تحریر : عماد ظفر
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شائد ہی اتنی الیکٹرانک میڈیا کوریج کسی اور کو ملی پو جتنی کہ عمران خان اور طاہر القادری کو گزشتہ چند برسوں کے دوران نصیب ہوئ. اتنی کوریج اور اتنی زیادہ تعداد میں حوالدار اینکرز اگر کسی بندر تماشہ دکھانے والے مداری کو بھی دئیے جائیں تو کم سے کم وہ ان دونوں حضرات سے زیادہ بڑا مجمع نہ صرف اکھٹا کر سکتا ہے بلکہ تماش بینوں کو محضوظ بھی کر سکتا ہے.لیکن شومئ قسمت کہ جناب عمران خان اور طاہر القادری ہر بار دعووں کے باوجود نہ تو کوئ بڑا مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہونے پاتے ہیں اور نہ ہی کوئ نیا کرتب دکھانے میں کامیاب ہونے پاتے ہیں جسے دیکھ کر اب شاید خود رنگ ماسٹر یعنی سرکس سجانے والے ششد ہیں کہ اور کیا ایسا کیا جائے کہ تماش بینوں کو ان کی سجائی گئی سرکس کے “بندروں” کی طرف متوجہ کیا جا سکے.
ہفتہ کے روز لاہور اور راولپنڈی میں جس طرح پورا دن مداریوں نے اپنے اپنے تماشے کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوششیں کیں اور آخر میں کثیر تعداد میں مجمع نہ اکٹھا کر پانے کی فرسٹریشن اور ڈیپریشن جن الفاظ میں نکالی وہ سب کے سامنے ہے.نواز شریف کو را کا ایجنٹ کہنے کے الزامات سے لیکر اوئے چئرمین نیب اوے چئرمین ایف بی آر یہ تمام جملے اور تقاریر ثابت کر رہے تھے کہ مقصد ایک بار پھر حاصل نہ ہو سکاِ الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے حوالدار اینکرز کی فرسٹریشن بھی دیدنی تھیِِ. اب سوال یہ پیدا ہوتا پے کہ رنگ ماسٹر رنگ میں نئے مداری اور بندر کہاں سے لے کر آئے. اور ویسے بھی یہ اکتا دینے والی سرکس نہ صرف اب بوریت کا شکار ہو چکی ہے بلکہ خود اس کے متظمین بھی اپنے مداریوں اور بندروں سے نالاں دلھائ دیتے ہیں.
پانامہ لیکس کا مسئلہ ایک سنجیدہ مسئلہ تھا لیکن عمران خان اور حوالدار اینکرز نے اسے ایک مزاحیہ سوپ سیریل بنانے میں کوئ کثر نہ چھوڑیِ.یوں نواز شریف اس بحران سے بھی بچ نکلے. اب ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر چاہے جتنا مرضی پٹ سیاپا ڈالا جائے لیکن عوام کے لاہور اور راولپنڈی میں عمران خان اور طائر القادری کو مسترد کئے جانے کے بعد سیاسی طور پر نواز شرئف کیلے اب کوئ دقت باقی نہیںِ .پیپلز پارٹی کو اس حقیقت کا ادراک تھا اس لئے انہوں نے انتہائ دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے سینیٹ میں بل پیش کر کے کم سے کم نواز حکومت کو اخلاقی دباو کا شکار ضرور کیاِ خیر اب بات یہ ہے کہ راقم پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ یقینا نواز شریف کے ساتھ ان کے ماضی کا بوجھ ہے لیکن اپنے اس دور حکومت میں اب تک نہ تو ان پر کوئ سنگین نوعیت کا الزام سامنے آیا اور نہ ہی ان کی حکومت کا کوئ میگا سکینڈل اب تک سامنے آ سکا ہے.
پانامہ لیکس جیسے وائٹ کالر جرائم کم سے کم عدالتی سطح پر ثابت نہیں ہوتے. پانامہ لیکس یا منی لانڈرنگ صرف شریف خاندان نے نہیں کی جناب عمران خان سے لیکر جہانگیر ترین آصف زرداری سے لیکر الطاف حسین فوجی آمروں سے لیکر سویلین افسر شاہی اور اس ملک کے تقریبا تمام بڑے صنعتکاروں سرمایہ داروں اور وڈیروں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیںِ .وہ ٹی وی چینلز جو مصنوعی انقلاب کی نویدیں ہر ناکام سرکس سے بیشتر عوام کو سنا رہے ہوتے ہیں ان کے مالکان خود سونے کے اسمگلنگ کے کیسز سے لے کر ٹیکس چوری اور بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے اور غلط اثاثہ جات ظاہر کرنے کے جرائم کے مرتکب ہیںِ اور تو اور ایمانداری اور اخلاقیات کے بھاشن دیتے اینکرز صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا یہ حال ہے کہ پلاٹوں سے لیکر گھر گاڑی بنگلہ مختلف ادوار میں حاصل کرنے کے بعد اب پارسا بن کر غریبوں کے دکھ درد کی باتیں کرتے دلھائ یتے ہیں.
ایسے میں ایک عام فہم سی بات ہے کہ نہ تو اس ملک میں کسی کا احتساب ہو گا اور نہ ہی کوئ موثر قانون سازی.کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیںِ. اشرافیہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یا ادارے سے وہ یہ بات جانتی ہے کہ نظام چلتا رہے گا تو ان کی تجوریاں بھرتی رہیں گی .بھلا جہانگیر ترین علیم خان شاہ محمود قریشی جیسے لوگ احتساب کیوں چاہیں گے کہ خود ان کی اپنی گردن اس میں پھنستی ہے.شوکت خانم کی زکوت کی رقم سے بنی گالہ کے محل میں آرام و عشرت کی زندگی بسر کرنے والے عمران خان ہوں یا مریدین کے چندوں پر پلتے طائر القادری یا پھر سندھ میں کرپشن کا بازار گرم کرتے زرداری صاحب اور پنجاب میں نظام سے فائدہ اٹھاتے شریف برادران ان سب کو اچھی طرح سے ادراک ہے کہ یہ گلا سڑا نظام انہی لوگوں کے گرد گھومتا ہے اور انہی لوگوں کی اولادوں نے آگے اس نظام سے مستفید ہونا ہے.
ہمارے جیسے تجزیہ نگار اور اینکرز ہوں یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سب اسی اشرافیہ سے اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لے کر چپ کر جاتے ہیںِ.تبدیلیاں اور انقلاب کبھی بھی نہ تو اشرافیہ کے ذریعے آتے ہیں اور نہ ہی الیلٹرانک یا پرنٹ میڈیا کے سہارے ایسا کرنا ممکن ہے. یہ جنگ اشرافیہ کے مابین شروع سے جاری تھی اور جاری رہے گی کہیں وزارت عظمی کی کرسی بچانے کی لالچ ہے تو کہیں وزارت عظمی کی کرسی پر قبضہ کرنے کی خواہش کہیں اپنے دام زیادہ بڑھوانے کی چاہ ہے تو کہیں اداروں کے ذریعے اختیارات اور وسائل پر قبضے کی خواہشِِ.اور اس لڑائ میں چارہ بننے والا اس ملک کا غریب اور لوئر مڈل کلاس طبقہ ہے.جس کے مسائل حل کرنا تو کجا ان پر بات کرنے کو بھی کوئ راضی نہیں ہوتا.اے سی لگے ہوئے کنٹینرز اور لینڈ کروزرز میں بیٹھ کر آرام سے منرل واٹر پیتے ہوئے اس ملک کے بچوں کو صاف پانی نہ مل پانے کا جذباتی نعرہ نہ صرف سماعتوں میں زہر بن کر گھلتا ہے بلکہ اب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے.
ایک طرف آٹھ کڑوڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب رنگ ماسٹر اور جمہوری حکومت آپس میں اختیارات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور سیاسی مداری اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر خود وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف. حیرانگی ان صحافی تجزیہ نگار اور اینکرز دوستوں پر ہے جو اشرافیہ کی اس لڑائ میں آگ لگانے یا سیاسی سرکس کو دلچسپ بنانے میں تو سالہا سال بولتے اور لکھتے دلھائ دیتے ہیں لیکن اس گلے سڑے نظام دوارے کوئ بات کرنا پسند نہیں کرتے. اور نہ ہی اصل حقائق عوام تک پہنچاتے ہیںِ. “کوئ بھی ملک ایسے نہیں چل سکتا”.یہ الفاظ یو این ڈی پی کے کاونٹری ڈائریکٹر آندرے کے پاکستان دوارے تھے.اپنی ایک مفضل رپورٹ میں آندرے نے کہا کہ پاکستان میں بستی اشرافیہ اس وطن کے غریبوں کا استحصال کرتی ہے.
آندرے نے یہ بھی کہا کہ کہ ملک پر قابض حکمران اشرافیہ پاکستان سے پیسہ لوٹ کر بیرونی رنیا میں اثاثے بناتی ہے.آندرے کی یہ رپورٹ پالستان میں موجود استحصالی نظام اور اشرافیہ کے عام عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر ہے. جو اس نظام سے جڑے تمام وڈیروں افسر شاہی سیاسی و دفاعی اشرافیہ اور صنعتکاروں کے منہ پر ایک زوردار طمانچے کی مانند ہے.آندرے نے چار برس پاکستان کی اسی اشرافیہ کے ساتھ گزارے پاکستان میں گلی کوچوں میں سفر کیا اور آخر میں یہ کہ کر چلا گیا کہ اشرافیہ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے یہ ملک چاہئے بھی یا نہیںِ کیونکہ بقول آندرے جس ملک میں آٹھ کڑوڑ سے زائد افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارتے ہوں وہ ملک ایسی اشرافیہ اور استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے نہیں چل سکتا. آندرے کی اس رپورٹ میں انتہای باریک بینی سے پاکستان کے معاشی سیاسی اور دیگر پئلووں کا جائزہ لیا گیا ہے.
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چیبلز اور صحافیوں نے اس رپورٹ کے بارے میں نہ تو کوئ پروگرام کیا اور نہ ہی کوئ خبر چلائِ.صرف روؤف کلاسرہ اور عامر متین نے صحافت کی لاج رکھتے ہوئے اس رپورٹ پر اپنے پروگرام میں ایک مفصل بحث کی. اس رپورٹ کے بعد نواز شریف یا اسحاق ڈار کے مصنوعی ترقی کے کھوکھلے نعرے اور اعداد و شمار کھل کر سامنے آ گئے . آندرے نے اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت بھی آشکار کر ڈالی کہ اس ملک کی اشرافیہ یہاں کی غریب عوام کا خون نچوڑ کر جو روپیہ کماتی ہے وہ سارے کا سارا بیرون ممالک کاروبار اور پراپرٹی خریدنے پر استعمال کرتی ہے اور حیرت انگیز طور پر اسی اشرافیہ کے نمائندے کمال ڈھٹای سے اقوام متحدہ کے اداروں سے پاکستان میں سرمایہ داروں کو سرمایہ انوسٹ کرنے کیلے درخواستیں بھی کرتے دکھائ دیتے ہیںِ. یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیے ہی جا رہی ہے.
جمہوریت کے راگ الاپتی سیاسی اشرافیہ ہو یا آمریت کے گن گاتی اشرافیہ ان کا مقصد صرف اور صرف ملکی وسائل پر وقابض ہو کر طاقت اور اختیار حاصل کرنا ہوتا ہے تا کہ ہر ممکن طریقے سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا جا سکے. اب بھی اگر یہی سرکس دیکھنے کی اور چاہ ایک عام آدمی میں باقی ہے تو پھر سزا کے طور پر ایسے مداری ہی حکمرانی کرتے رہیں گے اور استحصال کا یہ نظام کڑوڑوں افراد کو کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کے نام پر بیوقوف بناتا ہی رہے گاِ۔ ِ
تحریر : عماد ظفر