تحریر: شاہ بانو میر
اپنے ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور ایک حادثہ ہوتا ہے اور ایک غیر ملکی قتل کر دیتا ہے دن دیہاڑے سر عام . پولیس آتی ہے موقعہ واردات سے رنگے ہاتھوں آلہ قتل سمیت اسے گرفتار کہنا نا مناسب ہوگا اسکو لے جایا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک طویل میڈیا بحث چھڑ جاتی ہے . اس سے فلاں جاسوسی کی ڈیوائس ملی فلاں چیز بھی ملی یوں عوام سمجھ لیتے ہیں کہ اس بار مکمل ثبوت موجود ہیں لہذا ہم چمپئین بن ہی جائیں گے دوسری جانب کانٹینینٹل فوڈ اس کیلئے منگوائے جاتے ہیں منرل واٹر فراہم کیا جاتا ہے اور وہ پاکستانی پولیس جس کو دیکھ کر اہل وطن تھر تھر کانپ اٹھتے ہیں وہ ان سے یوں بات کرتا ہے جیسے ملازمت اسی نے دی ہو اس شخص کے چہرے پے مکمل سکون ہے .
کسی قسم کی کوئی پریشانی تلاش کرنے میں کلوز اپ کی پکس بھی ناکام رہیں . اور پھر وہ راتوں رات امراء کے کالے دھن کو قصاص دیت کے نام پر استعمال کر کے حکام بالا کے محفوظ نرغے میں اطمینان سے چلتا ہوا بغیر سفری دستاویزات کے اڑ کر پریوں کے دیس اپنے وطن پہنچ جاتا ہے اور کچھ مہینوں بعد شراب کے نشے میں دھت کار چلانے کے الزام میں سزا پاتا ہے .
مندرجہ بالا جس ملک میں یہ واقعہ رونما ہوا وہ کوئی اور نہیں اسلامی مملکت پاکستان ہے پیارا پاکستان آج ساڑھے چار سال بعد گورنرپنجاب سلیمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو رہائی ملی اب حکومت نواز میڈیا مسلسل کہ رہا ہے کہ ضرب عضب کی شاندار کامیابی کے نتیجے میں یہ معرکہ سر ہوا ہے . دوسری جانب کہیں سے صدا اٹھتی ہے کہ اغواء کار اسے خود کسی ہوٹل کے عقب میں چھوڑ کر روپوش ہو گئے .
پوری دنیا اس وقت گلوبل ویلج سمجھی جاتی ہے اور یہ شوشہ اسی لئے چھوڑا گیا کہ ان کے پاس تو دنیا کے وہ تمام خطے ان کے ڈیزائین کئے ہوئے نظام کے تحت ان کی سوچ کے عین مطابق چل رہے ہیں ہم جیسے کچھ سر پھرے ہیں جن سے ان کا الگ تشخص اور شناخت بہت سست روی سے چھیننے کیلئے نہ گولی کی ضرورت نہ بارود کی میڈیا کے توسط سے اس قدر رنگین ہنگامہ خیز برق رفتار کامیاب پر آسائش دنیا دکھائی جائے کہ جو جو دیکھے وہ بس اسی کی خواہش کر کے اپنے دین اپنے قرآن اپنے نظریے کو فراموش کر دے لہٍذا آج ہم اسی میڈیا کی کامیاب جنگ کو جاری دیکھ رہے ہیں . قومی سطح سے ترقی کیلئے ہر تشہیری ادارہ بین القوامی اداروں تک رسائی کسی بھی طرح سے چاہتا ہے اسی لئے تو آج سامنے اردو زبان ہے اور در پردہ کسی اور کی زبان انداز عمل دیکھے جا سکتے ہیں .
ٹی وی چینلز جس قدر تیزی سے ہر خبر کو بریک کرتے ہیں حیرت ہوتی ہے کہاں ممکن تھا ایسا نظام 30 سال قبل افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ عام باتوں میں تضاد کو ہم ریٹنگ کا یا ادارے کی ذاتی پسند نا پسند کہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں مگر اہم معاملات پے یہ چینلز کا تضاد بین القوامی طور پے ہماری کارکردگی پے تنقیدی تضحیکی انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے . پاک فوج کی لازوال بے مثال جری جوانوں کی قربانیوں کو ایک چینل بالکل مسترد کر دے کیا یہ سوالیہ نشان نہیں ؟ کیا شہباز تاثیر کی واپسی کو مکمل معلومات کے بعد ایک سوچ ایک انداز سے منظر عام پے لانے کی ضرورت نہیں تھی؟ تا کہ پاک فوج کا شاندار تاثر ابھرتا ؟ فٹ بال کھیلتے وہ سر اسی پاک فوج کے جوانوں کے تھے . بے دھڑ پک اپ سے گرائے جانے والے وہ دھڑ سبزی کی طرح لب سڑک جس عامیانہ انداز میں پھینکے گئے وہ ناقابل برداشت مناظر تھے . پاک فوج کی عزت احترام اور اس کا بہترین تاثر ہر ریٹنگ ہرمصنوعی کامیابی سے کہیں بڑھ کر ہے. وہ جو اپنا آنیوالا کل ہمارے آج کیلئے قربان کر گئے انہیں یوں متنازعہ نہیں بنایا جا سکتا. سوچنا ہوگا؟
تحریر : شاہ بانو میر