پاکستان کے عدالتی نظام کی کارکردگی پر بحث ہوتی ہے۔ مقدمات کی طوالت پر بحث ہوتی ہے۔ بار اور بنچ کے درمیان تعلقات پر بحث ہوتی ہے۔ وکلا کی ہڑتالوں کے جواز پر بحث ہو تی ہے۔ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ پر بحث ہوتی ہے۔ عدلیہ کے اندر احتساب کے نظام پر بھی سوالات موجود ہیں۔ ایک عموی رائے موجود ہے کہ انصاف میں تاخیر پاکستان کے عدالتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عام آدمی کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس عدالتی نظام کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ انصاف کا واحد نظام عدالتی نظام ہی ہے۔ ہمیں اسی کو بہتر کرنا ہے، اس کے متبادل پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں وکلا کی ہڑتال اب کوئی خبر نہیں رہی ہے۔ وکلا اکثر ہڑتال کرتے رہتے ہیںاور اپنی ہڑتال کی طاقت سے عدالتی نظام کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ لیکن آجکل پنجاب کی عدالتوں میں وکلا نے نہیں ماتحت عدلیہ کے ججز نے ہڑتال کی ہوئی ہے۔ جڑانوالہ میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران وکیل موصوف نے غصہ میں آکر سنیئر سول جج خالد محمود کے سر پر کرسی دے ماری جس سے جج صاحب کا سر پھٹ گیا اور ان کے سر سے خون نکلنے لگ گیا۔ ان کی خون آلود تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
چلیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل جڑانوالہ ہے۔ وہاں وکالت کا کوئی اتنا اچھا اور بڑا معیار نہیں ہے۔ لیکن چند دن قبل اسلام آباد میں اسلام آباد کے صدر اور خاتون جج شائستہ کنڈی کے درمیان مقدمہ کی سماعت کے دوران تلخ کلامی ہوگئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی اس کے بعد اسلام آباد کی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے شائستہ کنڈی کی عدالت کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور ان کو فوری تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ اسی طرح لاہور میں بھی ایک وکیل صاحب نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے دوران سماعت تلخ کلامی کی۔ جس کی ویڈیو فوٹیج بھی منظر عام پر آئی۔ اسی طرح چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے ماڈل کورٹس قائم کی گئی ہیں۔ لیکن وکلا کی بڑی اور با اثر تنظیموں کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کوئی بھی وکیل ماڈل کورٹس میں پیش نہیں ہوگااور جو وکیل کسی بھی کیس میں ماڈل کورٹس میں پیش ہوگا، اس کا وکالت کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔
جڑانوالہ کے واقعہ کے بعد ججز نے بھی ہڑتال کر دی اور کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز ہڑتال کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وکلا کی ہڑتال کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ججز نے بھی ہڑتال کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کس حد تک جائز ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہماری جن ججز سے بات ہوئی ہے ان کے خیال میں اس کے سوا فی الحال کوئی اور حل موجود نہیں ہے۔ ہڑتال کا مقابلہ ہڑتال سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اس دلیل میں بھی بہت وزن ہے کہ جب نظام میں زیادتی کو روکنے کا کوئی راستہ موجود ہی نہ ہو تب کیا کیا جائے۔ بار اور بنچ کے درمیان یہ لڑائی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
کیا پاکستان کا عدالتی نظام اس صورتحال میں چل سکتا ہے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ بار اور بنچ مل کر ان مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکتے۔ اگر غور کیا جائے تو ماتحت عدلیہ میں ضمانت اور حکم امتناعی کے معاملات ہی زیادہ تنازعات کا باعث ہیں۔ وکیل بھی وہیں اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں فوری ریلیف کی ضرورت ہو ۔ لیکن آخر اس کا کوئی حل ہونا چاہیے۔ لیکن ایسے کیا یہ سوال جائز ہے کہ بار کے عہدیداران پر پریکٹس کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ انھیں بار سے معقول تنخواہ ملنی چاہیے اور انھیں صرف اور صرف وکلا کی فلاح و بہبود اور عدالتی نظام کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایک تجویز یہ بھی موجود ہے کہ آجکل عدلیہ میں ثالث عدالتوں کا رواج بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ مقامی بار کے صدر کو اس ثالث عدالت کا سربراہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ کسی مقدمہ میں ثالثی سے فیصلہ کروا سکے تو ٹھیک ہے۔ لیکن بار کے عہدیداران کے پریکٹس پر پابندی کے سوا اب مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔
عدالتی نظام کی بہتری کے لیے کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہورہی ہیں۔ نظام کو خراب کرنے والی کالی بھیڑیں بھی نظام کے اندر موجود ہیں۔ ہم جدید کوڈ آف کنڈکٹ بھی بنانے میں نا کام ہو گئے ہیں۔ عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے ایک روڈ میپ دینے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ عدلیہ کی اصلاحات وکلا کو پسند نہیں آتی ہیں۔ جب کہ وکلا ابھی تک انصاف کی تیز فراہمی کا کوئی روڈ میپ دے بھی نہیں سکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم لیکن ایک عموی رائے بن گئی ہے کہ وکلا فوری اور تیز انصاف کے حق میں نہیں ہیں۔
اب جب کہ یہ بھی طے ہوتا جا رہا ہے کہ کوئی بھی عدالتی اصلاحات وکلا کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ کیوں نہیں ایک ایسے جوائنٹ فورم کو تشکیل کی جاتی جہاں وکلا نمایندے اور ججز مل کر عدالتی اصلاحات کے لیے کام کریں۔ وکلا کوبھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ پاکستان کی عدالتوں کا ماحول جس طرف لے کر جا رہے ہیں، وہ ان کے پیشہ کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ اگر عوام کا عدالتی نظام سے اعتماد ہی ختم ہو گیا تو وہ کیا کریں گے۔
بار کو بھی اسٹودنٹس تنظیموں کی طرح نہیں ہوناچاہیے کیونکہ آخر میں تعلیمی اداروں سے اسٹودنٹس تنظیموں کا کردار ہی ختم ہوگیا۔ تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ماتحت عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ ان کی کارکردگی بری ہونے کی وجہ سے آج ان کی عزت بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ان کا وقار مجرو ح ہو رہا ہے۔ اگر وہ بر وقت انصاف کی فراہمی شروع کر دیں۔ دن رات کام شروع کر دیں تو عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔ عوام کسی کو ان کے عزت و وقار میں کمی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ابھی عوام بھی آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔