تحریر: نذر عباس جعفری
آج پھر میرا دل ڈوب رہا ہے میرا ملک لہولہان ہے۔ میرے ملک کا ہر شہری غم کی تصویر بنا پھرتا ہے۔ دہشت گردوں نے میرے پیارے وطن میں جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مین سمجھتا ہوں کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد نظریہ پر رکھی گئی ہے کسی بھی قوم کے لیے نظریے کی حیثیت روح کی سی ہو تی ہے ۔جس سی جذبے پروان چڑھتے ہیں اور ولولوں کوبال دیر ملتے ہیں۔ نظریوں ہی سے منزلوں کا تعین ہوتا ہے اور سفر کے لیے قوت عمل انگڑائی لیتی ہے گویا یہ ایک ایسا محرک ہے جس کے بغیر قومیں فکروعمل کی قوت سے محروم ہوجاتی ہیں اور نشوونما کی صلاحیتیں مرجھا کے رہ جاتی ہیں جب بھی کوئی قوم ایک واضح نصب العین لے کر نکلتی ہے تو وہ دنیا کو اپنے کارناموں سے حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور نئی زمین اور نیا آسماں پیدا کرتے ہیں۔ بات پھر وہی ہے کہ ہمارا ملک بھی دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود پرآیا اور کہا یہ جاتا ہے کہ قوموں کی تقدیر نہ تو ائیرکنڈیشنر دفتروں میں بنتی ہے اور بڑی بڑی فیکٹروں میں بنتی بگڑتی ہے اور نہ ہی وسیع و عریض جاگیروں پر بلکہ قوم کی تقدیر ان ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں بنتی بگڑتی ہے ۔جنہیں ہم سکول کہتے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی جنگ علی گڑھ یونیورسٹی میں لڑی گئی ،بنگلہ دیش کی جنگ راجشاہی یونیورسٹی میں لڑی گئی تھی جہاں ایک زمانے میں اسلامک ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ایک ہندو تھا۔ ہمارے ملک کی زندگی بھی حادثات وواقعات سے عبارت ہے مگر دولت اقتدار اور پر تعیش زندگی کی آرزو کی ڈور میں شامل ہونے سے نا گفتہ بنا دیا گیا ہے۔
ہماری من حیث القوم مفاداتی مفروضات اور متنوع مشاغل نے انہیں اس قدر الجھا رکھا ہے کہ انہیں کسی با ت کا ہوش بھی نہیں ہے ہم کمپیوٹر کی اس سکرین کی مانند ہیں جس پر کئی پروگرام بیک وقت کھل جاتے ہیں اور ان لمحات میں انسان بے بس ہو جاتا ہے اپنی ہر خواہش پر پہرے لگا کر وہ ساکن جھیل کی مانند بن جاتا ہے اور اپنی بے بسی کے آگے وہ اپنی ذات کی ہر ادا کھو دیتا ہے ان ساکن و منتشر خطرناک اور درد ناک لمحات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے ہم اگر ماضی کے اورق الٹائیں تو ان میں قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سی نہیں تقریبا ساری تصویریں ایسی نظر آتی ہیں جو ہمارے سیاسی کلچر کی نا پختگی کی دلیلیں ہیں ۔ہمارے ملک کی بد نصیبی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی آنکھوں میں آنسو اور خواب سلا مت رہیں تو ملک سلا مت رہتا ہے جن آنکھوں میں آنسو اور خواب نہین ہوتے وہ ویران آنکھیں بستیاں تک ویران کر دیا کرتی ہیں۔
قائداعظم کی وفات کے بعد سے اب تک جو آنکھیں ہم پر نگران ہیں ان میں نہ تو آنسووہے ہیں اور یہ ہی ان آنکھوں میں کوئی خواب اب زندہ رہا ہے اور نہ ہی وہ خواب واب ہیں مفادات کا سودا کرنے والی آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے اور اگر ان آنکھوں میںآنسونہیں ہوتے اور اگر ان آنکھوں میں آنسونظر آ بھی جائیں تو سمجھ لیں یہ مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ہاں اگر ماضی کے اورق کو الٹانے کی کوشش کی جاتی تو ہمارا حال یوں نہ ہوتا اور مستقبل بھی یوں بے رخی نہ دکھا رہا ہوتا ہے ہم ماضی کو زراے جھانکتے ہیں 1948ہی ہیں اردو زبان پر مشرقی پاکستان میں فضا نباری گئی ایوب خان تک ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں اتنا عرصہ بھی نہ نکال پاتیں جتینا دودھ کو جھگ لگانے کے بعد دہی بننے تک لگتا ہے کہ غیر مقبول ہو جائیں ایسا کیوں تھا ۔بلکہ اب تک ہی ہے کہ موجورہ حکمران نے بھی فوج کو ہر موقع پر اقتدارسبنھالنے کا موقع دیا۔ لیکن ہماری عظیم افواج پاکستان نے ملکی سلامتی کے لیے موجودہ حکو مت کی نا اہلیوں کے باوجود انہیں موقعے دئیے جا رہے ہیں ایسا کیوں ہے ؟
حکمران طبقہ ہمیشہ استحصالی طبقہ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اگر ملکی سیاست ،معشیت ،عوامی ،قانونی ملکی غرض کسی بھی پہلو پر نظر دوڑائیں تو ہر موڑ اور ہر پہلو پر عوام بیچارے ،ملک دوست ،عوام دوست ،قوم دوست ،اسلام دوست کے نعروں کے علمبردار منا فقین کے سردار اور بیورو کر یسی کے بے تاج بادشاہوں کے شطرنج کے دائو دیکھ کے انگشت بدنداں ہوتے رہے ۔اور پوری قوم اپنی آنکھوں سے ان مفا د پرستوں ،سیاستدانوں اور حکمرانوں کو پتلیوں کی طرح اسلام دشمن ، ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں ناچنے لگتے ہیں ۔اور میں سمجھتا ہوں کے پوری قوم نے بھی بے حسی کی چادراوڑھ لی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گو نجتے دھماکوں ،بہتے لہو ،جلتے ملبوں ابھرتی آہو ں اور بلا ناغہ تبا ہی ،بربا دی کے اسی موسم میں ہر شہر ی غمزدہ ،خوفزدہ اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ملکی سلامتی اور انفرادی جان وما ل کے حوالے سے مایوس و بے یقینی کے بادل پر چڑھتے ان کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں روزگار یا تعلیم کے سلسلے میں گھر لے جانے والوں کی باسلا مت واپسی کی دعا ئیں لبوں پر مچلتی رہتی ہیں۔
ذرا سانحہ پشاور کا سوچیں تو جسم پر سکتہ سا طاری ہو جاتا ہے ۔ذہین مفلوج ہو جا تا ہے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں سوچیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں لفظ بے معنی اور حرف اپنا مفہوم کھو بیٹھتے ہیں شعور عالم لاشعور میں چلا جاتا ہے قلم کی روشنا ئی بے رنگ ہو جاتی ہے ۔ آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو جاتی ہیں ۔اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ عبادت گاہوں کو جانے والوں کو جاں کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ماضی قریب و بعید میں حال ہی میں شکار پور میں کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلا م کے نا م پر حاصل ہو نے والے پاکپتن میں مسجدیں اور امام بارگاہیں محفوظ نہیں نمازی اور عبادت گزار اپنے رب پاک کے حضور جھکتے ہیں تو دہشت گردی کا خوف ان کے ذ ہنوں میں گھس کر انہماک میں خلل ڈال دیتا ہے اور یو ں آٹا، چینی ، بجلی پٹرول کی نا یابی وگرانی کے پہ در پہ بحرانوں سے تو قوم پہلے ہی ادھ موئی تھی اب ان تمام بحرانوں کا باپ سلامتی کا بحران نازل ہر چکا ہے ، لیکن ہماری پوری قوم کی نظر میں اپنی عظیم افواج پاکستان پر لگی ہوئی ہیںکیونکہ ہمیشہ جب بھی کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا تو سیاست دانوں نے ہمشیہ قوم کو ما یوس کیا اور افواج پاکستان نے ہی قوم کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھا جنگ کا موقع ہو یا زلزلے ہو ، سیلاب کی تباہی کاریاں ہوں یا سیاسی انتشار ہو یا پھر دہشت گردی کا آسیب ہو ضرب عضب میں پاکستان کی نظریاتی ،جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر خون کا نظرانہ پیش کر کے ادا کی جا رہی ہے۔
تمام معاشرتی و اخلاقی مسائل اور برائیوں کی بنیاد معاشی عدم و استحکام بنتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس قوم کے افراد ہیں جس کا یہ عمل تاریخ کے چہرے کا غمازہ رہا ہے تاریخ کے حاشیوں پر جو زیبائش ہے وہ ہماری ہی عطا کردہ ہے ہم نے ہمیشہ وقت کی سنگینوں سے ٹکر لی ہے اور نا موافق حا لات ہماری کاویشوں کو اڑن عطا کرتے رہے ۔لہذا دکھ شمار کریں ۔تو ان گنت نکل آئیں گے ہاتھ سے سبنھال جا نے کا اشارہ دیتے ہیں ان حلا ت میں چوکس ہو جانے کی ضرورت ہے ضمیر کو جگا نے کی ضرورت ہے اپنا فرض پہچاننے کی ضرورت ہے آئو اپنے پاکستان کو دیکھو اور فخر محسوس کرو اپنے پیارے وطن کو اپنے دل میں محسوس کرو جس زمیں پر تم چل رہے ہو یہ تمہاری ہے یہ جو تم روٹی کھا رہے ہو یہ اسی زمین نے اگائی ہے یہ اینٹ جس سے تم نے گھر بنایا ہے پاکستان کی مٹی سے بنا ہے اور یہ سب کچھ جو تمہارے پاس ہے یہ پروردگار کے فضل وکرم سے اسی پاکستان کا دیا ہوا ہے۔ اٹھو اپنے ضمیر کو آواز دو اپنی ذمہ داریوں کو پہچانوںاور آپس میں اسطرح اتفاق اتحاد اور محبت سے رہو کہ دشمن تمہارے اندر پھوٹ ڈالنے کی جرات ہی نہ کر سکے اپنے پیارے وطن کے جھنڈے کو سلا م کریں اپنی پاک آرمی کا ساتھ دیں محافظین وطن کے ہاتھ مضبوط کریں اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
تحریر: نذر عباس جعفری