تحریر : احمد نثار
یہ لوگ بھی عجیب ہیں، کوئی میرے پیچھے پوجنے کے لیے پڑ جاتا ہے تو کوئی کاٹ کھانے کے لیے۔ گویا کہ ان کا خیال ہے کہ پروردگار ان کو دنیا میں مجھے پوجنے کے لیے بھیجا ہے اور انہیں مجھے کاٹ کھانے کے لیے۔ گائے بڑ بڑا رہی تھی۔ میرا گذر ادھر سے ہو رہا تھا۔ ہم لکھنے والوں کی ذات چپ بیٹھنے والی نہیں۔ کہیں بھی کسی سے بھی سوال کر لیتے ہیں۔
اب سوچا کہ اس گائے کو کس نام یا رشتے سے پکاروں؟ ویسے گائے ماتا تو نہیں ہے مگر محترم ضرور ہے۔ صدیوں سے انسان کی خدمت کرتی آرہی ہے۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں قلمی مزدور ہوں۔ کھیت اور کھلیانوں میں بیل مزدوری کرتا ہے، اس مزدوری نسبت سے وہ میرا بھائی ہوا۔ انسان کی اچھی خدمت کرنے والی اس گائے کو بھابھی بنالوں۔ میں نے بات چیت چھیڑ ہی دی۔
میں : گائے بھابھی، میں آپ کو آداب و تسلیم کروں کہ نمشکار یا گُڈ مارننگ؟
گائے بھابھی : کچھ بھی مت کرو۔ ورنہ تمہارے اس طرزِ کلام سے گئو رکھشک اور گئو بکھشک پیچھے پڑیں گے، اور ایسے ڈندے ماریں گے کہ تمہاری ایک بھی ہڈی نہیں ٹوٹے گی، مگر تمہاری ذات نا مکمل ہوجائے گی، اور قانون بھی تمہاری مدد نہیں کر پائے گا۔
میں : (گائے کی یہ حکایت معنی خیز لگی، بڑی سادگی کے ساتھ پوچھا) گائے بھابھی آپ یہ کیا اور کیوں بڑبڑا رہی ہیں؟
گائے بھابھی : کچھ بھی نہیں، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، دورِ موسیٰ کے سامری سے لے کر آج کل کی سرکاریں میرے اور میرے خاندان کے پیچھے پڑ ے ہیں۔ یہ بھول گئے کہ وید کے دور میں مجھے کاٹا جاتا تھا، میری چربی سے یجن (یگن)کیا کرتے تھے۔ انہیں اچانک مجھ سے محبت ہوگئی ہے، اور احترام بھی بامِ عروج پر پہنچ گیا ہے، اور اس کا پارہ پرستش کے آسمان تک کو چھو رہا ہے۔
میں : ذرا سنبھل کر بولیے بھابھی…
گائے بھابھی : (کچھ اور بگڑتے ہوئے) کیا سنبھلوں ؟ اور کیسے سنبھلوں؟ میری تو ہر زاوئے سے رسوائی اور موت ہورہی ہے۔
میں : وہ کیسے؟
گائے بھابھی : کسان کو لے لو، جیسے میرا جنم ہوتا ہے تب سے مجھے ایسا پالتا ہے جیسے اس کے گھر کی رکن ہوں۔ جب میرا بچھڑا ہوتا ہے، وہ مجھے ایسے دیکھتا ہے جیسے اس کے گھر کے لیے راج کمار کو جنم دیا ہے، اگر بچھڑی(شاید نیا لفظ) ہوئی تو یوں سمجھتا ہے جیسے اس کے گھر میں سکوں کی بارش کرنے والی دیوی آگئی ہے۔
میں : یہ تو اچھی بات ہے۔
گائے بھابھی : کیا اچھی بات ہے، کسان کا یہ پیار اور دلار جانتے ہو کب تک رہتا ہے؟
میں : آپ ہی بتائیے۔
گائے بھابھی : جب تک میں گابھ رہتی ہوں اور بچھڑے بچھڑیوں کو جنم دیتی، اور دودھ دیتی رہتی ہوں۔
میں : پھر اس کے بعد…
گائے بھابھی : پھر اس کے بعد کیا؟ کسان یہ پرکھ لیتا ہے کہ اب میری کوئی اولاد نہیں ہونے والی، اور دودھ دینے کی قابلیت ختم ہوگئی، یعنی کہ بانچھ ہوگئی، تو اس احسان فراموش کو میں دیوی کی جگہ راکھشسی نظر آنے لگتی ہوں۔ اور مجھے بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے مجھے جو گھاس ڈالے گا اس کی قیمت برابر اب گوبر تو نہیں دے سکتی۔
میں : اچھا اس کے بعد آپ کو زمین اور فطرت کے حوالے چھوڑ دیتا ہوگا۔
گائے بھابھی : نہیں! یہی تو بری بات ہے۔ بری نہیں بلکہ بہت بری بات۔ مجھے زمین یا قدرت کے حوالے چھوڑ دیتا تو کم از کم ندی نالوں، تالابوں کے کنارے یا جنگل و بیابانوں میں بسیرا کر جی لیتی۔ قدرت میں ملنے والی گھاس کھاکر ندی نالوں کا پانی پی کر پاپنی عمر تو جی لیتی۔
میں : تو کیا ایسا نہیں ہوتا ؟
گائے بھابھی : ایسا معصوم چہرہ بنا رہے ہو جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔
میں : ایسا نہیں بھابھی، میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔
گائے بھابھی : وہ تاک میں رہتا ہے کون گلابی کمپنی مجھے خریدے گی اور میرے اچھے دام دے گی۔ فوراً دلالوں کے ذریعے مجھے بیچ دیتا ہے۔
میں : اس میں سرکار اور پولس آپ کی مدد نہیں کرتی؟
گائے بھابھی : ہماری اتنی نصیب کہاں۔ یہ پولس کل موے میرے بیچنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اگر گلابی کمپنی خریدتی ہے جس کے مالکان بمن یا جین ہوں تو چُپ رہتا ہے۔ اگر مسلمان خریدتا ہے تو اس کو فورً پکڑ لیتا ہے۔ اس کو ستاتا بھی اور اس سے وصولی بھی کرتا ہے۔
میں : تو آپ کو اس بات سے کیا تکلیف، پولس گوس کھانے سے آپ کے گھاس کھانے میں کیا فرق پڑتا ہے۔
گائے بھابھی : مجھے فرق ضرور پڑتا ہے۔ جب یہ لوگ خریداروں کو حراست میں لیتے ہیں، تو ہمیں بھی حراست میں لیتے ہیں۔ لوگوں کو تھانے لے جاتے ہیں خوب مار پیٹ بھی کرتے ہیں اور کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ مگر بدنصیبی توہماری ہی ہے۔ مجھے حراست میں لیتے ہیں، گئو شالائوں میں لے جاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس گئو شالائوں سے تمہاری جیل ہی بہتر، وہاں وقت پر کھانا تو ملتا ہے مار کے ساتھ۔ مگر ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ باندھ کے رکھتے ہیں۔ کھانے کو گھاس نہیں اور پینے کو پانی نہیں۔
میں : یہ تو بہت بری بات ہے۔آپ کے حساب سے آپ کو کیا کرتے تو اچھا تھا یا پھر اچھا ہوتا؟
گائے بھابھی : ہمیں ہمارے حال پے چھوڑ دیتے تو اچھا تھا۔ ہمیں آزاد قدرت میں چھوڑ دیتے تو ہم ادھر اُدھر جنگل و بیابانوں میں آزاد گھومتے، خدا کا دیا ہوا کھاتے پیتے اور اپنی اصلی موت مرتے۔
میں : ویسے شہروں میں تو آپ کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں؟
گائے بھابھی : شہروں میں کھانے کو کیا خاک ملتا ہے؟ کچھ نہ ملنے پر ہم پلاسٹک کھا کر جیتے ہیں اور چند روز ہی میں اس کی کیمیائی اثرات سے فوراً مرجاتے ہیں۔ شہروں میں انسانوں کو ہی نہیں ملتا تو ہمیں کیا ملے گا؟
میں : ویسے آپ کو ذبح کرکے کھانے میں آپ کو کیا دقت ہے؟
گائے بھابھی : تم جانتے بھی ہو کہ کباڑ خانوں میں کس طرح کے جانور لائے جاتے ہیں؟
میں : جانور تو جانور ہیں، اچھے ہی ہوں گے۔
گائے بھابھی : نہیں، لنگڑے، لولے، بیمار، قہت و سالی سے حراساں سوکھے جانور۔ زیادہ کاٹے جاتے ہیں۔
میں : (بات صرف گائے کی کرنی تھی، اس لیے بات کاٹتے ہوئے) ویسے ساٹھ سال سے بھارت کی کئی ریاستوں میں یہ قانون ہے کہ آپ کی ہتیا نہ ہو۔
گائے بھابھی : ہمارے دیش میںجانتے ہو قانون کس لئے ہوتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں؟
میں : اس لیے کہ اُس قانون کی عزت ہو، اور اس کی سختی سے عمل آوری ہو ۔
گائے بھابھی : نہیں، قانون ہوتے ہیں توڑنے کے لیے۔ اسی قانون کی آڑ میں انیمل ہسبنڈری، کارپوریشن اور پولیس کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ارے یہ قانون کے رکھوالے جسم فروش خواتین کا پیسہ ہی نہیں چھوڑتے! اور بڑے فخر سے نوالے توڑتے ہیں۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ مجھے چھوڑیں گے؟
میں : اتنا بھی غصہ مت ہوئیے۔ آج کل نیا قانون آیا ہے۔ آپ ہی کی نہیں بلکہ آپ کے خاندان والوں کی ہتیا بھی نہ کرنے کا فرمان جاری ہوا ہے۔
گائے بھابھی : میاں بدھو! ہمارے دیش میں جتنے قانون اتنے زیادہ کالے دھندے اور دھاندلیوں کے نئے راستے کھلتے ہیں۔ یہاں خدا یا پرمیشور کا خوف کہاں ہے؟ اور دھرم بھی کہاں ہے؟ جہاں یہ دو نہیں وہاں انسانیت کہاںرہے گی؟ لوگ اینٹرٹائنمنٹ (Entertainment)کو دھرم اور دھرم کو اینٹرٹائنمنٹ سمجھ گئے ہیں۔ سمجھے نہیںگئے بلکہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں۔یہ تفریحات کو عقیدہ اور عقیدہ کو تفریح سمجھ بیٹھے ہیں۔
میں : بھابھی آپ تو کافی سمجھدار ہیں۔ اتنی ساری نیک باتیں اور سمجھداری آپ کو کہاں سے ملی؟
گائے بھابھی : ایک دور ایسا بھی گذرا ہے کہ لوگ نیک تھے، ان کی سنگت میں میں نے خود کو ڈھالاتھا۔ لوگ خدمتِ خلق کو عبادت کا حصہ مانتے تھے ۔ میں نے بھی انہیں سے سیکھاہے، اور ایسا ہی کرتی آرہی ہوں، انسانوں کی خدمت۔ دنیا میں آج تک جتنے انسانوں کے بچے آئے ہیں ان میں نوے (٩٠) فیصد بچوں کی میں یا میری بہن بھینس دائی ہوتی آئی ہیں۔ وہ کون طفلِ بنی آدم ہے جس نے میرے دودھ سے اپنی بھوک نہ مٹائی ہو؟
میں : جی بہت اچھے۔
گائے بھابھی : مگر یہ انسان دھیرے دھیرے بدل گیا۔ اس میں تفریقات بڑھ گئے۔ کالے گورے کی تمیز کرنے لگا۔ بھینسوں کو لے لو، ان کا کوئی پوجنے والا نہیں۔اس لئے کہ وہ ذرا بھدی اور کالی ہوتی ہیں۔ جیسے بھارت میں پرانے زمانے سے گورے لوگوں کو دیو اور کالے لوگوں کو راکشس مانتے تھے، ٹھیک اسی طرح ہمارے قبیلے میں مجھے یعنی گائے کو دیوی یا ماتا مانتے ہیں۔ لیکن بھینس کو دیوی یا ماتا نہیں مانا جاتا، یعنی غالباً راکشس مانا جاتا ہے، گویا کہ میں آرین ہوں اور بھینس دراویڈین ہے۔ جہاں بلی چڑھاوے کے منادر ہیں وہاں اسی لئے بھینس کی بلی دی جاتی ہے، میری نہیں۔
میں : (میں نے سوچا کہ کہیں گائے بھابھی کی اس تقریر کو ہیٹ سپیچ (Hate speech) قرار نہ دے دیں۔ اس لئے بات کو کاٹتے ہوئے ) آپ کو تو گئو شالائوں میں خوب کھانے کو ملتا ہوگا؟
گائے بھابھی : کبھی عقیدتمند زائرین آتے ہیںتو عقیدتاً کچھ لاکھلادیتے ہیں کھانے کے لیے، وہ بھی کبھی کبھار آتے ہیں۔ لیکن ہمیں بھوک تو کبھی کبھار نہیں لگتی نا! ہر روز لگتی ہے۔
میں : خیر آپ کا مقام تو بھارت میں بہت اونچا ہے، آپ کو ماتا یا دیوی کی طرح پوجا جاتا ہے۔
گائے بھابھی : (بات کاٹتے ہوئے) میں بتا چکی نا ، صرف اس وقت تک پوجتے ہیں جب تک میں بچھڑے جنتی ہوں اور دودھ دیتی ہوں، وہ بھی صحت مند حالت میں۔ پھر اس کے بعد میری وقعت کم ہوجاتی ہے، اور یہاں تک نوبت آجاتی ہے کہ مجھے پِنک بزنس ہائوز کو فروخت کیا جاتا ہے۔
میں : میرا کہنا یہ تھا کہ آپ کی عزت وید کے دور سے ہوتی آرہی ہے۔
گائے بھابھی : یہ تو آدھا درست ہے۔ وید کال میں لفظ ”گئو” کے معنی کئی نکلتے تھے۔ جس میں ایک نور ہے تو دوسرا میں یعنی گائے۔جیسے ‘گئو وردھن ‘ کے معنی نور کو نچوڑنے کے، اور گووند کے معنی نور والا کے ہیں، یہ اونچی باتیں ہیں، اس نفرت کے دور میں تمہیں سمجھ میں نہیں آئیں گی، پھر سے جھگڑوں میں پڑجائو گے، چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ جھگڑوں کی وجہ میں بنوں، یہ گناہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔
میں : میں نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ کے اندر ٣٣ کروڑ دیوی دیوتارہتے ہیں۔
گائے بھابھی : تم پھر سے ایسی ہی باتیں کرنے لگے؟ چلو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک دور ایسا بھی گذرا ہے کہ میری آبادی کم ہونے جیسی لگ رہی تھی۔ تو چند منچلوں نے ایسا گڑھ دیا کے میرے اندر دیوی دیوتا رہتے ہیں، ایسے تصاویر بھی بنائے گئے جس میں میرے جسم پر دیوی دیوتائوں کی شکلیں بنائی گئیں۔جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔مگر لوگ ایک بات کی مسلسل تکرار کو سچ مان جاتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لوگ اس مکرر بات کو سچ مان بیٹھے۔
میں : لیکن آپ تو کافی فائدہ بخش پالتو جانور ہیں۔ یہ تو مانتی ہیں؟
گائے بھابھی : میرے ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوگا۔ ماننا تو تم کو چاہئے۔ میں صرف کسان ہی کی نہیں بلکہ سب لوگوں کی ایک اچھی دوست ہوں۔ مجھے گھر میں رکھو تو سمجھو کہ آپ کا بیٹا بھی اتنا نہیں کمائے گا آپ کے لیے، میں اتنا کما کر دے سکتی ہوں۔مگر تم ہو کہ تمہیں نہ اس کا صحیح علم ہے نہ ہی پاس۔مسلمان تو زمین سے دور ہوگیا۔ زراعت و کاشت سے دور ہوگیا۔ اس کو نہ گائے معلوم نہ بیل۔ نہ ان کے فوائد کا علم نہ ان کی قدر و منزلت۔ ہم اللہ کی نعمتوں میں سے ہیں، ہم سے فائدہ اٹھائیے۔
میں : ایسا نہیں بھابھی، ہم بھی آپ کی قدر کرتے ہیں۔
گائے بھابھی : (پھر سے برہم ہوکر) کہاں قدر کرتے ہو؟ ایک دور تھا، گائوں دیہاتوں میں یہ بات عام تھی کہ جو بھی گھر مجھے پالا پوسا، سمجھو کہ اس گھر میں برکت ہی برکت ہے۔
دودھ، دہی، گھی، مکھن، چھانچ۔ یہاں تک کہ گھر والے دودھ خود بھی استعمال کرتے اور اس کو بیچ کر اپنے گھریلو ضروریات کو پورا کرتے، یعنی کہ اپنا جینا سنسار چلالیتے۔ میں انہیں گوبر دے کر ان کے کھیتوں کو زرخیز کرتی اور اسی گوبر سے اوپلیوں کی شکل میں چولہوں کا ایندھن فراہم کرتی تھی اور ہوں بھی۔ آج کل کارپوریٹ دور ہے۔ میری قدر و منزلت ہی نہیں۔ مجھ سے دئے جانے والے دودھ کو بھی مشینوں سے دوہتے ہو تم لوگ، اور یہ ناہنجارے یہ تک نہیں جانتے کہ میرے تھنوں سے دودھ کب آرہا ہے اور خون کب؟میں : (متعجب ہو کر) کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟
گائے بھابھی : کبھی غور کیا ہے اس بات پر ؟ غور سے دیکھو، یہ ڈائری والے میرے دودھ میں شامل میرا خون بھی پلارہے ہونگے۔ لیکن سفید دودھ میں تھوڑا سا خون نظر نہیں آئے گا۔ ہوسکتا ہے کہ تم میرا خون بھی پی رہے ہوں اور تمہیں خبر نہ ہو!
میں : آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟ اور آپ ہندئوں اور مسلمانوں کو کیا سندیش یا پیغام دینا چاہتی ہیں؟
گائے بھابھی : میرا سندیش سننے کی حالت میں نہ مسلم ہے نہ ہندو۔ مگر ہاں میں ان سے چند باتیں ضرور پوچھنا چاہتی ہوں۔
میں مسلمانوں سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا میں گائے کھانے کے لیے بھیجا ہے؟ ہندوئوں سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا پرمیشور نے تمہیں دنیا میں میری پوجا کرنے کے لئے بھیجا ہے؟ ضدی نہ بنو، غور سے سوچو، تہماری ضد کے پیچھے کہیں نادانی تو کہیں حسد چھپے نظر آرہے ہیں۔ اس سے باہر نکلو۔ میں ان دونوں کو یہی پیغام دوں گی کہ اگر بننا ہی ہے تو ایک اچھے خدا ترس انسان بنو۔ یہ سمجھو کہ گائے تمہاری ایک اچھی دوست ہے ناکہ صرف تغذیہ اور پرستش کا سامان۔ اگر مجھ سے سچی محبت یا خدا ترسی رکھتے ہو تو مجھے میرے آخری ایام میں آزاد فطرت میں چھوڑ دو، بازاروں میں نہ لائو۔ اور پِنک کمپنیوں کو بند کرو۔ یہ ڈکھوسلا پن چھوڑو کہ مجھ سے محبت ہے۔
میری عزت کرو میں عزت کے قابل ہوں۔
تحریر : احمد نثار
مہاراشٹر، انڈیا
Mobile : 09325811912 / 09175562265
Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in