تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
دنیا میں عموماً دو طرح کی طرز حکومت پائی جاتی ہیں۔ ایک جمہوریت تو دوسری آمریت۔ جمہوریت اکثریت میں قابل قبول سمجھی جاتی ہے برخلاف اس کے آمریت کو عوام رد کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جمہوری کلچر، انتخابات سے کہیں آگے ایک منزل کا نام ہے۔ جمہوری کلچر میں بروقت انتخابات ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک نمائندہ حکومت وجود میں آتی ہے۔
اس حکومت کے تحت سب کچھ پارلیمنٹ سے پوچھ کر ہوتا ہے۔ قانون سازی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ عدلیہ اور صحافت مکمل طور پر آزاد ہوتے ہے۔ کسی کو اپنی بات کہنے سے نہیں روکا جاتا۔ مملکت کا ہر ادارہ مثلاً پولیس سیاسی اثر سے آزاد ہوتا ہے۔ احتساب کا ایسا غیر جانبدارانہ نظام قائم ہوتا ہے، جس کے تحت ہر وقت اور ہر لمحے اقتدار پر فائز لوگوں کے ہر کام کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اربابِ اقتدار سب سے بڑھ کر خود قانون کی پابندی کرتے ہیں، اور اپنے فرائضِ منصبی کی بجاآوری کے علاوہ ان کو کوئی اضافی مراعات حاصل نہیں ہوتیں۔ اگر وہ محسوس کریں کہ رائے عامہ ان کے خلاف ہوچکی ہے، تو نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہیں اور کسی بھی مخالفانہ نتیجے کو قبول کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیتے۔
موجودہ دور میں دنیا کے وہ ممالک جو جمہوریت کو درہم برہم کرکے آمریت کا رخ اختیار کرتے ہیں،ان کے لیے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پرامن طریقے ہی سے قائم ہو، بہرحال پرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی، اور اس امر کی بھی کوئی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے کہ جو لوگ ابتداً آمریت کے سربراہ کار ہوں وہی ہمیشہ اس کے سربراہ کار رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کل بساط الٹ جائے اور آمر خود مامور ہوکر رہ جائیں، بلکہ آمریت کے شکار جائیں۔ لہٰذا تمام لوگوں کو، جمہور کی نمائندگی کرنے والوں کو بھی اور آمریت کی طرف رجحان رکھنے والوں کو بھی اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ آیا وہ آمریت کے ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جو بہرحال اس کے فطری نتائج ہیں؟وہیں دوسری جانب آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی کے ساتھ قائم کی جائے، اس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کردیتا ہے جو اس سے کبھی دور نہیں ہوسکتیں، اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مترتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی۔ وہ خوشامد پسند ہوتی ہے۔ وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔ اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے۔ وہ عام راے اور افکار و نظریات سے غیرمتاثر ہوتی ہے۔
اس میں ردّ و بدل کسی کھلے طریقے سے نہیں بلکہ درباری سازشوں اور جوڑتوڑ سے ہوتا ہے جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دَر وبست پر متصرف ہوتا ہے اور باقی سب بے بس ومحکوم بن کر رہتے ہیں۔ اس کے تحت یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ پوری قومی طاقت دِلی رضا اور ارادے کے ساتھ کسی مقصد کے لیے حرکت میں آسکے۔ اس کا آغاز چاہے کتنی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجامِ کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بیزار ہوکر اس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ مگر خلاصی کے جتنے پرامن راستے ہوتے ہیں وہ انھیں چن چن کر بند کردیتی ہے اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتا ہے جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزلِ خیر پر پہنچنے دیتے ہیں۔لہذا موجودہ حالات میں وہ تمام مقامات قابل توجہ ہیں جہاں جمہوریت بنام آمریت گھر کر چکی ہے۔ایسے حالات میں آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا خود آمریت کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔لہذا چاہیے کہ قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ،پر امن طریقہ سے عوام الناس کے سامنے جمہوری اقدار کو متعارف کیا جائے ساتھ ہی آمریت جہاں اور جس درجہ میں بھی پنتی محسوس ہو اس کے خلاف نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی سعی و جہد کی جائے۔تب ہی ممکن ہے کہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور وہ ادارے جو عدل و انصاف کے فروغ میں غیر جانب دارنہ کردار ادا کرنے کے پابند ہیں،بخوبی اپنی ذمہ داری ادا کر سکیں۔
گفتگو کے پس منظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آمریت کہاں گھر کر چکی ہے اور جمہوریت کہاں باقی ہے۔فی الوقت اس کے دو پیمانے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ایک جہاں جمہور کے ذریعہ حکومت تو تشکیل دی جاتی ہے مگر نظم و نسق کی صورتحال ابتر اور عدل و انصاف کے ادارے جانب دارانہ کردار ادا کرتے ہوں،یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں جمہوریت خطرہ میں ہے۔دوسری طرف مختلف حیثیتوںمیں موجود اقلیتی طبقے کا کھلے عام استحصال ،ظلم و زیادتیاں اور عدل و انصاف کا قتل عام ،کی صورتحال میں کہا جا نا چاہیے کہ گرچہ ظاہر میں جمہوریت ہے لیکن اس ہی کے پس پردہ آمریت گھر کر چکی ہے۔لیکن ان دونوں ہی صورتوں میں عوام کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کو بخوبی پہچانیں۔اور جب ان کو یہ احساس ہو جائے کہ ایک بڑا حق انہیں حاصل ہے تو پھر کسی لالچ، خوف یا محض سیاسی گروہ بندی کی بنیاد پر اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے نہ دیں۔
جمہوریت و آمریت کے فرق اور حکومت کو صحیح رخ پر قائم رکھنے میں عوام کو حاصل حق رائے دہی کے اختیارات کے بعد ملک عزیز ہند کی ایک ریاست کی بات کرتے ہیں۔جہاں گزشتہ چند سالوں سے یکے بعد دیگرے دو پارٹیاں حکومت کرتی آئی ہیں۔ایک بہوجن سماج پارٹی ہے ،جس کی پارٹی سپریمو مایا وتی دلتوں کی مسیحا سمجھی جاتی ہیں۔تو دوسری خود کو سوشلٹ کہنے والے ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی ہے۔فی الوقت ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے۔جس کے موجودہ دور حکومت میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت فسادات سے متاثر رہی ہے،اور یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔وہیں دلتوں کا الزام ہے کہ جب سے سماج وادی پارٹی حکومت میں آئی ہے ،نہ صرف ریاست میں نظم و نسق ابتر ہوا ہے بلکہ دلتوں پر ظلم و زیادتیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔زندہ مثال ریاست اترپردیش کے ضلع ہردوئی کے سلسلے وار دو واقعات ہیں،جس سے دلتوں کا الزام کسی حد تک درست ثابت ہوتا ہے۔پہلا واقعہ ایک تیرہ سالہ دلت بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا ہے۔جس میں درندگی کی تمام حدیں پار کی گئیں۔بچی کے ساتھ پہلے اجتماعی زیادتی ہوئی اور بعد میں نہ صرف اس کی آنکھیں نکال لی گئیں بلکہ قتل بھی کیا گیا۔دوسرا واقعہ ایک چار ماہ کی معصوم دلت بچی کا ہی ہے۔اس معصوم کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی اور قتل کیاگیا۔تیرہ سالہ بچی کا معاملہ اس وقت پیش آیا جب فتیاپوری علاقہ کے مرزا لکتانہ گائوں میں بچی اپنے والد کے لیے دوا لینے گئی تھی۔ غلطی سے دوا وہ دکان پر ہی چھوڑ کر چلی آئی اورجب دوبارہ دوا لینے با زار گئی توواپس نہیں لوٹی۔ کافی انتظار کے بعدگھر والوں نے تلاش شروع کی تو بچی کی لاش ایک کھیت میں ملی۔اس کے جسم پر کپڑے نہیں تھے، منہ میں دوپٹا ٹھونسا گیا تھا، چہرہ چاقوئوں سے بری طرح زخمی تھااور آنکھیں نکلی ہوئی تھیں۔وہیں دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ بچی کے والد رشتہ داری میں گئے تھے اور ماں سو رہی تھی۔ ماں جب نیند سے بیدار ہوئی تو بچی غائب تھی،تلاشی کے بعد معصوم بچی کی لاش ایک کھیت سے دریافت ہوئی جوحد درجہ افسوسناک حالت میں تھی۔
ملک عزیز کے یہ دوواقعات کل نہیں ہیں۔معاملہ یہ ہے کہ نظم و نسق کی ابتری اور ظلم و زیادتیوں کے واقعات ہر دن سامنے آتے ہیں، اس کے باوجود عوام اس بے غیرتی سے ان کو نظر انداز کردیتی ہے،جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ وہ ماحول ہے جس نے انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے۔یہ بانٹنے اور تقسیم کرنے کا عمل کہیںشخص وگروہ کومخصوص پیشہ سے وابستہ کرتا ہے تو کہیں دولت کی غیر جانب دارانہ تقسیم کی بنا پر۔کہیں مخصوص علاقہ سے رشتہ استوار کر کے پہچان بنائی جاتی ہے تو کہیں غیر انسانی وغیر اخلاقی مروجہ ذات پات کے نظام کی بنا پر۔ کہیں حسب و نسب کی بنا پر تو کہیں زبان و رنگ کی بنیادوں پر۔اس سے بھی آگے بڑھیں توافسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ظلم و زیادتیاں اوردکھ دردمخصوص مذہب سے وابستگی کی بنا پر بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔اس پس منظر میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حالات انتہائی بدترین ہیں، اور انہیں بدترین حالات میں آمریت فروغ پاتی ہے۔لہذا وہ افراد و گروہ جو آمریت پسند نہیں کرتے ،جہاں مظلوم کی مدد کریں وہیں ظالم کی بھی ۔ظالم کی مدد ایسے کہ اسے ظلم کرنے سے روک دیا جائے۔
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co