اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جمہوریت کا لفظ پہلی مرتبہ 507 قبل مسیح میں قدیم یونان کے شہر ایتھنز میں استعمال ہوا۔ اس جمہوریت کا بانی کلیستھینز تھا۔ یہ براہ راست جمہوریت تھی یعنی اس نظامِ جمہوریت میں عوام ہی قانون دان تھے اور عوام براہ راست سرکاری عہدیداروں اور ججوں کا انتخاب کرتے تھے۔ عورتوں، 20 سال سے کم عمر بچوں، غلاموں اور غیر ملکیوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل نہیں تھا۔ یہ جمہوریت کی کمزور ترین شکل تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، جمہوری نظام میں بھی جدت آتی گئی اور ووٹنگ کا نظام بھی پہلے سے زیادہ صاف اور شفاف ہوتا گیا۔
لیکن جدید دور کے مسائل بھی جدید ہی ہوتے ہیں۔
پہلے پہل الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کو تبدیل کرنا، جعلی ووٹ ڈلوانا، ووٹ چوری کرنا جیسے معاملات زیر غور رہتے تھے اور ایسا کرنے کے عمل کو انتخابات میں دھاندلی (الیکشن رِگنگ) کہا جاتا تھا۔ پھر نئی دنیا میں ایک نئی اصطلاح استعمال ہوئی ’’پری پول رِگنگ‘‘ یعنی الیکشن سے پہلے دھاندلی کرنا۔ اس میں الیکشن کروانے والے عملے کو ساتھ ملانا اور اپنی مرضی کے حلقے میں عوام کے ووٹ بنوانا اور الیکشن سے پہلے ہی بیلٹ باکسز میں ووٹ ڈال دینا جیسے اقدامات شامل تھے۔ اس طرح کی رِگنگ کو روکنے کےلیے باقاعدہ سزائیں متعین کی گئیں اور انہیں قانون کا حصہ بھی بنا دیا گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں اس تمام پری پول رِگنگ میں ایک نئی قسم کی رِگنگ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اس رِگنگ کو ایجاد کرنے کا سہرا پاکستان کے سر جاتا ہے۔ اس رِگنگ کا نام ہے عدالتی پری پول رِگنگ۔ آئیے عدالتی پری پول رِگنگ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے دس سال سے جمہوری نظام تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2013 میں کسی جمہوری سیاسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اب 2018 میں ن لیگ نے اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کیے ہیں۔ گو کہ جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن الیکشن والے سال میں برسراقتدار پارٹیوں کے وزیراعظم کو عدالتوں کے ذریعے نااہل کرنے اور اپوزیشن جماعت کے کاموں کی تعریف کرنے کی روایت بھی قائم ہوئی ہے جس کا براہ راست اثر الیکشن پر پڑتا ہے اور برسراقتدار پارٹی الیکشن ہار جاتی ہے۔ الیکشن سے چند ماہ پہلے برسراقتدار پارٹیوں کی عدالتوں کے ذریعے کردار کشی اور اپوزیشن پارٹیوں کی حوصلہ افزائی پری پول رِگنگ کی جدید شکل ہے اور پوری دنیا میں شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جو عدالتی پری پول رِگنگ کا شکار ہوا ہے۔
پاکستان میں عدالتیں کس طرح پری پول رِگنگ کا حصہ بن رہی ہیں؟ اس کی تازہ مثال الیکشن سے پچیس دن پہلے چیف جسٹس پاکستان کا شیخ رشید کے ہمراہ راولپنڈی زچہ بچہ اسپتال کا دورہ ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے یکم جولائی 2018 کو شیخ رشید کے شروع کیے ہوئے نامکمل منصوبے راولپنڈی زچہ بچہ اسپتال کا دورہ کیا جس کے موقع پر شیخ رشید، چیف جسٹس کے ہمراہ تھے۔ شیخ صاحب انتہائی سنجیدگی اور پھرتیوں کے ساتھ چیف جسٹس صاحب کو اسپتال کے بارے میں بتاتے رہے اورچیف صاحب بھی انتہائی سنجیدگی سے ان کی باتوں پر رسپانس دیتے رہے۔ چیف جسٹس صاحب نے سائٹ پرہی حکم دیا کہ اسپتال کا کام جلد مکمل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے یقین دلایا کہ اسپتال کےلیے فنڈز فوری جاری کیے جائیں گے اور عدالت اس معاملے پر ہر طرح سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پوری دنیا کی عدالتی تاریخ کی یہ واحد اور انوکھی مثال ہے۔
آپ چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس دورے کو سامنے رکھیے اور غور کیجیے کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل ایک سیاسی امیدوار کے ساتھ جاکر اس کے اسپتال کا دورہ کرنا کیا چیف جسٹس صاحب کو زیب دیتا ہے؟ چیف جسٹس صاحب کے جانے سے کیا حلقے کے عوام یہ تاثر نہیں لیں گے کہ جج صاحب شیخ رشید کو سپورٹ کررہے ہیں؟ شیخ رشید کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے سے کیا چیف جسٹس صاحب نیوٹرل دکھائی دے سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس صاحب نے اسپتال کی تعمیر کا حکم دے کر بہت اچھا کیا ہے۔ اس فیصلے سے یقیناً عوام کو بہت فائدہ ہوگا اور جو لوگ اس اسپتال سے مستفید ہوں گے وہ چیف جسٹس صاحب کو ہمیشہ دعائیں دیں گے۔ لیکن اچھا کام کرنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔ ہر اچھا کام کسی بھی وقت نہیں کیا جاسکتا۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے نیک اور اچھے اعمال سے مستفید ہونے کےلیے انہیں مقرر کیے گے اوقات پر ادا کرنا ضروری ہے ورنہ چاہے آپ کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو، آپ ان نیک اعمال کا ثواب نہیں کما سکتے بلکہ غلط اوقات میں یہ اعمال ادا کرنے سے گناہ کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے بلاشبہ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن یہ کام کرنے کےلیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ جو کام چیف جسٹس نے الیکشن سے پچیس دن قبل کیا ہے، وہی کام الیکشن کے فوری بعد چھبیس یا ستائیس جولائی کو بھی ہوسکتا تھا۔ جہاں یہ اسپتال دس سال سے التوا کا شکار ہے وہاں پچیس دن مزید تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں چیف جسٹس صاحب کی نیت پر شک نہیں کر رہا لیکن اگر چیف جسٹس صاحب قسمیں کھا کر بھی عوام کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ میرا مقصد شیخ رشید کو سپورٹ کرنا نہیں تھا تو عوام اسے سچ نہیں مانیں گے۔ کیونکہ، انجانے میں ہی سہی لیکن، چیف صاحب کے جانے سے شیخ رشید کو عوام کی سپورٹ تو حاصل ہوگئی ہے اور سیاسی حلقوں میں یہ پیغام بھی پہنچ گیا ہے کہ ملک پاکستان کی سب سے بڑی اور طاقتور عدالت کا چیف، شیخ رشید کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ کسی دن فرصت کے لمحات میں وہ خود اپنا احتساب کریں اور خود سے سوال کریں کہ جو وہ کررہے ہیں، کیا وہ پری پول رِگنگ ہے یا نہیں؟ آپ خود سے پوچھیے کہ کیا آپ کو شیخ رشید کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے تھا؟ آپ جائزہ لیجیے کہ کیا آپ نے جانے انجانے میں شیخ رشید کی الیکشن مہم میں جان نہیں ڈالی؟ مجھے یقین ہے کہ آپ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ آپ عدالتی پری پول رِگنگ کا حصہ بنے ہیں؛ اور جس دن آپ خود کو قصوروار ٹھہرانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس دن خود کو سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سامنے پیش کردیجیے اور عدالت جو سزا دے اسے قبول کیجیے۔ میرا ایمان ہے کہ جس دن آپ نے یہ کام کردیا، وہ دن پاکستان میں عدالتی پری پول رِگنگ کا آخری دن ہوگا اور پاکستانی عوام آخری سانس تک آپ کا یہ احسان نہیں بھولیں گے۔ لیکن اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو پاکستانی عوام آپ کو عدالتی پری پول رِگنگ کے موجد کے طور پر یاد رکھیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں آپ کا نام لینا بھی پسند نہیں کریں گی۔