تحریر : ایم ایم علی
گذشتہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی ٹمبر مارکیٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے پوری مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس آتشزدگی کے باعث سینکڑوں دوکانیں ومکانات ،درجنوں گودام اور پتھارے و ٹھیلے جل کر خاکستر ہو گئے ۔اس افسوس ناک واقعہ میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی ،روٹی روزی کمانے کا ذریعہ اور سر چھپانے کا آسرا بے رحم آگ میں جل کر بھسم ہو گیا،ٹمبر مارکیٹ کے تاجر اپنی دوکانوں اور وہاں کے مکین اپنے مکانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے آگ کے شعلوں کی نظرہوتے دیکھتے رہے لیکن وہ کچھ نہ کر سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی ،لکڑی کی مارکیٹ کوئلے کا ڈھیر بن گئی ۔متاثرین کے مطابق فائر بر یگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے نقصان زیادہ ہوا فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اگر بروقت پہنچ جاتیں تو اس قدر ہونے والے نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔
اسی طرح کا ایک افسوس ناک واقعہ گذشتہ پیر کی شام لاہور کے معروف و مصروف بازارانار کلی کے ایک چار منزلہ پلازے میں پیش آیا اس افسوسناک واقعہ میں ایک خاتون سمیت 13 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک ہی خاندان کے چار افراد بھی شامل تھے ۔یہاں پر بھی کراچی کی طرح متاثرہ افرد ریسکو ٹیموں کی جائے وقوع پر تا خیر سے پہنچنے کی شکایت کرتے دیکھائی دئیے ۔ حسب راویت کراچی ٹمبر مارکیٹ کے واقعہ کی وزیراعلی سندھ نے جبکہ لاہور میں انارکلی میں آتشزدگی کے واقعہ کی وزیراعلی پنجاب نے رپورٹ طلب کر لی ہے ۔کراچی ٹمبر مارکیٹ کے متاثرین کیلئے وزیر اعلی سندھ نے ایک ایک لاکھ روپے یومیہ خرچ کی عبوری منظوری دیدی ہے ،جبکہ بحریہ ٹائون کے سر براہ اور مایہ ناز بزنس مین ملک ریاض صاحب نے کراچی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر دوکان مالکان کیلئے دس ،دس لاکھ فی دوکان دینے کا اعلان کیا ہے ،اسی طرح لاہور میں انار کلی میںآتشزدگی کے متاثرین کیلئے بھی پنجاب حکومت کی طرف سے مالی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔
قارئین !کراچی اور لاہور میں ہونے والے آتشزدگی کے واقعات ہمارے ملک میں نئے نہیں ہیں بلکہ ماضی میں ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں ان واقعات سے بھی کئی گنا بڑے واقعات رو نما ہو چکے ہیں، جن میں اربوں بلکہ کھربوں روپوں کا نقصان ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ سینکڑوں افراد جابحق بھی ہوچکے ہیں ۔ہمارے ملک میں ایک افسوسناک المیہ یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات پر ہماری سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاست شروع کر دی جاتی ہے ،ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔کراچی اور لاہور میں آتشزدگی کے واقعات کے بعد بھی ایسا ہی ہوا کراچی میں ایم کیو ایم نے سارا الزام اس صوبے کی حکمرانوں پر لگا رہی ہے اور لاہور واقعہ پر سابقہ وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی نے پنجاب کے حکمرنوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور اس واقعہ کو پنجاب حکومت کی نااہلی گردانہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام بر سر اقتدار پارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن آج جو جماعتیں ان واقعات پر سیاست چمکا رہی ہیں ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ماضی میں وہ بھی صوبائی اور شہری حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور ان کے ادوار میں بھی اس طرح واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مستقل بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کئے؟ تا کہ آئندہ ایسے واقعات سے یا ان جیسے واقعات سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ۔کراچی ٹمبر مارکیٹ اور لاہور کے انارکلی بازار میں پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعات میں تاجروں اور عام شہریوں کا جانی نقصان کے علاوہ اربوں کا مالی نقصان بھی ہوا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے لیکن اس بھی زیادہ افسوسناک بات یہ کہ ہماری سیاسی جماعتیں بجائے متاثرین کی مدد کرنے کے اور ان سے اظہار ہمدردی کر نے کے ایک دوسر ے پر الزام تراشی کر رہی ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ راویت ہے کہ متعلقہ ادارے اور سیاسی عناصر ایسے قومی سانحات کے بعد اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنے، اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے ، متاثرین کی مدد کرنے اور ان کے آنسو پونجھنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ایسے واقعات کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ایک دوسرے کے خلاف خوب بیان بازی کی جاتی ہے ،مختصر یہ کہ ایسے اور دیگر بہت سے قومی سانحات پر محض سیاست کی جاتی ہے اور اس سیاسی لڑائی میں متاثرین کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔کراچی اور لاہور میں آتشزدگی کے واقعات میں متاثرین کو امدادی ٹیموں کے تاخیر سے پہنچنے کی شکایت ہے صرف ان شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اگر کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اکثر و بیشتر متاثرین وہاں پر بھی اسی قسم کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں ۔جبکہ امدادی ٹیموں کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ ان کی غفلت یا لاپروائی نہیں بلکہ بے ہنگم ٹریفک،ناجائز تجاوزات اور تنگ گلیاں ہیں ۔اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ فائر فائٹر تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لئے بھی ان کو آگ پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر ریسکو ٹیمیں جائے وقوع پر بر وقت پہنچ بھی جائیں تو بیشتر اوقات ان کے پاس حفاظتی سامان تک موجود نہیں ہوتا۔
کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ٹمبر مارکیٹ اور اس سے قبل ہونے والے کئی آتشزدگی کے واقعات میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فائر بریگیڈ کے پاس آگ پر ڈالنے کیلئے پانی تک نہیں ہو تا ۔بہر حال کراچی اور لاہور میں ہونے والے واقعات میں اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے ،بلخصوص کراچی ٹمبر مارکیٹ کے متاثرین بے یارو مدد گار سڑک پر آن کھڑے ہوئے ہیں ۔حکومت سندھ کی جانب سے ان متاثرین کیلئے مالی امداد کے علاوہ عارضی رہائش دینے کا اعلان بھی کیا گیا تھا مگر تادم تحریر متاثرین کو نہ تو کوئی مالی امداد ملی ہے اور نہ کوئی عارضی رہائش ،متاثرین کا کہنا ہے کہ سیاسی چپقلش کی وجہ سے ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔حالانکہ ان واقعات کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیںایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے ادروں کو ٹھیک کرنے اور عوام کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
تحریر : ایم ایم علی