گزشتہ ہفتہ عرصہ دراز سے ہر روز دکھ سہتے عالم اسلام کیلئے مزید کربناکیاں دکھا کر گزرا۔ مسلم دنیا کے ایک اہم ملک شام میں بشار الاسد کی فوجوں نے اپنے ہی عوام پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا، 100 کے لگ بھگ بچے، عورتیں اور مرد لقمہ اجل بن گئے۔ زہریلی گیسوں سے متاثرہ بچوں کی دل خراش تصویروں نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تو ساتھ ہی امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ اس جرم کی پاداش میں بشار الاسد کے اس ہوائی اڈے کو ٹام ہاک میزائلوں کے ذریعے تباہ کر چکا ہے جس سے یہ حملہ کیا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کو گزشتہ چھ سال سے بشارالاسد کے اپنے عوام پر کئے گئے مظالم پر غیرت نہیں آئی جبکہ بشار الاسد اپنے ہی ملک کی اکثریتی آبادی کو مار مار کر ملک سے نکال چکا اور ملک کو کھنڈر بنا چکا ہے۔
اگر کیمیائی حملے کے بعد کچھ شرم اور غیرت آئی تو وہ بھی ایک ویران اڈے پر میزائل برسانے تک محدود رہی اور بشار الاسد، اس کی افواج اور ان کا مرکز ہمیشہ کی طرح محفوظ رہے۔ یہ امریکہ کی عجیب منافقانہ پالیسی ہے جس سے دنیا ہمیشہ دھوکے کا شکار ہو جاتی ہے۔ حالیہ 20 سال کے عرصہ میں خصوصاً نائن الیون کے بعد مسلمانوں کا جتنا خون امریکہ نے بہایا اور مسلم دنیا میں تباہی مچائی، کیا اس کے بعد بھی امریکہ سے اس بات کی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا ذرہ بھر خیر خواہ ہو سکتا ہے۔ اگر اب بھی کسی کے ذہن میں امریکہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے کہ وہ مسلمانوں کے فائدہ کا کوئی اقدام کر بلکہ سوچ سکتا ہے تو اس کو اپنا ذہنی علاج کروانا چاہئے۔ نصف سے زیادہ شامی عوام ترکی، سعودی عرب اور دیگر ہمسایہ ملکوں اور دنیا بھر میں دھکے کھا رہے ہیں اور سارا جہاں محض تماشا دیکھ رہا ہے۔ شام کے کیمیائی حملے نے دنیا کے لب و لہجہ میں معمولی جھرجھری تو پیدا کی لیکن اس کا بھی کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ اس ہفتے برما سے خبر آئی کہ وہاں کی اصل حکمران آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ ان کے ملک میں مسلمانوں کا کوئی قتل عام نہیں ہورہا بلکہ سوچی نے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہی مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔
یہیں سے خبر آئی کہ برما کی فوج نے ملک کی ایک قدیم اور تاریخی مسجد شہید کردی ہے۔ ساتھ ہی برما سے بھاگتے، لٹتے اور پٹتے مسلمانوں کی خبریں بھی سننے کو ملتی رہیں۔ مقبوضہ کشمیر بھی 70 سال سے بھارت کے بدترین مظالم کی بھٹی میں جھلس رہا ہے اور جہاں اب تک 5 لاکھ سے زائد کشمیری آزادی مانگنے کی پاداش میں قبروں میں جا چکے ہیں۔ بھارتی فورسز نے ایک بار پھر آگ و خون کا کھیل رچاتے، ایک دن میں درجن بھر نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر ڈالا، جبکہ زخمیوں کی تعداد سینکڑوں میں رہی۔ یہ لوگ بھارت کے جعلی و جبری ضمنی الیکشن کے خلاف سراپا احتجاج تھے جن پر ان کی زندگی ہی چھین لی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں 6 جولائی 2016ء کو معروف کشمیری نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد بپا ہونے والی ظلم کی آندھی تھمنے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور بھارت خونریزی سے کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی چاہتا ہے جس میں نامرادہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان تنگ آمد بجنگ آمد کی مثل بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا کر میدان میں اترے ہوئے ہیں اور اگر یہ نوجوان بھارت کی غاصب فوج کو قتل کریں، فوجی کیمپ تباہ کریں تو عالمی طاقتیں بلکہ اقوام متحدہ بھی فوراً مذمت کیلئے متحرک ہو جاتی ہے، لیکن کشمیری جتنے مرضی قتل ہوتے رہیں، اسے اس کی کبھی کوئی پروا نہیں، اس لئے تو اس نے 70 سال پہلے اپنے ہی ایوان میں منظور کردہ کسی قرار داد کو عملی شکل دینے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ البتہ اسی اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے ملک انڈونیشیا اور سوڈان توڑ کر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان بنا دیئے اور انہیں عیسائی ریاستیں قرار دے دیا۔
اسی ہفتے بھارت میں مسلمانوں پر حملوں، قتل اور جلائو گھیرائو کی خبریں بھی دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچتی رہیں کہ کیسے وہاں گائو تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ حالت زار یہ ہے کہ گائے کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں کو بھی چن چن کر مارا جا رہا ہے اور اس پر کہیں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔بھارت کے مسلمان بے بسی کی تصویر بنے ہیں کہ ان جیسا دنیا میں بے دست و پا، مجبور بے سہارا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی ہفتے بھارت میں رام نومی کا تہوار منایا گیا جس میں بھارت کے کئی علاقوں میں ہندوئوں نے اپنے جلوسوں کے ساتھ مساجد پر حملہ کئے اور اپنا مذہبی رنگ مساجد میں پھینک کر انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگتے رہے اور مساجد میں شراب کی بوتلیں تک پھینکیں اور مسلمان زہر کے گھونٹ پی کر یہ سب سہنے پر مجبور رہے۔ اسی ہفتے بھارتی انتہا پسند ہندو رہنمائوں بشمول وشوا ہندو پریشد کے پراوین توگڑیا نے اور سادوی پراچی نے یہ تک کہاکہ انہیں بابری مسجد کی جگہ اگر رام مندر بنانے کیلئے پھانسی بھی لگنا پڑا تووہ ہیں اور وہ مسلمانوں کو نہیں رہنے دیں گے۔
اسی ہفتے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر عراقی کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے اپنے باپ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے حملے اور قتل عام کا سلسلہ جاری رہا۔ فلوجہ شہر کی طرح اب موصل کا بڑا حصہ بھی برباد ہو چکا ہے۔ یہاں کے لاکھوں سنی مسلمان اپنے بچوں عورتوں سمیت صحرائوں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں، بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ یہاں اصل ظلم تو داعش نامی اسی تنظیم نے بپا کیا جس نے ملک کے تمام بھاری سنی اکثریتی علاقوں پر قبضہ جما کر انہیں تباہ کرنے اور کروانے کی انتہائی قبیح و مذموم حرکت کی، کیونکہ سامنے آنے اور لائے جانے کا مقصد ہی یہی تھا۔ براعظم افریقہ خصوصاً صومالیہ وغیرہ سے خبریں آتی رہیں کہ وہاں کے مسلمان بھوک و افلاس سے انتہائی برے حالات سے دوچار ہیں۔ اسرائیل نے بھی فلسطینیوں کے قتل،گرفتاریوں اور مسجد اقصیٰ کی توہین کا سلسلہ جاری رکھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام تر معاملات میں بھی امت مسلمہ جھرجھری تک لیتی دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب نے اگرچہ مسلم امہ کے دفاع کیلئے جنگی اتحاد بنایا تو ہمارے اپنے ہی مسلمان اس کے فعال ہونے یا کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے خلاف طرح طرح کے بیان داغنے اور اسے متنازعہ بنانے میں مصروف ہو گئے حالانکہ ان تمام لوگوں نے آج تک اسلام اور مسلمانوں کیلئے کبھی بیان دینا گوارہ نہیں کیا۔ انہیں جنرل راحیل شریف کی کمانڈ پر اعتراض ہے لیکن ان کی زبان سے مسلمانوں کیلئے کبھی ایک لفظ نہیں نکلتا۔
کیسی درد ناک صورتحال ہے کہ پاکستان میں امت کے درد کو لے کر چلنے والے اور اس حوالے سے عالمی شعور بیدار کرنے کیلئے کوشاں امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید اور ان کے اہم ترین رفقاء کو نظر بند کر دیا گیا، حالانکہ ان کے خلاف کہیں کوئی ایک مقدمہ اور ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ ان کا سارا ریکارڈ صرف اور صرف مسلمانوں کے دفاع اور امت کی خدمت سے عبارت ہے۔ یہی وہ پریشان کن صورتحال ہے جس سے سارا عالم مسلسل رو رہا ہے۔ ان حالات میں ہم مسلم امہ خصوصاً پاکستان کے حکمرانوں اور عوام سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنا کردار ادا کرنے کیلئے آگے بڑھیں۔ جہاں اور جیسے ممکن ہے اسلام کے دفاع کا نعرہ بلند کریں۔ حافظ محمد سعید اور ان جیسے لوگوںکو رہاکریں تاکہ مظلوم مسلمانوں کو آسرا مل سکے۔ مسلم امہ اور حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی یہ داستان یہیں تک محدود رہنے والی نہیں ہے۔ یہ سلسلہ چند سال میں کہیں سے کہیں پہنچ چکا۔ اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لئے اکٹھے ہوں اور ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کریں ،وگرنہ داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔