تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی ملک کے لیے اور بہت سے کارناموں کے ساتھ ساتھ ملک کی واحد اسٹیل ملز بھی ایک کارنامہ ہے۔ امریکہ اور اُس کے پٹھو پاکستانی حکمران جس کی دوستی کی بڑی باتیں کرتے ہیں اُس نے ٦٧ سالہ دوستی میں پاکستان کو انڈسٹریل ملک نہیں بننے دیا۔ پاکستان کوہمیشہ کنزومرز مارکیٹ ہی بنائے رکھا۔ ملک میں کوئی بھی بڑا اندسٹریل منصوبہ لگایا نہ پنپنے نہیں دیا۔
روس کی مدد سے پاکستان اسٹیل مل بنی اور چین کی وجہ سے ملک میں بڑی بڑی صنعتیں لگیں۔ اسٹیل مل اس صنعتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طر ح ہے۔اسٹیل سپلائی ہو گی تو یہ صنعتیں صحیح چلیں گی ۔ اس لیے اسٹیل ملزکی منصوبہ بندی میںاس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ صرف اسٹیل مل ہی نہیں بلکہ اسٹیل کے متعلق پورے صنعت تھی ۔ اس وجہ سے اسٹیل مل اس منصوبہ کے لیے ١٩ ہزار سے مربع ایکٹر سے زائد خطیر رقبہ رکھا گیا تھا۔اس کے ایک چوتھائی رقبہ پر اسٹیل مل کا پلانٹ لگایا گیا تھا اور باقی رقبہ اب بھی اسٹیل مل کے پاس ہے جس میں منصوبے کے مطابق اسٹیل کی صنعتیںلگنی چاہیں تھیںجو اب تک نہیں لگیں۔ اگر اس زمین کی قیمت کے متعلق بات کی جائے تو اس کی مالیت کا اندازہ ایک جرمن پارلیمانی رکن جناب کلاس ورنر جوناس نے ٢٠٠٥ء میں اپنے پاکستان کے دورے کے دوران اسلام آباد میںپریس کانفرنس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اسٹیل مل کی پلانٹ کے علاوہ بقایا زمین ہی اس کے لیے سونے کے برابر ہے۔ نیشنل ہائی وے سے ملحق اسٹیل مل کی زمین کا تخمینہ ٨٠ ارب روپے لگایا گیا تھا۔
پاکستان اسٹیل مل کی قیمتی زمین پر حریصوں کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ڈکٹیٹر مشرف دور میں جب اسے پہلی دفعہ فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو اس کی زمین کی اصل پیمائش دکھائی گئی تھی مگر جب ایک سال بعد اسے دوبارہ فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو ایک ہزار ایکڑ زمین کم دکھائی گئی تھی پتہ نہیں یہ ایک ہزار ایکڑ زمین کہاں گئی۔اُس وقت نج کاری کمیشن کے سربراہ اویس خان لغاری صاحب نے پاکستان اسٹیل مل کے حصص محض٢١ارب٦٨کروڑروپے میںایک کنسورشیم کے حوالے کرنے کی منظوری دی تھی۔ جس پراُس وقت کے اسٹیل مل کے سربراہ (ر) جنرل عبدالقیوم صاحب نے ڈکٹیٹر مشرف کو خط لکھ کر ثابت کیا تھا کہ اِس وقت جتنی مالیت میں اسٹیل مل فروخت کی جارہی ہے اس سے زیادہ اسٹیل مل کا تیار کردہ قابل فروخت مال اور نقد رقم بنکوں میںرکھی ہوئی ہے اور زمین کی مالیت اس کے علاوہ ہے۔جس پر اسے بعد میں اسٹیل ملز سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
اللہ بھلا کرے اُس وقت کے پاکستان سپریم کورٹ کے سربراہ چیف جسٹس جناب چوہدری افتخار صاحب کہ انہوں نے اس فروخت کو نا جائز قرار دیتے ہوئے کنسل کرنے کے آڈر پاس کئے تھے اور اس طرح حکومت میں موجود آئی ایم ایف کے ایجنٹوں کا منصوبہ فیل ہو ا تھا۔ اس فیصلے سے ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ اسٹیل مل کے متعلق عام لوگوں اور ملک کے صحافیوں کو کافی معلومات مل گئیں جو اب اسٹیل مل کی نج کاری کے خلاف اور اس کو بچانے کے لیے کالم پر کالم لکھ رہے ہیں اور حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اسٹیل کا پلانٹ اس کی کل زمین کے ایک چوتھائی یعنی چار ہزار ایکڑپر لگا ہوا تھا۔مگر اب نواز شریف صاحب کے دور کی نجکاری کمیشن کے سربراہ جناب زبیر عمر صاحب کمال مہارت سے پلانٹ کے رقبہ کو ڈبل سے بھی زیادہ یعنی تقریباً دس ہزار پر دکھا رہے ہیں۔نہ جانے یہ رقبہ انہیں کس نے بڑہا چڑہا کر بتایا ہے۔
جب ہم اسٹیل مل کی قیمتی زمین پر تبصرہ کرتے ہیں اس سلسلے میں ایک سال قبل کی تحریک انصاف کے اسد عمر صاحب کی کانفرنس کا ذکر بھی دلچسپ ہے اس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اسٹیل مل کی دو سو ایکڑ زمین صرف پچیس لاکھ روپے فی ایکڑمیںفروخت کر دی گئی۔اس میں نواز شریف صاحب کا بیٹا ملوث ہے اور اس ڈیل کی براہ راست نگرانی وزیر اعظم ہائوس سے کی گئی۔اس سے نظر آتا ہے کہ اسٹیل مل کو نہ صرف پیپلز پارٹی، ڈکٹیٹر مشرف بلکہ نواز شریف سب نے بھی نقصان پہنچایا اور اب بھی پہنچا رہے ہیں۔اس عمل میں آئی ایم ایف جومغرب کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے بھی شامل ہے۔ جب وہ پاکستان کو قرض دیتی ہے تو اسے یہ بات ماننے کے لیے رکھتی ہے کہ فلاں فلاں گورنمنٹ کے ادارے کی نج نجکاری کریں فلاں فلاں سبسڈری ختم کریں اس کے بغیر ہمارا قرض واپس نہیں ہو سکے گا اور اگر آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو آپ کو مزید قرض نہیں ملے گا۔
اس طرح آئی ایم ایف اسلامی ملکوں اور خاص کر ایٹمی اسلامی ملک پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ شایداسی تناظر میں تنکو عبدالرحمان سابق وزیر اعظم ملیشیا نے کہا تھا کہ مغرب جس ملک کا بیڑا غرق کرنا چاہتا ہے اُس کے پیچھے آئی ایم ایف کو لگا دیتا ہے۔ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب قوم کوبڑی نوید سناتے رہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے اتنا قرض مل گیا اتنا مزید ملنے والا ہے۔ ہر حکومت قوم مقروض کرتی جاتی ہے اور ایک دن آئے گا پاکستان خدا نخوستہ دیوالیہ ہو جائے گا اور یہی مغرب کی گریٹ گیم کا ایک حصہ ہے جس پر گزشتہ تیس سالوں سے پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کراچی میںمعیشت کو تباہ کرنے کا عمل ہو رہا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو اس وقت سے بچائے اور حکمرانوں کو اس سود در سود کی لعنت سے باہر نکالے۔
اسٹیل مل کی تباہی کی ایک وجہ اس میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کی بھرتی ہے۔ اسٹیل مل میں سب حکومتوں نے ضرورت سے زیادہ لوگوں کو نوکریاں دیں۔اس میں وفاقی اور سندھ کی حکومتیں شامل رہی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کی حکمران جماعت نے اسٹیل مل میں چار ہزار سے زائد لوگ ملازمت پر رکھے تھے تنخواہ اور مراہات کے بوجھ کے علاوہ سارے کراچی میں قیمتی اسٹیل کی پتنگیں جو ایم کیو ایم کا انتخابی نشان ہے لگا دی گئیں تھیں کسی کی بھی جرأت نہیں تھی کہ اس غلط فعل سے روکا جاتا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں زیادہ لوگوں کو نوکریاں دیں۔ کرپٹ سربراہ لگایا جس نے کرپشن کی حد کر دی جس پر مقدمات قائم ہوئے۔ ان ہی وجوحات کی وجہ سے اسٹیل مل خسارے میں چل رہی ہے کافی مدت سے اسٹیل مل کے ملازمین کو کئی کئی ماہ کی تنخوائیں نہیں مل رہیں۔کبھی بجلی بند کر دی جاتی ہے اور کبھی گیس کا پریئشر کم کر دیا جاتا ہے اور اب گیس بند کرنے کی باتیں ہو رہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب جو قومی اسمبلی میںقائد حزب اختلاف بھی ہیں نے نواز شریف صاحب کو باقائدہ خط تحریر کیا کہ خدا کے لیے گیس کمپنی کو اس عمل سے روکا جائے ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
نواز حکومت اسٹیل مل کی نجکاری کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔نواز حکومت آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اِس نے ہر حالت میں پاکستان کے اس اسٹرے ٹیجک ادارے ،جس سے اسٹیل کی صنعتیں وابستہ ہیں کی نجکاری کرنی ہے ۔ اب چین کی سائنو اسٹیل کمپنی کے وفد نے پاکستان اسٹیل مل کا مطالتی دورہ کیا ہے جو اسے خریدنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے وقتی طور پر نواز حکومت کو کچھ پیسے مل جائیں گے جو آئی ایم ایف کی قسط کے لیے ضروری ہیں۔ کاش نواز شریف صاحب کو اس ملکی ادارے کو بچانے کی فکر ہوتی مگر وہ اس سے بے خبر ہیں اور گہری سازش کا دانستہ یادانستہ حصہ بن رہے ہیں۔ اے کاش کہ کوئی ہے جو اللہ کے لیے پاکستان کے اس واحد اسٹیل کے ادارے کو نجکاری سے بچائے۔
تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)