تحریر: اقبال زرقاش
ہم خاکی ہیں اور خاک سے وابستگی سرشت میں شامل ہے زندگی کا حسن خا ک اور زمین سے مستعار ہے شمس و قمر کی رعنائیاں ،ابر وباد کی تر دستیاں لالہ و گل کی لب کشائیاں اور فکر و نظر کی آفاق پیمائیاں اسی خاک سے ابھرتی اور اسی خاک سے اترتی ہیں یہی محور خیرو شر اور مرکز جما ل و کمال ہے یہی خاک ہمار ا مسکن ہے جنت کی بہاروں کے بعد ہماری پناہ گاہ ہے اور اسی وقت سے ہماری کاوشیں اس مٹی کو جنت بنانے کے لیئے وقف ہیں اسی مٹی میں ہماری خاک دفن ہے اسی مٹی سے ہماری خوابوں کی تعبیر یں لالہ گل بن کر پھوٹتی ہیں یہی مٹی ہمار وجود ہے خاک اور زمین کے ساتھ ہمارا تعلق محض “وجودی” نہیں بلکہ قلبی ہے۔
یہ تعلق سنگ وخشت سے نہیں بلکہ کسی نظریے کی بنیادی پر ابھرتا اور کسی محبوب یاد پر استوار ہوتا ہے ، پاکستان کی مٹی ہمیں عزیز ہے یہاں کے ذرے ہمارے لیے دیوتا ہیں کہکشاں کے ستاروں سے کہیں روشن ہیں ، ماہ تاب کی طبا شیری کرنوں سے کہیں زیادہ رخشندہ ہیں یہاں کی فضائیں نگہت افزاء اور یہاں کی ہوائیں مشکبار ہیں صرف اس لیے کہ اس کی بنیاد لا الہ الا اللہ کے اس نظریے پر ہے جو سراپا بہار ہے اور کوئی خزاں بھی جس کے لیے پثرمردگی کیا پیغام نہیں لا سکتی اور جسے اس نظریے سے محبت نہیں وہ محمد ۖ عربی سے تعلق اور وفا کا دعوی بھی نہیں کرسکتا کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اس وطن عزیز کے دیوار و در ہمیں اس لیے پیارے ہیں کہ یہ جیسے بھی ہیں اپنے ہیں اور پھر ان کے حصو ل اور ان کی استواری کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا خاک و خون میں لتھری ہوئی جہد مسلسل کی ایک طویل داستان ہے تاریخ گواہ ہے سینکڑوں روشن و رعنا چہروں کی فصل کٹی تھی تب کہیں جا کر دامن ماہشاب میں چاندی کے پھول کھلے تھے اور جبین شب کے
ظلمتوں میں نور پھیلا تھا
کتنے مہ ونجوم ہوئے نذر شب
اے غم دل، اب تو سحر چاہیے
اور یہ سارا اہتما م اسلام کی اس عظمت کے قیام و دوام کے لیے تھا جس کا اظہار بانی پاکستان نے اگست 1947ء میں گاندھی جی کے نام اپنے ایک مکتوب میں یوں کیا تھا ۔ “قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے اس میں مذہبی اور مجلسی دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی ، غرضیکہ زندگی کے سب شعبوں کے احکامات موجود ہیں مذہبی رسوم سے لیکر روز مرہ کے امور حیات تک ، روح کا نجات سے لیکر جسم کی صحت تک جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک دینوی زندگی میں جز ا اور سزا سے لے کر عقبی کی سزاو جز ا تک ہر فعل و قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے لہذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قو م ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا ماضی روشن بھی ہے اور پثر مردہ بھی کربناک بھی اور جہاد حریت سے لبریز بھی آج سے چار سو سال پیچھے چلے جائیں مغلوں کے زوال سے لے کر سکھوں کے اقتدار تک مسلمانوں کو مٹانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے اور انہیں زندہ اور سرگرم رکھنے کے لیے کن کن نفو س قدسیہ نے کیا کیا کوششیں نہیں کیں اگر یہ کوششیں نہ ہوتیں تو غیروں کی سازشیں ، اپنوں کی نوازشوں سے مل کر تکبیر کی اس آواز کو خاموش کر چکی ہوتیں ۔ سکھوں کے احمقانہ مظالم ، انگریزوں کی حاکمانہ ریشہ دوانیاں، اور ہندوئوں کی مخلفانہ چالیں ، مل جل کر بھی ، مسلمانوں کو نہ دبا سکیں اور نہ غلام رکھ سکیں ، کیونکہ مسلمانوں کے پیش نظر قرآن کا جو ضابطہ تھا وہ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے مگر اس میں مسلمانوں کی غلامانہ زندگی کے لیے کوئی سا تصور بھی نہیں گویا سچا مسلمان کسی حالت میں بھی غلام نہیں رہ سکتا وہ حرف حق کی طرح بلند ، باد صبا کی طرح آزاد اور نوک شمشیر کی طرح بے باک ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اس امانت کو سنبھالنا ، ہمارا کام تھا مگر افسوس کہ ہماری کج فکریوں نے اس وطن عزیز کو بسا اوقات نزع کی ہچکیوں تک پہنچا دیا ہے ہم نے یہاں فرقہ بندی کا بازار گرم کیا مذہب کو اتحاد کی بجائے اختلاف کا ذریعہ بنایا صوبائی تعصبات کو ہوادی ، اسلام کے جذبہ اخوت کی دھجیاں اڑائیں ۔ یہاں تک کہ قائد اعظم کے پاکستان کو دو لخت کردیا ، کاش ہم قائد کے عطا کردہ اصولوں ، اتحاد ، ایمان ، اور تنظیم کو پیش نظر رکھتے تو ہمیں دل کی اس شکستگی کا نظارہ نہ کرنا پڑتا پاکستان نتیجہ تھا قائد اعظم کے عزم مصمم اور یقین کامل کا اور اس کی شکستگی نتیجہ ہے ہماری کمزوری ایمان کا ، ضرورت ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اپنی لغز شوں کا اعتراف کریں اپنے اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں اور اسی بار گاہ سے تائید مانگیں کیونکہ اس کی رحمت کے بغیر ہماری کوئی سی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ ہم اس وطن عزیز کو اسی انداز سے بلند و بالا کرسکتے ہیں کہ اس کے درودیور، شجر حجر آثار یہاں تک ذروں سے بھی ایمان سمجھ کر محبت کریں اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب سے اپنا رابطہ قائم رکھیں اپنی روایات کو ہر لمحہ روبرو رکھیں اور وطن کی مٹی کو ، عقیدت کی پلکوں سے چومتے رہیں کہ اس کی بقا کے ساتھ ہماری بقا وابستہ ہے۔
تحریر: اقبال زرقاش