تحریر : کومل سعید
محترم قارئین !ہمارے ملک میں صحت و صفائی کے مسائل نے شروع سے ہی جڑ پکڑ رکھی ہے ۔تمام تر بے وقت تدابیر کے نتیجے میں کئی قیمتی جا نیں زندگی سے ہا تھ د ھو بیٹھتی ہیں ۔خصوصاً پاکستان میں خواتین کی صحت کے مسائل ایسے ہیں جن کیلئے کو ئی ٹھوس بنیادوں پہ اقدامات نہیں کئے جا تے جن کی وجہ سے کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میں خواتین کی شرح اموات مردوں کے مقا بلے میں خطر ناک حد تک بڑ ھ گئی ہے او ر ایک ہیلتھ رپورٹ کے مطا بق افسوس ناک امر یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد زچگی کے مر احل کے دوران مختلف پچیدگیوں کے نتیجے میں موت کا شکار ہو رہی ہیں دیہات میں با لخصوص یہ صورت حال تشو یش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
پچھلے چند سالوں میں ایچ وی آر اور دیگر ہیلتھ پروگراموں کے ذریعے شعور اور آگہی کو کا فی حد تک فروغ ملا ہے اور اب دیہاتوں میں بھی زچگی کے تمام مراحل کیلئے فوری طور پہ شہروں کے بہترین ڈاکٹرز کی جا نب رجوع کیا جا نے لگا ہے جو ایک تسلی بخش فعل ہے مگر جہاں یہ خواتین کی صحت کیلئے ضروری ہے وہاں ڈاکٹرز نے ان مر یضوں کی مجبوری کو اپنی تجوریوں کیلئے بھر پور طریقے سے اورمیری نظر میں نا جا ئز طر یقے سے بھر نا شروع کر دیا ہے ۔ڈاکٹرز،لیڈی ڈاکٹرز قوم کے مسیحا ہیںمگر اب اپنے فرائض کو انجام دینے میں پہلی تر جیح روپے پیسے کو دینے لگے ہیں جس کی و جہ سے ان کے لئے مسیحا کا لقب کم اور (معذرت کے ساتھ)قصائی کا لفظ زیادہ استعمال کیا جا نے لگا ہے۔
میرا آج کا موضوع ڈیلیوری آپریشن کے نام پہ خواتین کو ناکارہ بنانے اور غریبوں کو لوٹنے کے حوالے سے ہے ۔ تلہ گنگ شہر میں یہ ایک گھمبیر مسئلے بلکہ ایک خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے ۔جب کسی کے ہاں کسی امید کا دیا جلا نے لگتا ہے تو عموما دیکھا گیا ہے کہ پہلے مر حلے میں ہی لیڈی ڈاکٹرزدوائوں کے ڈھیرمریضہ کو تھاما دیتی ہیںاور ایک ماہ ،پندرہ دنوں بعد دوبارہ چیک اپ کی تا ریخ د ے کر ہزاروں روپے کمائے جانے کا یہ سلسلہ آخری مرحلے تک جاری رہتا ہے ۔اس دوران مر یضہ کو مسلسل تشو یش میں مبتلا رکھا جا تا ہے کہ کمزوری بہت ہے ،بچے کی نشوونما درست نہیں ہو رہی یا بچے کی پو زیشن ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ مریضہ ہر پندرہ دن بعد چیک اپ کیلئے جاتی ہیں جن سے فیس اور الٹراسائونڈ اور دیگر کئی ٹیسٹ کے نام پہ بھاری بھر کم فیسیںوصول کی جاتیں ہیں۔
ان دوائوں کے چکر وں میں مریضہ صرف سوکھی روٹی پہ گزارہ کر تی ہیں کیو نکہ پھل اور جوس کے سا تھ دیگر ضروری غذائی اور متوزان خوراک کیلئے پیسے پہلے ہی ڈاکٹرز کی جیب کیلئے مختص کر دیئے جا تے ہیں ۔اب ایسی صورت حال میں کمزوری کا ہو نا لا محالا بات ہے ۔یہاں تک تو بات قابل برداشت کہی جا سکتی ہے مگر جب خواتین زچگی کیلئے ہسپتال جا تیں ہیں تو نارمل ڈیلیوری کے بجا ئے فوری طور پہ انہیں آ پر یشن تھیٹر میں لے جا یا جاتا ہے اور مر یضہ کے لو احقین کو کہا جا تا ہے کہ مریضہ کی حالت یا بچے کی حالت ٹھیک نہیں اسلئے فوری طور پہ آ پر یشن کر نا ہو گا ۔ لہذا فوری طور پہ رقم جمع کرائی جا ئے ۔اب اس وقت لواحقین کر یں تو کیا کر یں جن کے پاس دو وقت کی روٹی کیلئے بھی وسائل نہیں وہ پندرہ بیس ہزار کس طرح اور کہاں سے لے کر آ ئیں گے ،مگر وہ لا تے ہیں کیو نکہ ان کے مر یض کی ز ند گی پیسوں سے زیا دہ قیمتی ہے۔
آپر یشن کے بعد تین دن تک ہسپتال میں رہنے دوائوں کے خرچے الگ اور دیگر ضروری اشیاء پہ اٹھنے والے اخراجات کی ایک الگ لسٹ ہے جس کو پورا کر نے میں غریب کنگال ہو جاتا ہے ۔اب یہاں آتے ہیں ڈاکٹر کی مسیحائی کی جا نب کہ جب وہ ایک اچھی بھلی خاتون کو غیر ضروری آپر یشن کے نام پہ محض پیسے بٹورنے کیلئے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔یہ آپر یشن ان کو ز ند گی بھر کیلئے معذور بنا رہا ہے وہی خواتین جو آپر یشن سے پہلے تندرست و توانا گھر بھر کے کام خود سر انجام دیتی تھیں وہ آپر یشن کے بعد ایک ناکارہ بدن میں تبدیل ہو جا تیں ہیں۔اس کا ذمہ دار کو ن ہے ؟؟اور مزیدستم کی بات یہ ہے کہ جب مر یضہ کی حالت خطرے میں پڑتی ہے تو ہا تھ جھاڑ کر کہہ دیا جاتا ہے کہ پنڈی لے جا ئیں ہمارے بس کی با ت نہیں رہی۔
تلہ گنگ میں ہونے والے ایک ایسے واقعہ کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں جس نے دیکھنے والوں اور سننے والوں کے دل دہلا دیئے تھے ۔المد ینہ ہسپتال میں 2013 ء کو 12 ربیع الاول کی شام ایک مر یضہ کو لے لایا جایاگیا جہاں ڈاکٹر سر جن نے 20 منٹ میں ڈیلیوری آپر یشن مکمل کیا اور مریضہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ دو دن بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ پا نچویں دن اچا نک اس مر یضہ کے پیٹ میں شدید تکلیف ہو ئی اور جو نہی مر یضہ بستر سے اٹھی تو اس کے آپر یشن کے ٹا نکے کھل گئے اور پیٹ سے تمام آ نتیں با ہر آ گئیں اس کو فوری طور پہ المد ینہ ہسپتال لے جا یا گیا جہاں اس مر یضہ کی حالت میں نے اپنی آ نکھوں سے دیکھی۔
ڈاکٹر صاحب نے فوری طورپہ لواحقین سے یہ التجاء کی کہ وہ کسی سے ذکر نہ کر یں اور دوبارہ چار گھنٹے کے طویل وقت میں ان کاآپر یشن کیا گیا اور اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ مر یضہ کے گھر والے ناامید ہو چکے تھے مگرخدا نے ان کو زندگی بخش دی مگر وہ ان ٹانکوں کے کھولنے اور دوبارہ آپریشن کے دوران پیدا ہونے والی پچیدگیوں کی بدولت دوبارہ ماں بننے کی صلا حیت کھو بیٹھی ۔یہاں ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹر کی مسیحائی پہ کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ ان کے ہسپتال میں صحت کا یہ معیار تھا کہ دو دن مر یضہ ہسپتال رہی ان کے ٹانکوں پہ مر ہم بھی لگایا جاتا رہا تو کیا یہ چیک نہیں کیا گیا تھا کہ ٹانکے ٹوٹ رہے ہیں ؟؟مگر ان کامعیار پیسہ تھا جوا نہوں نے وصول کر لئے تھے اور مزید مسیحائی یہ کی تھی کہ 16000 روپے پہلے آپریشن اور 16000 دوبارہ آپریشن کے وصول کئے تھے۔
آپ اس واقعہ کو پڑ ھ کر کیا کہیں گے ان مسیحائوں کے بارے میں جنہوں نے محض پیسوں کیلئے ایک زند گی کو دائو پہ لگا یا تھا دوبارہ آپریشن سے زند گی تو مل گئی مگر ہمیشہ کی محرومی اس مر یضہ کا مقدر بنی ۔یہ واقعہ تو آنکھوں دیکھا حال تھا اس کے علاوہ اور نہ جا نے کتنی زند گیاں دائو پہ لگی ہوں گی اور لگ رہی ہیں۔ تلہ گنگ شہر کے ہر کو نے میں پہلے کلینک بنائے گئے اب وہی معمولی سے کمروں پہ مشتمل کلینک کے ڈاکٹرز کروڑوں کی لا گت سے بڑی بڑی ہسپتال بلڈنگز کے مالک بن گئے۔
وہ دراصل غریبوں کی وہ کمائی ہے جس کو جمع کر نے میں غریبوں کے کئی ارمان اور کئی خواہشیں شامل ہو تیں ہیں کتنا عرصہ شامل ہو تا ہے اور خرچ ہوتا بھی ہے تو آپر یشن کے نام پہ۔ خواتین کی قیمتی جانوں کے ساتھ ظلم کو بند کیا جا ئے ان کو ناکارہ بنانے والے آپر یشن اورپیسے بٹورنے کے سلسلے کے خلاف مناسب اقدامات کئے جا ئیں ۔ صرف نا گزیر حالت میں ہی آپر یشن کو تر جیح دی جا ئے ۔ نارمل ڈیلیوری پہلی ترجیح ہو نی چا ہیے کیو نکہ ان مائوں کے صحت مند وجود ہی ہمارے ملک کے صحت مند ہو نے کی ضما نت ہے ۔خدا میری قوم کے مسیحائوں کو ہدایت دے اور ان کی آ نکھوں سے روپے کی چکا چو ند ختم ہو جا ئے۔
تحریر : کومل سعید