تحریر : ممتاز ملک
ہماری جمہوریت کے نام پر آنے والی ملک کی حکمران جماعتیں ہی یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہمیں ہمارے فوجی ہی سیدھا کر سکتے ہیں جبھی تو ہمارے ہاں انکے آنے پر شیرینیاں بانٹی جاتی ہیں . ویسے پاکستان میں اگر ترکی جیسا ہو تو ٹھکائی فوج کی نہیں ان ” بادشاہ سلامتوں ” کی ہی ہونے جے دو بہن بھائی بھی جب ایک جیسے مزاج کے نہیں ہوتے تو آپ دو ملکوں کی مثال کو ایک دوسرے کے کروڑوں لوگوں پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں ؟ ہر ملک کے لوگوں کے اپنے اعمال اور نظریات ہوتے ہیں . پاکستان کے حالات ترکی جیسے نہیں ہیں . پاکستانی فراڈ یا چور دروازے سے آنے والے کسی بھی صدر یا وزیراعظم کو طیب اردگان جیسے صدر سے ملانا انتہائی بچگانہ سا تقابل ہے۔ ہماری فوج دنیا کی نمبر ون فوج ہے . اس میں ہمیں تو کوئی شبہ نہیں ہیں . لیکن وہ اقتدار پر قبضہ کر کے بھی اتنے ہی اچھے منتظم اور نمبر ون ثابت ہوتے ہیں یہ بات انتہائی متنازعہ ہے۔
کیونکہ جب بھی فوجی حکومت چراغوں کی روشنی اور مٹھائیوں کی خوشی خوشی سے ہی تقسیم میں رخصت ہوتی ہے . تو کامیابی کے وہ سارے غبارے جو فوجی حکومت نے پھلائے اور اڑائے ہوتے ہیں . ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ کر کے پھٹتےہیں اور ی ترقی کے سارے محل میناروں کو زمین بوس کرتے ہوئی ملک کو مزید 10 سے 20 سال دنیا سے پیچھے لیجا چکی ہوتی ہے۔ گویا امیر ہوتے ہیں تو جرنیل ،کرنیل اور برگیدئیرز ….. نہ بدلی تو سپاہی کی حالت جو کبھی نہ بدلی اور نہ بدلی تو اس ملک کے عوام کی قسمت نہ بدلی . ہماری قوم کی منافقانہ ذہنیت کے حساب سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو فوج وہیں اس ملک کے معاملات میں داخل ہوئی ،جہاں جمہوری حکومت کے صدقے میں اگر نہ داخل ہوتی تو خدانخواستہ پاکستان کا نام بھی مٹ گیا ہوتا۔
ہاں یہ اور بات ہے کہ پھر انہیں بھی کرسی کا چسکا لگا جاتا ہے اور ہر ایک تاحیات بادشاہ سلامت بننے کا خواب دیکھنے لگتاہے اور نتیجہ. .. جب وہ بھی جاتاہے تو مزید اتنی خرابیاں پیدا کر چکا ہوتا کہ اس کے آنے کی طرح جانے پر بھی مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں نااہلی اور اقرباء پروری کا زہر فوج سمیت ہر محکمے کی رگوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے ، کہ ہر مشکل میں ہمارے پاس فوج کو ملوث کرنے اور ایک بڑے آپریشن کے سوا کوئی چارہ ہی کوئی نہیں رہ جاتا. اب جب سے فوج کی انٹری نہیں ہوئی، کیا تب بھی ہر مشکل قدم اور مشکل فیصلہ فوج کو ہی نہیں لینا پڑ رہا ہے . کیا آپ اس سے انکار کر سکتے ہیں ؟ پاک فوج نے سب سے مشکل لڑائی اپنے ہی ملک کے اندر لڑی ہے. جن دہشت گردوں سے امریکہ اور روس جیسی طاقتیں نہ جیت سکیں دوسروں کی زمین پر لڑ کر بھی، وہ جنگ اپنے ہی ملک میں لڑ کر جیتی ہے۔
ہماری فوج نے عالمی مشقوں میں دنیا کی سبھی بڑی طاقتوں کیساتھ مقابلوں میں اور ہر طرح کے حالات میں میدان، صحرا،ہواؤں اور برفانی پہاڑوں پر اپنی صلاحتیوں کو ثابت کر کے نمبر ون فوج اور نمبر ون جرنیل کا اعزاز حاصل کیا ہے . یہ کوئی میری خوش فہمی یا من گھڑت کہانی نہیں ہے . ہمارے ہاں بھی فوج میں بھی کرپشن موجود ہے . لیکن فوج کے چار افسروں کے چوری اور کرپشن کو ہم لاکھوں جوانوں کی بے مثال خدمات اور قربانیوں پر فوقیت نہیں دے سکتے . ہاں ان سب کا کورٹ مارشل ہوتا بھی ہے اور ہونا بھی چاہیئے . کچھ لوگ جب پاکستانی فوج پر عجیب و غریب قسم کے الزامات لگاتے ہیں وہ اس مثال کو بار باردہراتے ہیں کہ ایک ماہر مصور کی ایک شاہکار پینٹنگ پر یہ لکھا دیکھکر کہ “غلطی نکالیں ” ایک شاندار پینٹنگ شام تک غلطیوں کے نشانات نشاندہی میں چھپ گئی. دوسرے روز جب اس جیسی پینٹنگ” غلطیاں ٹھیک کریں ” لکھ کر رکھی گئی تو تصویر میں کسی کو کوئی غلطی نظر ہی نہ آئی۔
کیونکہ معاملہ اب اسے ٹھیک کرنے کا بھی تھا. تو ایسے تمام لوگوں سے سوال یہ ہے کہ آپ کو قائل کرنے کے لیئے پاکستانی فوج کو دہلی پر حملہ کر کے لعل قلعے پر جھنڈالہرانا چاہیئے؟ یا ماسکو اور واشنگٹن پر چڑھائی کر دینی چاہیئے ؟ یا پھر افغانستان اور ایران کو فتح کرنے کی مہم پر روانہ ہو جا چاہیئے ؟؟؟ رہی بات ڈرونز کی تو یہ ڈرون ہماری جمہوری حکومتوں کی ہی مہربانی اور اجازت سے ہی وہاں چلائے جاتے ہیں جہاں انہیں خود اپنے نام سے چلانے کی ہمت نہیں ہوتی . اس میں فوج کا اختیار کہاں سے شامل کر دیا . حکومت پاکستان اجازت دے تو ڈرون کا مارنا کوئی ناممکنات میں سے تو نہیں۔
ہمارے مقامی لوگ ہی مار گرائیں گے اسے . کئی لوگوں کو افغانیوں سے بڑی ہمدردی ہے . اور وہ انہیں بہادر قوم ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف رہتے ہیں . ان سے ہمارے چند عام فہم سے سوالات ہیں کہ جب افغان اتنے بہادر تھے کہ اکیلے ہی روس کو شکست دے سکتے تھے تو پینتیس لاکھ افغان جو عورتوں کی خریدوفروخت، ہیروئن فروشی، کلاشنکوف اور اغواء برائے تاوان کا کلچر پاکستان میں لیکر پناہ مانگنے آئے تھے . وہ بھاگے کیوں تھے .اور اب واپس کیوں نہیں جارہے۔
تحریر : ممتاز ملک