تحریر : علی عمران شاہین
یہ بھارت کی ریاست ناگالینڈ ہے۔ اس ریاست کا دارلحکومت دیماپور شہر ہے۔یہاں 5 مارچ کے روز ریاست بھرسے 10ہزار سے زائد ہندو اچانک جمع ہوئے۔انہوں نے پہلے بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کے خلاف مظاہرہ کیا اور پھرسب نے اچانک دیماپور کی جیل پر حملہ کر دیا۔ یہ لوگ جب جیل کی جانب بڑھے تو بھارت کا مایہ ناز سکیورٹی ادارہ سی آر پی ایف جو عام پولیس کے ساتھ جیل کی حفاظت پر متعین تھا،ان سب نے حملہ آوروں کا راستہ چھو ڑدیا۔ ہجوم جیل میں داخل ہوا۔ حفاظتی دروازے اکھاڑ پھینکے اور پھرآگے بڑھ کر قیدیوں کی بیرکوں تک پہنچے ۔ بیرکوں کے پاس پہنچ کر انہوں نے اپنے ہدف یعنی وہاں قید ایک مسلم نوجوان قیدی کو لاک اپ توڑ کر باہر نکال لیا۔ باہر نکالتے ہی ان لوگوں نے سب سے پہلے اس نوجوان کے سارے کپڑے پھاڑ کر اسے الف ننگا کر دیا اور پھر… یہ ہزاروں لوگ اسے بری طرح مارتے ہوئے باہر سڑک پر لے آئے۔ اسے رسی سے باندھا اور جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے شہر کی سڑکوں پر دوڑانا شروع کر دیا۔ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اس نوجوان کو وہ سرعام پھانسی دیں گے۔آٹھ کلو میٹر تک دوڑاتے ہوئے یہ ہزاروں لوگ اس دوران میں اسے ڈنڈوں اور پتھروں اور لاتوں، گھونسوں سے مسلسل مارتے رہے تو کئی ایک اس کی تصاویر اور ویڈیو بھی بناتے رہے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ پر بھی اپ لوڈ کرتے رہے۔
مسلم نوجوان جب نڈھال ہو کر گرا تو ہجوم اس پر پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل پڑا اور اسے کچل کچل کر مار ڈالا۔ ان کا غصہ ابھی کم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس کی لاش کو جسم سے بندھی رسیوں کے ساتھ گھسیٹ کر شہر کے چوک میں لائے اور پھر وہیں الٹا لٹکا کرپھر سے مارنا شروع کر دیا۔ یوںجب ان کا غصہ ختم ہوا تو وہ اسے وہیں اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس سارے عرصہ میں پولیس مکمل خاموش رہ کر تماشا دیکھتی رہی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یوں مارے جانے والے اس نوجوان کا نام فرید خان تھا۔ بھارتی پولیس نے اسے ایک بنگلہ دیشی قرار دیا تھا کیونکہ وہ بنگلہ زبان بولتا تھا۔ پولیس نے 26 فروری کو اسے ایک خاتون کی عصمت دری کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس خاتون نے اس نوجوان سے دو لاکھ روپے مانگے تھے ۔انکار پر اس نے عصمت دری کا واویلا کیا۔ فرید خان کی گرفتاری کے بعد اس کے بھائیوں نے مقدمے کی پیروی کی۔ ”متاثرہ خاتون” کا میڈیکل ٹیسٹ کروایا گیا تو ٹیسٹ میں عصمت دری ثابت نہ ہو سکی لیکن فرید خان جو ابھی جیل میں تھا کہ اسے یوں ہندو بلوے کے ذریعے سے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
مسلمان حیران ہیں کہ جیل کی سکیورٹی توڑ کر لاک اپ سے فرید خان کو پہچان کر کیسے نکالا گیا؟ اور یوں اسے مار ڈالا گیا۔ 7مارچ کوریاست کے ایک پولیس افسر نے تسلیم کیا کہ فرید خان تک پہنچنے کیلئے سکیورٹی پر متعین پولیس نے بھی بلوائیوں کی مدد کی تھی لیکن بھارتی مسلمانوں کے قتل کے ہزارہا واقعات کی طرح یہاں بھی پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی کیونکہ متاثرہ فریق مسلمان ہیں۔ فرید خان کی لاش اس کے آبائی علاقے ضلع کریم گنج کے گائوں بوسلا پہنچی تو پتہ چلا کہ فرید خان کے دو بھائی بھارتی مسلح افواج کے سپاہی ہیں۔ 7مارچ ہی کو جنازہ ہوا تو اس میں ہزاروں مسلمان شریک ہوئے تو دوسری طرف ہندوئوں نے دیماپور شہر کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے کر کے ان کی املاک تباہ کرنا اور لوٹنا شروع کر دیں تو پولیس ایک بار پھر تماشائی بنی رہی۔
7مارچ ہی کو جب یہ مظلوم بھارتی مسلمان نوجوان قتل ہو رہا تھا بھارتی شہر حیدرآباد کے بابن صاحب پہاڑی علاقہ میں واقع ہاشمی کالونی میں رات کے 9بجے ہندو بدمعاش جو شراب کے نشے میں مدہوش تھے، راہ چلتے مسلمان میاں بیوی پر پل پڑے۔ شیخ مستان کی حاملہ بیوی کو انہوں نے دھکے دے کر گرایا تو شیخ مستان نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ اسے بھی مارنے لگے۔ قریبی قلعہ مسجد سے امام مسجد مفتی محمد محمود اور موذن سہیل نماز عشاء کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ انہوں نے یہ منظر دیکھ کر بیچ بچائو کرانے کی کوشش کی تو ہندوئوں نے سب کو لاٹھیوں اور لاتوں سے مارنا شروع کر دیا اور شیخ مستان کا ہاتھ بھی توڑ دیا۔ واقعہ کے بعد ہونا کیا تھا؟ یہی کہ مسلمانوں کا رونا دھونا اور وہی ہوا۔ پولیس کسی کو گرفتار کرتی بھی تو کیوں؟ یہی پولیس والے تو دو مارچ کی شب اسی حیدرآباد کے علاقہ بھینسہ میں رات 10بجے عبدالواجد نامی مسلمان کے گھر اچانک داخل ہوئے اور اسے ڈنڈے کی بارش کر کے ادھ موا کیا، گھر میں موجود خواتین چیختی چلاتی ،بیچ بچائو کے لئے آہ زاریاں کرتی رہیں، پولیس کے پائوں پڑتی رہیں لیکن پولیس نے اپنی کارروائی کر کے، یہ جا اور وہ جا… 6مارچ کو دنیا بھر میں ہندوئوں نے ہولی کا وہ تہوار منایا جس میں وہ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ ممبئی شہر کے علاقے اندھیری میں ہندوئوں نے یہ جشن نماز جمعہ میں مصروف مسلمانوں پر انڈے اور پتھر پھینک کر منایا تو ساتھ ہی ہندوئوں نے نماز جمعہ کے لئے جانے والے مسلمانوں پر جگہ جگہ رنگ پھینکا۔ ممبئی میں ایک جگہ مسلم نوجوانوں نے مزاحمت کی تو تین کو چھرے گھونپ کر ان کے خون سے رنگ کر ہولی منائی گئی۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات تو محض ایک ہولی کے دن کی معمولی سی جھلک ہے ورنہ بھارت کون مسلمان اور کیسا مسلمان؟ ان کی جان و مال کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ اسی بھارت میں ان دنوں مسلم قریشی برادری جو پیشے کے لحاظ سے بیشترقصاب ہے، مسلسل ہڑتالیں، مظاہرے اور احتجاج کر رہی ہے کیونکہ بھارت بھر میں اب گایوں کے ذبیحہ کو مکمل طور پرروکنے کے لئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں تو شامت مسلمانوں کی ہی آنی ہوتی ہے۔ ریاست مہاراشٹر نے اسی مارچ کے آغاز پر قانون پاس کیا ہے کہ اب گائے ہی نہیں بلکہ بیل سمیت کسی بھی بڑے جانور کو ذبح نہیں کیا جائے گا اور جو کوئی بڑے جانور کا گوشت کھاتے پکڑا گیا، اسے جیل جانا پڑے گا اوراسے پانچ سال قید کاٹنا پڑے گی یعنی اب بھارتی مسلمانوں کو جیلوں میں دھکیلنے کا ایک اور آسان راستہ نکال لیا گیا ہے جو پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں وہاں گل سڑ رہے ہیں۔
بھارت میں آج کل جس نریندر مودی کی حکومت ہے وہ اس سے قبل ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے والے اسی مودی نے وہاں ایک قانون بنایا تھا کہ ریاست میں دودھ دینے والے کسی بھی جانور کو ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اب وزارت قانون نے دیگر ریاستوں سے رائے مانگی ہے تاکہ صرف گائے کے ذبیحہ کو مکمل طور پر روکنے سے آگے بڑھ کر یہ قانون سارے ملک کے لئے رائج کر دیا جائے۔
بھارت کے 27کروڑ مسلمان تھرتھرکانپ رہے ہیں کہ جانوروں، ان کے گوشت کی خریدوفروخت اور چمڑے وغیرہ سے وابستہ لاکھوں لوگوں کا روزگار تو ہاتھ سے جائے گا ہی ان کے ساتھ ہی ان کی شامت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔گزشتہ ہفتے جب یہ قانون ریاست مہاراشٹر میں پاس ہوا تو ریاست بھر میں ہندوئوں نے خوب جشن منایا۔ہندوئوں کی ” گائے پریمی” تنظیموں نے ڈھول بجائے، مٹھائیاں تقسیم کیں، گائے اور گائے کی نسل کے جانوروں کو بھی باہر سڑکوں اور چوکوں چوراہوں میںلا کر ان کی پوجا کی اور گھنٹوں نعرے لگائے۔دوسری طرف بھارتی پولیس بھی اس سلسلے میں خوب مستعد ہے کہ اب ایک نئے انداز سے گائے کو بچانے کے نام پربھی مسلمانوں کو کاٹا جائے گا۔
ہر سال 23مارچ جب بھی آتا ہے تو قرارداد پاکستان 1940ء اور پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ کی یادیں ایک بار پھر ہمیں گھیرنا شروع کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ پاک سرزمین پر آزادی کی نعمت جو ہمیں ہندوئوں سے چھٹکارا پا کرمیسر آئی ہے،اس کی قدروقیمت بھی خوب معلوم ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ اگر ہم بھی اس ہندو کے ظلم و جبر میں جکڑے ہوتے تو ہمارا حشر بھی قطعی طور پر اس سے کم نہ ہوتا۔
تحریر : علی عمران شاہین