تحریر : عقیل خان
پاکستان اس وقت لا تعداد مسائل سے دوچار ہے ہمارے سیاسی قائدین کی نااہلی اور بد عنوانیوں کی وجہ سے ملک دن بدن غربت اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا جا رہا ہے۔الیکشن سے پہلے تمام سیاستدان ملک کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے بلندو بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی ملک تو ترقی کرتا نہیں مگر یہ خود ڈبل کی بجائے ٹرپل ترقی کرجاتے ہیں۔ مجھے زیادہ پیچھے کی طرف جانے کی ضرورت نہیں اگر آپ موجودہ دور میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر وزیرا عظم سے لیکر ایم پی اے تک(خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں) کے سابقہ اور موجودہ اثاثے جات کی جانچ پڑتال کرلیں۔
پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے بجلی کا بحران چلا آرہا ہے اور جس کاحل مستقبل قریب میں دوردور تک نظر نہیں آرہا ۔ مشرف اور زرداری اپنا دور مکمل کرگئے اور میاں صاحب اس وقت اقتدار کا مزا لوٹ رہے ہیںمگر بجلی کا بحران جوں کا توں چلا آرہا ہے ۔ موسم گرما ہو یا موسم سرم بجلی بغیر ٹائم ٹیبل کے مطابق آجارہی ہے۔ جوعوام اس بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوںپر احتجاج کررہے تھے وہ بھی ناامید ہوکر خاموشی سے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ جس وزیراعلیٰ نے مینارپاکستان پر احتجاجی کیمپ لگایا تھا وہ بھی اس وقت اپنی دنیا میں اور اپنے اقتدار میں گم سم ہیں۔ بجلی کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میںبجلی کابہت اہم رول ہوتاہے۔ بجلی کے بغیر ہر کام ادھورا ہے۔
اس بجلی کی عادت نے ہم سب کو ایسا خراب کردیا ہے کہ اب بجلی نہ ہوتو آنکھیں ہونے کے باوجود اندھے ہوتے ہیں۔ ہمارے بزرگ ہمیں اپنے پرانے زمانے کی باتیں بتاتے تھے کہ ہمارے کچے گھر ہوتے تھے اور ہر کمرے اورصحن میں ایک چھوٹا سا خانہ(الماری نما) بنایا ہوتا تھا جس میں ایک ”دیا” (چراغ) رکھا ہوتا تھا جو سرسوں کے تیل جلایا جاتا تھا۔ تو ہم اس وقت کو کتنا ”بیک ورڈ” دور سمجھتے ہیں۔لیکن اب سمجھ آرہی ہے کہ وہ دور اس دور سے بہتر تھا۔ اس چراغ کی روشنی میں لوگ نہ صرف گھر کا کام کرتے تھے بلکہ پڑھائی لکھائی کا کام بھی کرتے تھے۔
ہم سمجھتے تھے کہ ہر آنے والا دور پچھلے دور کی نسبت ہمیں ترقی پر لے جارہا ہے مگر اب ہمیں معلوم ہوا کہ ہر آنے والا وقت ہمیں اپنے بزرگوں کے دور میں لیکر جارہا ہے۔ پچھلے کئی سال سے ہم بجلی کو رو رہے تھے مگر اب دو سال سے گیس بھی خوب عروج پر جاکر عوام کو ذلیل کررہی ہے۔ فیکٹریوں اور سی این جی اسٹیشن کو پہلے ہفتے میں دو دن گیس مل رہی تھی مگر جیسے ہی موسم سرما کا آغاز ہوا اس پر بھی چار ماہ کے لیے پابندی لگا دی ۔ گھریلو صارفین کے لیے لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کردیا گیا۔ پہلے تو ہم لوگ آفس جانے کے لیے کپڑوں کی استری کرنے سے تنگ تھے اور اب ناشتے سے بھی گئے۔ صبح چھ بجے گیس بند ہوتی ہے تو گیارہ بجے آتی ہے ۔ اس دوران بچوں سے لیکر بڑے جنہوں نے آفس یا سکول جانا ہے وہ بھوکے ہی جائیں؟گیس لوڈشیڈنگ کے باعث بازار میں لکڑیوں کے دام ایسے بڑھے کہ رہے اللہ کا نام۔ جو لکڑی چار سو روپے من بیچ رہے تھے انہوں نے بھی آٹھ سوروپے من ریٹ کردیا۔
ابھی لوگ گیس اور بجلی کو رو رہے تھے مگریہ کیا ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے اب پٹرول بھی نایاب ہوگیا ہے۔ اگر کسی پٹرول پمپ پر پٹرول دستیاب بھی ہے تو وہ بھی مہنگے داموں فروخت کررہا ہے اور اس کے لیے بھی اتنی لمبی لائن کہ بس بندہ صبح آکر کھڑا ہوجائے اور شام کو پٹرول لے کر گھر چلا جائے(اگرقسمت میںہوا تو) ۔ جس کو پٹرول مل گیا وہ تو ایسے خوش ہورہا ہے جیسے اس کو الہ دین کا چراغ مل گیا۔لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر فون کرکے پٹرول ملنے کا پوچھ رہے ہیں۔ پٹرول نہ ملنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کم ہوگئی ہے اور جوٹرانسپورٹ روڈ پر ہے وہ منہ مانگا کرایہ وصول کررہے ہیں۔ ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے جب ایک گھر کا سربراہ اپنے گھر کا بجٹ بنا تے ہوئے ہر چیز کو مدنظر رکھتا ہے جبکہ وہ گھر کے کسی فرد پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں دیتا اور پھر وہ اس بجٹ میں اپنا ماہ بآسانی پورا کرلیتا ہے اور ہماری حکومت جب بجٹ بناتی ہے تو وہ بھی ہر چیز کو مدنظر رکھتی ہوگی جبکہ اس کے تو مددگار بھی بہت زیادہ ہیں جن پرکروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں پھر ایسا بحران کیوں آتا ہے؟
اب ملک کے حالات کس طرف گامزن ہیں اس کا جواب کسی کے پاس نہیںکیونکہ کوئی بھی ملک میں ہونے والے واقعات کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہویا آرمی پبلک سکول میں فائرنگ، گیس کی قلت ہویا پٹرول کی ، کوئی نہیں بتا سکتا کہ اتنے بڑے حادثات کی ذمہ داری کس کے سر پر ہے؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے سیاستدانوںکو میڈیا پر آکر تبصرہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ ہمارے وزیرداخلہ صاحب نے پٹرول نہ ملنے پر معذرت کرلی ہے کیا اس معذرت کرنے سے عوام کا مسئلہ حل ہوگیا ہے؟ اگر معذرت سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو پھر ہر کوئی غلطی کرنے کے بعد معذرت کرلے اور پھر سارا مسئلہ ختم۔ خدارا اس عوام کو اس طرح ذلیل و رسوا نہ کروکہ یہ لوگ بس ہر کام میں لائن میں لگے رہیں۔ کوئی بھی یوٹیلٹی بل جمع کرانے جاؤ تب بھی لائن میں، گیس لینی ہو تب بھی لائن میں اوراب پٹرول کے لیے بھی لائن میں لگے رہو۔ کیا عوام کے پاس لائن میں لگنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں؟ بجلی ،گیس، پٹرول ، بیروزگاری اورمہنگائی نے پہلے ہی عوام کی ناک میں دم کررکھا ہے اور اب کتنا امتحان باقی ہے؟
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com