تحریر : پروفیسر مظہر
ہفتے کی رات رگ وپے میںدرد کی لہروںکو جنم دینے والی یہ خبرپہنچی کہ اسلام اورپاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے جنرل (ر) حمیدگُل اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔وہ رات اہلِ وطن پربہت بھاری تھی کہ مسلم اُمہ کے لیے ہمہ وقت تڑپنے ،مچلنے والادِل ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ۔جنرل (ر) حمیدگُل کے خیالات سے تواختلاف کیاجا سکتاہے کہ معصوم عن الخطاکوئی بھی نہیںاورکامل صرف ذات ِ ربی لیکن اُن کی مسلمانیت اورپاکستانیت شک وشبہ سے بالاتر۔ عالمِ اسلام کا وہ سچا سپاہی اللہ کے نظام کے نفاذ کی بات ایسے خوبصورت پیرائے میںکرتا کہ مسلوب الحواس سیکولردانشور تلملاء اٹھتے ۔اِن نام نہاد ”لبرلز” کوشکایت یہ تھی کہ یہ دبنگ جرنیل نظریۂ پاکستان کی تشریح دینِ مبیںکے حوالے سے کیوںکرتاہے حالانکہ ہم نے تویہ ملک ہی لاالہ اللہ کی بنیادپر حاصل کیا اور قائدِاعظم کاخواب بھی اسے ”اسلام کی تجربہ گاہ” بنانے کاہی تھا ۔قائد کایہ خواب تاحال ادھوراہے اورشاید ادھوراہی رہے کہ ہماری نیتوںمیںفتور ہے ۔ہم نے قراردادِمقاصد کوآئین کاحصّہ توبنا دیالیکن چار عشرے گزر چکے ،تاحال عمل مفقودہ۔
اسی بناپر جنرل (ر) حمیدگُل ایسی جمہوریت سے بَدظن تھے جوقراردادِ مقاصدکی پابندتھی نہ ہے ۔معروف لکھاری محترم رؤف طاہر لکھتے ہیں”وہ جمہوریت کوخلافِ اسلام قراردیتے (حالانکہ پاکستانی جمہوریت مغرب کی مادرپدر آزادجمہوریت کے برعکس قراردادِمقاصد کی پابندہے)”۔ بصدادب گزارش ہے کہ محترم بھائی رؤف طاہر ہمیںبھی ”قراردادِمقاصد ”کی تابع جمہوریت کی ہلکی سی جھلک دکھادیں تاکہ ہم بھی اِس ”بی بی جمہوریت” کی زلفِ گر ہ گیرکے اسیرہو سکیں۔ ہماراتو المیہ ہی یہ ہے کہ ہم جوکہتے ہیںوہ کرتے نہیں۔اگرجنرل (ر) حمیدگُل ایسی ”جمہوریت” سے بدظن تھے توایسے غلط بھی نہیںتھے ۔اُن کی توساری زندگی یہی درس دیتے گزری کہ نیابتِ الٰہی میںہی فلاحِ انسانیت مضمرہے۔
اتوارکی صبح سوگوارسی تھی اوربقول ناصرکاظمی یوںمحسوس ہوتاتھا کہ جیسے ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر اداسی بال کھولے سو رہی ہے اسی سوگواراور بوجھل فضاء میں اچانک یہ خبرگونجی کہ اٹک میںکرنل(ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پرخودکش حملہ ہوگیا۔ نیوزچینلز پر پھیلتی خبروںمیں پَل پَل بڑھتی شہادتوںکا ذکرتوہوتا رہالیکن کرنل صاحب کی خیریت کی خبرمفقود۔ پھرایسی خبریںآنے لگیںکہ کرنل صاحب زندہ توہیں لیکن شدید زخمی اور بالآخر یہ بریکنگ نیوزکہ وہ شہیدہو گئے۔ اسم با مسمٰی شجاع خانزادہ کوتو شہیدہونا ہی تھاکہ اُن کامطلوب ومقصودہی شہادت تھا۔ یادآیا کہ بدرکا میدان ،سامنے غالب عددی اکثریت اورحربی سامان سے لیس مشرکینِ مکہ کی فوج ،دوسری طرف بے سروساماں 313 اللہ کے سپاہی۔
ایک صحابی مٹھی میںچندکھجوریں دبائے آقاۖ کی خدمت میںحاضر ہوئے اورعرض کیا”یارسولۖ اللہ! کیاجنت میںاِس سے بہترکھجوریں ملیںگی؟”۔آقاۖ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ”یقیناََ بہت بہتر”۔ تب صحابی نے وہ کھجوریںزمین پرپھینک دیںاور یہ کہتے ہوئے چلے گئے”اب جنت کی کھجوریں ہی کھاؤںگا”۔ وہ میدانِ کارزارمیں دادِشجاعت دیتے ہوئے شہیدہوگئے کیونکہ اُنہیںیاد تھااور اُن کے ایمان کاحصہ بھی کہ شہیدکو مردہ مت کہو ،وہ زندہ ہے اوراپنے رب کے ہاںسے خوراک حاصل کررہا ہے۔ ۔۔پھریاد آیاکہ حضرت خالدبن ولید کی آنکھوںسے وقتِ رحلت آنسو رواںہو گئے ۔اُن کے پاس کھڑے صحابی نے سوال کیا”کیا موت سے ڈرلگتا ہے؟”۔ آپ نے فرمایا”موت سے کیساخوف، میںتواِس لیے رورہا ہوںکہ ساری زندگی دشمن کی صفوںمیں گھُس گھس کرحملے کرتارہا ،پھربھی شہادت نصیب میںنہیں تھی ،طبعی موت مررہا ہوں”۔لاریب شہادت کی سعادت نصیب والوںکے حصے میںہی آتی ہے۔
کالعدم لشکرِ جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میںہلاکت کے بعد کرنل شہیدکو دہشت گردوںکی طرف سے مسلسل قتل کی دھمکیاںمل رہی تھیں۔ خفیہ اداروںکی اطلاعات بھی یہی تھیںکہ ایک مخصوص گروہ کے اُنہیںاُن کی رہائش گاہ (شادی خاں) پرٹارگٹ کرناچاہتا ہے لیکن اُنہوںنے اِس کی مطلق پرواہ نہ کی ۔ایک اخبارنویس نے اُن سے سوال کیاکہ قتل کی دھمکیوںکے باوجود وہ اپنے گرد سکیورٹی حصار کیوںقائم نہیںکرتے؟۔کرنل شہید کاجواب تھاکہ وہ ملک کی خاطرہر قربانی دینے کوتیار ہیںاور اُن کامطمعٔ نظرملک وقوم کی حفاظت ہے ،اپنی نہیں۔ایک سال سے بھی کم عرصے میںکاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی تشکیلِ نَوکرکے کرنل شہیدنے دہشت گردی کے ناسورپر ایسی کاری ضرب لگائی کہ تمام دہشت گردتنظیموں نے مل کراُن کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ سامنے آکر کبھی نہ وارکرنے والے بزدل دشمن کی بزدلانہ کارروائی سے کرنل شجاع خانزادہ توشہید ہوگئے۔
لیکن اُن کاجسدِ خاکی توآج بھی پکارپکار کے کہہ رہا ہے کہ کرو کج جبیں سے سرِ کفن ، میرے دشمنوں کو گماں نہ ہو کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیاوزیرِاعلیٰ پنجاب میاںشہباز شریف صاحب نے بھرائی ہوئی آوازمیں خونِ شہید کی قسم اٹھاکر کہاکہ وہ اُس وقت تک چین سے نہیںبیٹھیں گے جب تک دہشت گردوںکو واصلِ جہنم نہیںکرلیتے۔ ہمیںیقین ہے کہ خادمِ اعلیٰ اپنے اِس عہدکی ضرورپاسداری کریںگے لیکن کرنل شہیدکی کمی توبہرحال محسوس ہوتی ہی رہے گی ۔وہ توباغِ بہشت سے ہنستے مسکراتے یہ پیغام دے چکے کہ
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لیکن اُن کی شہادت کابدلہ ہم پرقرض ہے اورفرض بھی۔
تحریر : پروفیسر مظہر