی مثالیں) یقیناً موجود ہیں مگر وہ کسی بھی طالب علم کی انفرادی جدوجہد’ گھر کا ماحول یا قسمت کی یاوری ہوتی ہے کہ وہ سرکاری نظام تعلیم کے ذریعے زندگی میں کسی اہم مقام پر پہنچ جاتا ہے،میں سرکاری اداروں پر تنقید نہیں کر رہا کیونکہ میں بذات خود سرکاری تعلیمی اداروں ہی سے پڑھ کر آگے بڑھا ہوں اور ویسے بھی سابقہ ادوار میں سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ پروفشنل ہوتے تھے جنہیں فخر ہوتا تھا کہ وہ ایک معلم کے عہدے پر فائز ہیں اور وہ قوم کے معماروں کا مستقبل سنوار رہے ہیں مگر موجودہ حالات میں ایسا نہیں ہو رہا جیسا کہ ہم اپنے دور میں دیکھ چکے ہیں اور جس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں میں نے شروع کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ذکر کیا تھا کہ میرے استاد محترم ماسٹر غلام حسین میری بات کی تصدیق کیلئے میرے والد صاحب کے پاس پہنچ گئے تھے
انہوں نے جب تصدیق کی کہ واقعی مجھے کسی کام کے سلسلے میں بازار بھیجا گیا تھا ،،یہ اس وقت کی بات ہے جب ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھا جاتا تھا،اس وقت ڈنڈا استاد اٹھاتا تھا اورحکومتیں کارکردگی پر فخر کرتی تھیں اور آج حکومتیں ڈنڈا اٹھانے پر مجبور ہیں مگر اساتذہ،طلباء اور والدین کے دلوں سے دلچسپی،دلجمعی اور ذوق وشوق باقی نہیں رہا، ایسے کسی فرد کی کامیابی میں سرکاری اداروں کے اساتذہ کا اتنا ہاتھ نہیں ہوتا جتنا کسی شخص کے زمانے اور وقت کے مدوجزر سے سیکھنے کا جذبہ جو اسے کندن بنا ڈالتا ہے،پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایسا کوئی میکانزم موجود نہیں ہے جسکے ذریعے بچوں کی حقیقی تعلیمی ضروریات اور تخلیقی صلاحیتوں کو ایڈریس کیا جاتا ہو، پاکستان میں ایسے پرائمری سکولوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو کھلے آسمان کے نیچے واقع ہیں، ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو ایک آدھ میٹرک پاس استاد کے علاوہ چھت’ کلاس رومز’ فرنیچر’ لائبریری اور بیت الخلاء کی سہولتیں میسر نہیں ہیں’ ڈنڈے اور سخت سزا کے خوف کے سائے تلے قوم کے نونہالوں کو جبراً پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پچاس فیصد سے زائد بچے پرائمری سطح پر ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جبکہ محض چند فیصد ہائی سکول اور دو فیصد کالج یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں چنانچہ پبلک سیکٹر میں تعلیمی نظام کی تنزلی اور زوال پذیری کی وجہ سے اسکے متواز ی پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے شعبے میں قدم رکھے’سرمایہ دارانہ معیشت میں مارکیٹنگ اور برانڈ نیم پر لوگ پیسے خرچ کرتے ہیں تو بڑے بڑے کمرشل اداروں نے بھی تعلیم کو صابن’ ٹوتھ پیسٹ’ کاسمیٹکس کے سامان کے تشہیری انداز اختیار کرکے بیچنا شروع کر دیا ہے، کیا وہ فرنچائزڈ سکولز اور کامرس کالجز اپنی فیسوں کا تیس سے چالیس فیصد رائلٹی ادا کرنے کے بعد وہ کوالٹی ایجوکیشن فراہم کر سکتے ہیں’
جو کامیاب پرائیویٹ اداروں کی چند برانچیں مہیا کر رہی ہیں’ ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے ایک تعلیمی ادارہ اپنے سسٹم اور اساتذہ کی ٹیم کی بدولت ایک ادارے میں ہی اچھی تعلیم دے رہا ہے تو اسکا مطلب قطعاً نہیں ہے کہ وہی معیار تعلیم اسکی دوسری برانچوں یا فرنچائزڈ اداروں میں بھی ہوممکن ہو گی جبکہ فیس ہر جگہ ایک ہی ہو گی،اسطرح اگر یہ سوچا جائے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں معیار تعلیم کیا ہوگا اور وہاں جو سوال جنم لیں گے مثلاً کیا دیہاتی غریب بچوں کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جا سکتی ہے؟ کیا پرائیویٹ سیکٹر کو ترقی دینے کیلئے پبلک سیکٹرز کے تعلیمی اداروں کو تباہ و برباد کرنا ضروری ہے؟تو اس کا جواب ان پالیسی سازوں کے پاس بھی نہیں ہو گا جو بند کمروں میں بیٹھ کر باہر کے حالات دیکھتے ہیں، تعلیم ہمیشہ سے ہی پاکستان کا ایک توجہ طلب مسئلہ رہی ہے لیکن بد قسمتی سے اس مسئلے کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا رہا ،اورنہ ہی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے دیرپا اقدامات کئے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی دیکھنے کوملتی ہے جو ہمارے تعلیمی نظام اور اْسکے معیار کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،پاکستان میں سرکاری سطح پر تعلیم کا جو معیار ہے اْس سے ہم سب ہی خوب واقف ہیں، نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کا حصول غریب طبقے کے لئے ناممکن بنا دیا ہے
کیونکہ اْنکا مقصد تعلیم کے فروغ سے زیادہ تعلیم کے نام پر کاروبار چلانا ہے ، جہاں کورس تو آکسفورڈ کا پڑھائے جانے کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن پڑھانے والے خود کورس کی تکنیک سے نابلد ہوتے ہیں،دوسری طرف گلی محلوں میں کھُلے ہوئے دو کمروں کے سکولوں کی مشروم گروتھ بھی تعلیم کے نام پر مذاق کی اعلی مثالیں ہیں،اعلی تعلیمی معیارکے دعویدار یہ وہ سکول ہیں جہاں غیر تربیت یافتہ اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ نے تعلیم کو مذاق بنا رکھا ہے،المختصر کہ جب تک اخلاص کا مادہ پیدا نہیں ہو جاتا تب تک حصول علم کا مقصد بھی بیدار نہیں ہو سکتا،تعلیمی سیکٹر میں حکومت،اساتذہ،طلباء اور والدین ہی ایک زنجیر میں اس اہم مسئلے کے حل کیلئے ایک دوسرے کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے واسطہ ہر لحاظ سے جڑتا ہے،دوسری جانب حکومت کا اس مقصد کیلئے اپنا بھی اولین کردار ہونا چاہیے جب وہ اس سیکٹر میں کچھ خرچ کرے گی تو پھر اسے نتائج بھی لازماً لینے ہونگے ،ڈنڈے کے استعمال سے جانور تو سداہے جا سکتے ہیں لیکن انسان نہیں،تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے ۔
تعلیم میں میڈیا کے کردار پہ بریگیڈئیر(ر) عبد الحفیظ نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواندگی کا تناسب تشویشناک حد تک کم ہے اور لازمی پرائمری تعلیم بدستور خواب بنی ہوئی ہے’ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سڑکوں پر پھر رہے ہیں، ایک جانب اسکول جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے تو دوسری جانب تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، لازمی پرائمری تعلیم کے مقاصد آج تک حاصل نہیں ہو سکے حالانکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے تعلیم کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں،تعلیمی ترقی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ،ملک عزیز میں ایسا نظام تعلیم ہونا چاہئے جس سے تحقیقی کام کو فروغ مل سکے، اب دنیا تعلیم کی اہمیت کو سمجھ چکی ہے جن ممالک نے تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے
وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد اب صوبوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں، ہمارے پڑوسی ممالک تعلیم پر ہم سے کئی گنا زیادہ خرچ کررہے ہیں، جن ممالک نے انسانی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا ہے ان کی شرح خواندگی خود ہی بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے کیونکہ انسانی ترقی کا براہ راست تعلق تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ہے،معیاری تعلیم طلباء کی سوچ اور زندگی میں کامیابی کے امکانات کو روشن کرتی ہے،رہا سوال کہ حصول علم میں میڈیا کا کیا کردار ہے اور کتنی مدد دے رہا ہے تو میرے نزدیک صرف الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا بھی اپنا حق ادا کر رہا ہے،میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ طلباء اور علم سے وابستہ شخصیات اور اداروں کی راہنمائی کیلئے مختلف شخصیات کے خیالات کو سامنے لائیں،مختلف چینلز پر ایک ہی شخصیت کو بدل بدل کر لایا جاتا ہے اور وہ اپنے وہی خیالات سامنے لاتے ہیں جو وہ پہلے بھی پیش کر چکے ہوتے ہیں،اسی طرح میڈیا کو طلباء کی تشنگی کو سامنے رکھ کر ان کی تربیت اور سیکھنے و سمجھنے کے عمل میں دلچسپی بڑھانے کی ضرورت ہے،ملک کے اندر ہر ادارے کے اوپر ڈاکومینٹری فلمز پیش کی جانی چاہیں تاکہ عام شہری کو بھی معلوم ہو کہ ادارے کیسے چلتے ہیں، اْن کی پرفارمنس کیا ہوتی ہے، جمہوری تربیت کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو براہ راست نشر کیا جانا چاہئے، تاکہ جہاں وہ جمہوری تربیت لیں وہاں ساتھ اپنے منتحب نمائندوں کی کارکردگی کو بھی دیکھیں، اس سے سیاسی کرپشن کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، مْثبت سوچ کی تربیت میں میڈیا بنیادی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
آخر پہ اساتذہ ،طلباء اور ماہرین تعلیم کے بارے بریگیڈئیر(ر) عبدالحفیظ نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی، معلومات کے سیلاب اور میڈیا کی چکا چوند ترقی نے دْنیا بھرمیں ایک انقلاب برپاکر دیا ہے،اس تیزی سے بدلتی سائنسی اور ثقافتی یلغار نے جنگ،دفاع،امن،دوستی،صنعت وتجارت اورکھیل تک کے منظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، ہم اپنے سماجی تانے بانے کو اتنا مضبوط نہیں کرسکے کہ ہم تیزی سے بدلتے حالات میں دنیا کا مقابلہ کرسکیں بلکہ ہم اپنے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک فراہم نہیں کرسکے،اگر ملک میںصرف شعبہ تعلیم پر توجہ دی جاتی، لوگوں کی پسماندگی کو معیاری تعلیم کے ذریعہ سے کم کرنے اور باعزت روزگار فراہم کرنیکی سنجیدگی سے کوشش کی جاتی توشاید آج حالات اتنے بدترین نہ ہوتے،آج ہمارے لئے دہشت گردی اور خودکش حملہ آور سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ زمینی حقائق کو سمجھنے سے قاصرہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک تعلیمی میدان میں کوئی انقلابی قدم نہ اْٹھا سکے،موجودہ دور میں ہمیں تعلیم کے شعبہ کو بہتر کرنے کے لئے تربیت یافتہ اور اعلٰی تعلیم یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ جدیددور کے تقاضوں کو مد ِنظررکھتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور ایسا لائحہ عمل اپنانا ہوگا جس کو بروئے کار لاکر ہم وسائل کومسائل کے حل کیلئے خرچ کرسکیں، ہمیں تعلیم اور معیار تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے دیگر مسائل بے روزگاری ، جمہوریت،سیاسی استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کے برابر اہمیت دینی ہو کی تاکہ معاشرے کے سْدھارکی کوشش کے بہترین نتائج حاصل ہوسکیں،ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے
ہم نے تعلیم کو کبھی اہمیت نہیں دی، تعلیم کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا بلکہ ہم نے اس شعبہ کو کبھی قومی دھارے کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا، اساتذہ جن سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو عدم توجہی کا شکار ہیں،اساتذہ کی کفالت اور ان کو تحفظ دینے کے مناسب اقدام نہیں ہوئے، معاشرے نے انہیں مناسب مقام دیا نہ ہی احترام، سال میں ایک دن ٹیچر ڈے منانے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا ہے، ہر پل بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں، جس کی وجہ سے اساتذہ اپنے فرائض خوشدلی سے ادا کرنے میں قاصر نظر آتے ہیں، ایسے حالات میں حکمران طبقہ کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے جہالت ختم کرنے کے لئے شعبہ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے قدم اٹھائیں اور معاشرے کے پریشان حال اور محروم طبقے کے لئے کچھ کرے اورتعلیمی شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کے لئے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس کے انتظامی شعبوں کو درست کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، تعلیم کے شعبہ سے غفلت اور لاپرواہی کی اس روش کو ترک کرنے ہی سے ملک کومحفوظ، مستحکم ، خوشحال اور ایسا پاکستان بنانے کی ذمہ داری نبھانا ممکن ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، جہاںنہ نظریاتی تصا دم ہو اور نہ ہی بدامنی ہو،مختصراً میرا پیغام یہ ہے کہ اساتذہ بچے کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ ایک اچھا انسان بنیں اور مستقبل کے رولز کیلئے تیار ہوں،طلبہ محنت کریں اور اچھی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر مستقبل میں معاشرتی ترقی میں اہم رول ادا کر سکیں،ماہرین تعلیم تعلیمی شعبو میں سائنسٹفیکیٹ ریسرچ کریں اور تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنے ملک کو کھڑا کریں ۔اگر قوم کو تبدیل کرنا ہے تو اس کے اساتذہ کو تبدیل کریں
تحریر۔۔۔راشد علی راشد اعوان