counter easy hit

ادھورا عشق

جب دو مختلف نظریات مدمقابل ہوں تو ٹکرائو ایک فطرتی عمل ہے۔ معزز معاشروں میں سوچ کے اختلاف کو دلیل سے منوانے کا رواج رہا ہے۔ آج بھی معزز دنیا میں دو مختلف الخیال طبقات جب اپنے نظریات کی بنیاد پر مدمقابل آتے ہیں تو وہ گفت و شنید اور دلائل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس انتہاء کو پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی دلیل سے بات کر رہا ہو تو اس کو جواب گالی میں دینا زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل انتہائی غیرمہذب ہے جس نے ہمارے دل و دماغ کو نفرت، تعصب اور خودغرضی سے بھر رکھا ہے۔

وہ مسائل جو خوش اسلوبی سے علمی انداز میں حل ہو سکتے ہیں، ہم انہیں جنگ و جدل تک کھینچ کر لے جاتے ہیں اور پھر ایک طوفان بدتمیزی اٹھتا ہے۔ ہر شخص پھر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔

پاکستان جیسا ملک جس کی بنیاد ایک نظریہ بنا اور جو اپنی ایک تہذیب اور ثقافتی ورثہ بھی رکھتا ہے، اسلامی معاشرہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس معاشرے میں اس قدر تنگ نظری تعصب اور شدت پسندی کا پایا جانا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے جس طرح الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر ایک فیملی اختلاف کو جس انداز میں پیش کیا جارہا ہے، جس طرح عورت کا تقدس مجروع کیا جا رہا ہے، یہ ہمارے ایک اسلامی معاشرے کے شایان شاں نہیں ہے۔

دو سابق میاں بیوی کی لڑائی کو جس طرح ایک قوم کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا اور پھر ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی طرف سے جس طرح کا ہیجان انگیز ردعمل سامنے آیا، اس سے سوائے شرمندگی اور ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

کل تک جس خاتون کو مادرِ تحریک کہا جاتا رہا، آج اسی خاتون کو بازارِ حسن کی ان طوائفوں سے بھی بد تر القابات دیئے جا رہے ہیں اور اس کی ایسی ایسی تصاویر وائرل کی جا رہی ہیں کہ الامان الحفیظ۔

یہ بھی خیال نہیں رکھا جا رہا کہ جس خاتون کی کردار کشی میں حدوں کو پار کیا جا رہا ہے۔ وہ خاتون ہمارے لیڈر کی سابقہ منکوحہ ہے۔

اگر اس خاتون میں وہ سب عیب تھے جو آج سوشل میڈیا پہ وائرل کر کے ایک قوم ایک دھرتی کی بیٹی کو یوں دنیا کے سامنے رسوا کیا جا رہا ہے تو اس شخص کے متعلق کیا کہا جائے گا جس نے یہ سب کچھ دیکھنے سننے کے باوجود اس خاتون سے نکاح کیا۔

کل جب رسمِ نکاح ادا ہوئی سب ٹھیک تھا۔ آج جدائی پر اس کے وہ عیب جو اس کی ذاتی زندگی کا حصہ تھے، انہیں کیوں اچھالا جا رہا ہے؟ اس لئے کہ اس خاتون نے ایک کتاب لکھنے کا عندیہ دیا؟ کچھ رازوں سے پردہ اٹھانے کی بات کی؟ ابھی کتاب مارکیٹ میں آئی نہیں اور اس پر اتنی شدت کا مظاہرہ۔۔ اس کا کیا مطلب لیا جائے؟

اگر اس کتاب میں از اول تا آخر جھوٹ ہی جھوٹ ہے تو پھر پریشانی کیسی؟ کیوں اس عورت کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے؟ اگر آپ مطمعن ہیں کہ جو الزامات کتاب میں لگائے گئے وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں تو پھر اس انتہاء کی گالم گلوچ کا مقصد کیا ہے؟

اپنی اسلامی روایات اپنی ملی تہذیب و اخلاقیات کے خلاف اتنا شدید رویہ کیوں اپنایا جا رہا ہے؟ اگر کتاب لکھنے والی نے غلط کیا تو ایک ایسی جماعت جو مستقبل میں حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے اس کی طرف سے دیئے جانے والے ردعمل کو کیسے درست مان لیا جائے؟

نظریہ کے اختلافات ذاتی عناد میں بدلنے کی یہ روش ہر دو طرف سے قابل مذمت ہے۔

اگر موصوفہ کے پیچھے کچھ سیاسی ہاتھ ہیں جنہوں نے موصوفہ کو کتاب لکھنے پر مجبور کیا تو وہ کردار بھی سیاسی ہی ہیں اور جن کے خلاف کتاب لکھی گئی وہ بھی سیاسی۔ پھر اس سیاسی و نظریاتی جنگ کو تمام تر اخلاقی دائروں سے نکالنے والے یہ دونوں گروہ اپنی قوم کے ساتھ کتنے مخلص ہیں، اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ آج ان دونوں طبقات کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی ہو رہی ہے۔

دنیا بھر میں ریحام، عمران اور پاکستان کی بات ہو رہی ہے اور پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر بدترین زبان کا استعمال ہو رہا ہے۔