تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی
کائنات قدرت کے اٹل فیصلے اور اپنی تقسیم ہے جسکی حکمت کو ہم جیسے ناتواں انسان سمجھ ہی نہیں سکتے،رب کے ہاں بلند مرتبے والا کون ہے؟؟ اس کی تعلیمات اسلامی میں مکمل رہنمائی اور احکامات خداوندی موجود ہیں،اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت کا پیمانہ بھی ہر گز یہ نہیں کہ فلاںذات،فلاں جماعت اور فلاں گرو ہ وفلاں قبیلے اور قوم سے تعلق رکھنے والے کو مرتبہ عزت دی جائے گی بلکہ رب کائنات نے واضح فرما دیا ہے کہ متقی اور پرہیز گار ہی اللہ کے ہاں مرتبہ و مقام کے لائق ہونگے۔ قارئین کرام! ہم جس قسم کی زندگی چاہتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں، ہم کس کردار کے حامل ہیں۔ ہماری محنت اور محض سوچ ہی ہمیں کامیابی عطا نہیں کرتیں بلکہ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کون ہیں اور ہماری محنت و لگن کا معیار کیا ہے اور ویسے بھی ہماری سب سے زیادہ اہم عادتیں وہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعے ہم دوسرے لوگوں اور باقی دنیا سے جڑے ہوتے ہیں۔
خالق کائنات نے دنیا میں جس ذی روح کو بیدار کیا اس کا مقدرو نصیب لوح محفوظ پر لکھ دیا،کسی کو معذور پیدا کیا،کسی کو نابینا پیدا کیا اور کسی کو نعمتوں سے سرفراز کر کے اس سے واپس لے لیں اور کسی کو دنیا میں معذور کر دیا،یہ وہ فیصلے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے قبل محفوظ بنایا ہوتا ہے،پھر رب تعالیٰ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کا بندہ کتنا شکرگزار اور پرہیز گار ثابت ہوتا ہے،میں اپنے موضوع کی زیادہ لمبی تمہید نہیں باندھنا چاہتا البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ انسان کی زندگی میں مصیبت ،آفت یا آزمائش کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں کبھی بھی آ سکتی ہے، کئی بار تو اتنی بڑی مصیبت آن پڑتی ہیکہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، بہت سے لوگ ان مصیبتوں سے اتنے پریشان اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ ان کی زندگی سے جوش، امید، ایمان جیسے جذبات غائب ہو جاتے ہیں۔
لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر انسان کے حوصلے بلند ہو اور اس کی قوتِ ارادی مضبوط ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی چھوٹی لگنے لگتی ہے، ایسا ہی ایک نام شنکیاری کے عارف کاشمیری کا بھی ہے ،بصارت سے محروم عارف کاشمیری سے رب تعالیٰ نے دیکھنے کی صلاحیت لی ہے تو اس کے بدلے بے پناہ صلاحیتوں سے بھی نواز دیا ہے،اپنی اسی محرومی کو خاطر میں نہ لانے والے اور ہر وقت سجدہ شکر بجا لانے والے عارف کاشمیری ایک ایسے ہی شخص کا نام ہے جس نے بلند حوصلوں اور مضبوط قوت ارادی سے ایسی ہی ایک ناقابل تصور اور بڑی مصیبت کو شکست دی۔
میری عارف کاشمیری سے چند ہفتے قبل شنکیاری میں ملاقات ہوئی اور میں عارف کاشمیری کیساتھ ہونے والی نشست کے دوران اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، عارف کاشمیری نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے حسین اور رنگین خواب دیکھے تھے، انھیں اس کا یقین بھی تھا کہ وہ اپنی قابلیت کے بل پر اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر ہی لینگے، بصارت سے محروم عارف کاشمیری نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ان کے پاس قلب کی روشنی ہے اور انہوں نے اپنے دل کی روشنی سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پروآن چڑھایا،تعلیم بھی حاصل کی پر انہوں نے ہار نہیں مانی اور آگے بڑھتے رہے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ نابیناپن کو اپنی ترقی میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور یُوں ان کی یہی کامیابی لوگوں کے لیے بڑی مثال بن کر رہ گئی ، لوگ ان کی زندگی سے ترغیب حاصل کرتے ہیں، عارف کاشمیری نے آزمائشوں کیساتھ اس دنیا میں آنکھ کھولی اور بچپن میں ہی وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم رہے اور جب ان کی عمر محض16برس تھی تو اس وقت والدین کا سایہ بھی ان کے سر سے اُٹھ گیا۔
حالات کا مقابلہ کرنے والے عارف کاشمیری نے اردو میں ماسٹر کی ڈگری لیکر آنکھوں والوں کیلئے خود کو بے مثل مثال کے طور پر پیش کر دیا کہ لگن،جستجو اور مستقل مزاجی کامیابی و کامرانی ہے،پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ ضلع مانسہرہ کے جنرل سیکرٹری عارف کاشمیری اسی پلیٹ فارم سے اپنی طرح کے بصارت سے محروم افراد کا گزشتہ6برسوں سے سہارا بنے ہوئے ہیں ،گائیکی میں کمال کا سُر رکھنے والے عارف کاشمیری کی آواز میں وہ جادو ہے کہ میں بھی انہیں سننے بغیر اور سننے کے بعد داد تحسین دیے بغیر نہ رہ سکا اور من چاہتا رہا کہ انہیں ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بار بار سنوں اور ہر بار انہیں داد دوں ان کے فن پر رشک کروںعارف کاشمیری کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1994میں جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے تو اس وقت انہیں غزل سننے کا شوق پید اہوا تھا اور انہوں نے انوپ جلوٹا صاحب کی غزل سنی جس نے ان کے دل کے تار ہلا کے رکھ دیے اور یوں ان کی گائیکی کی اسی پہلی سیڑھی کے دوران ہی انہیں شعرو شاعری سے رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے پہلا شعر اس وقت یہ لکھا کہ،،دل کے ریزوں کو اٹھانے کی ضرورت کیا ہے۔۔۔اب کوئی پیار جتانے کی ضرورت کیا ہے۔
سال2006ء میںپاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ کاقیام ضلع مانسہرہ میں لایا گیا اور سوسائٹی کے دفتر کا قیام شنکیاری میں کیا گیا اور اپنے جذبوں کی صداقت کو اخلاص سے ثابت کیا،دوران نشست عارف کاشمیری نے ایک پوچھے گئے سوال پر بتایا کہ بینائی سے محروم رہ جانے کے باوجود انہوں نے افسوس کرنے کی بجائے زندگی میں کچھ بڑی کامیابی حاصل کرنے کی ٹھان رکھی تھی، نئے خواب سجائے اور انہیں شرمندہ تعبیرکرنے کے لئے محنت سے کام لیا،یہی وجہ ہے کہ عارف کاشمیری نے اپنی محنت ،لگن اور جستجو سے وہ مقام اور مرتبہ حاصل کیا جو کہ شاید اگر وہ خود کو محرومیت کی دلدل میں پھنسا سمجھتے تو ان کی منزل بھی ماسوائے گوشہ نشینی کے کچھ نہ ہوتی مگر انہوں نے محنت اور لگن کو اپنا شعار بنائے رکھا،عارف کاشمیری جیسے ہونہار،باہمت اور باحوصلہ بصارت سے محروم افراد میں بھی ایسے باصلاحیت لوگ موجود ہیں جن کا مقابلہ ملکی و قومیسطح پر کیا جاسکتا ہے،عارف کاشمیری جواںجذبوں کے مالک خوش مزاج انسان تو ہیں ہی مگر ان کے اندر ایک ایسا سنجیدہ انسان کو جھانکنے کا بھی مجھے موقع ملا۔
دواران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس یہ ہوتا ہے کہ ملکی اور صوبائی سطح تو کیا ضلعی سطح پر پر ان جیسے افراد کیساتھ حکومتی تعاون و مدد نہیں کی جا رہی افسوس یہ ہوتا ہے کہ پورے ضلع میں بلائنڈ پیپل کا کوئی سکول نہیں اور پورے ہزارہ میں صرف ایبٹ آباد میں ایک سکول ہے اور اس سکول میں بھی صرف20بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان کی معلومات کے مطابق ضلع مانسہرہ میں 54ایسے بچے ہیں جو سکول جانے کے قابل اور پڑھنے کے لائق ہیں مگر توجہ نہ ہونے اور عدم دلچسپی کے باعث وہ محرومیت سے دوچار ہیں،ایک سوال کے جواب میں عارف کاشمیری کا کہنا تھا کہ ہزارہ یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید سخاوت شاہ صاحب نے اپنے وقت میں 21ڈس ایبل افراد کو مختلف نوکریاں دیںاور اس میں پاکستان بلائنڈ ایسوسی ایشن نے بھی بھرپور کردار ادا کیا انہوں نے بتایا کہ ڈس ایبل افراد کو مختلف شہروں میں ووکیشنل ٹریننگ کیلئے بھیجا جاتا ہے جس میں کمپیوٹر کورسز،ٹیلی فون آپریٹرز،موٹر وائنڈنگ،سیلنگ فین وائنڈنگ اور الیکٹریشن کے کورسز شامل ہوتے ہیں اور یہ کورسز فیصل آباد،کراچی اور راولپنڈی میں ان کی بلائنڈ ایسوسی ایشن کے تحت کروائے جاتے ہیں۔
عارف کاشمیری کا کہنا ہے کہ ایسے کورسز مکمل کروانے کے بعد تربیت یافتہ افراد اپنا روزگار اور کاروبار کے لائق ہو جاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کے ڈونرز میں4نابینا افراد بھی شامل ہیں جن میں ممتاز خان،محمد سعید،سید انور شاہ اور وہ خود ہیں ،علاوہ ازیں فاریض سواتی صاحب،فرح ضیائ،اور احسن اقبال صاحب بھی ان سے دست شفقت رکھتے ہیں،عارف کاشمیری شعراء میں مرزا غالب کو پسند کرتے ہیں،انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ عمل کا بیج بوئو… عادت کی فصل کاٹو، عادت کا بیج بوئو… کردار کی فصل کاٹو، کردار کا بیج بوئو… قسمت کی فصل کاٹو گے۔
انہوں نے کہا کہ انہیںپیار دینے اور ان سے محبت رکھنے والوں کی کمی نہیں اور وہ یہ بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جو لوگ شدید محنت سے، بے تحاشا جدوجہد سے انسانیت کے لیے آگے بڑھتے ہیں انھیں مختلف نام دے کر ان کی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے، سندھی، مہاجر، پٹھان، پنجابی، بلوچ کیا ہم اور ہماری نسلیں ان ہی گورکھ دھندوں میں پھنسی رہیں گی؟ جب کہ رسول پاکۖ کا آخری خطبہ صاف صاف کہتا ہے کہ کسی عجمی کو عربی پر اور کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، نہ کالے کو گورے پر نہ گورے کو کالے پر، تقویٰ ہی اعلیٰ ٹھہرا کہ جو متقی اور پرہیز گار ہے۔
تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی