تحریر : وسیم رضا
شکست و حزیمت کی طویل داستان ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کل قومی ٹیم نے چھٹی بار ورلڈ کپ میں روائتی مخالف بھارت کے ہاتھوں ہار کی دھول چاٹی، وزیر بجلی عابد شیر علی سہی کیہ رہے تھے کہ ورلڈ کپ آتے ہی کرکٹ مافیا سرگرم ہو جاتا ہے۔ اور قوم کو شرمندگی سے دوچار کر کے دم لیتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کیلئے جتنا مال و اسباب خرچ کیا جاتا ہے اگر اس رقم کو کبڈی ، ہاکی ، ا سنوکر، اور باڈی بلڈنگ پر خرچ کیا جاتا تو آج پوری قوم کے سر ندامت سے جھکے ہونے کی بجائے فخر سے بلند نظر آتے۔ ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں اور کتنا وقت لگے گا کہ کرکٹ دوسرے کھیلوں کی طر ح محض ایک کھیل ہے یوں بھی کرکٹ ہمارا قومی کھیل تو نہیں۔ کرکٹ کے بعض کھلاڑیوں نے اپنی مکروہ حرکات سے پاکستان کو پوری دنیا میں جتنا بدنام کیا ہے
کسی دوسرے پاکستانی کھیل کے کسی کھلاڑی نے اتنا ہر گز نہیں کیا ۔ کر کٹ کے کھلاڑی دوسرے کھیلوں کی نسبت کہیں زیادہ پیسہ مختصر عرصے میں کما لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ملکی وقار کے بارے میں با لکل متفکر نظر نہیں آتے۔ انہیں گیم کمبی نیشن تک کا احساس نہیں۔ کوئی مصباح سے پوچھے آپ کے سب سے زیادہ سکور بنانے کا ٹیم یا قوم کوکوئی ایک فائدہ ہے تو بتا دیں؟ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، مان لیا ، مگر کوئی یہ بھی تو سمجھائے کہ کہ یہ کیسا کھیل ہے کہ جس میں ہر بار ہار، شرمندگی، ناکامی اور شکست ہمارے ہی جصے میں آئے اور جیت کا تاج کوئی دوسرا اپنے سر پر سجائے چلتا بنے۔
یہ کیا وطیرہ ہے کہ سال ہا سال مخالف کے سامنے آنے کا انتظار کیا جائے ، پھر کھیل کی بنیادی روح کے منافی یعنی پراپیگنڈہ کر کے بھولے بھالے اور محب وطن عوام کے جزبات سے کھیلا جائے اور انھیں کرکٹ کے موزی مرض میں مبتلا کر دیا جائے اور جب نتائج اپنے حق میں نہ آئیں تو انھیں نئے خواب بن کر تھما دیئے جائیں ، اس سلسلے میں کرکٹ کے بعض کھلاڑیوں ،الیکٹرانک میڈیا اور زرائع ابلاگ کا کردار غیر زمہ دارانہ ہی نہیں مجرمانہ حد تک سفاکانہ بھی ہے۔
پاکستان کی قومی کر کٹ ٹیم کی چھٹی بار مسلسل ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں زلت آمیز شکست کو محض یہ کہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اگر یہ ہار اتنی ہی غیر اہم ہے تو پھر اس میچ کو ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف کیوں قرار دیا گیا تھا ؟ قوم کو کرکٹ بخار میں کیوں مبتلا کیا گیا؟ بھارت کی ٹیم کو ایک دشمن ٹیم کے طور پر کیوں پوٹریٹ کیا گیا ؟ اور اگر یہ میچ ہماری عزت، بے عزتی اور انا کا معاملہ تھا تو اس کیلئے چار سال پہلے ہی تیاری کیوں نہ کی گئی، با آسانی جیت کی بڑ ھکیں کیوں ماری گئیں ، قوم کا مورال تباہ کرنے والوں کے احتساب کا ہمارے ہاں رواج ہی نہیں، نتیجہ آپ خود دیکھ لیں ، ہار کے بعد نہ کو ئی تنزلی، نہ تبادلہ نہ استعفی، جتنا زور قوم کو دن رات جوش چڑھانے پر لگایا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ اب جوش اتارنے پر صرف کیا جارہا ہے، پاکستانی عوام کے ساتھ ہونے والی اس جزباتی بلیک میلنگ کا کھیل اب بند ہونا چایئے۔ کرکٹ کھلاڑی شاہینوں کا کھیل ہے اس میں سیاسی کبوتروں اور نجومی چڑیوں کا دا خلہ سختی سے بند کیا جائے۔
مزکورہ میچ میں خراب فیلڈنگ،خراب بیٹنگ اور دو اہم کیچ چھوڑنا کئی شہبات کو جنم دیتاہے، عامر س سہیل نے پہلے ہی کہ دیا تھا سعید اجمل کے باولنگ سٹائل کو بھارت میں کلیئر کروانے کے بدلے یہ اہم میچ بھارت کو میچ شروع ہونے سے پہلے ہی شکریہ کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے والے سخت جان ر دشمن سے عبرت ناک شکست کا ایک نیا داغ اپنے ماتھے پر سجانے کے بعد اپنی غلطیوں کا اعتراف اور انکا تجزیہ کرنے کی بجائے اب کہا جا رہا ہے کہ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے گئی ہے، صرف بھارت سے کھیلنے نہیں، اور یہ کہ ابھی بہت میچ باقی ہیں اگر یہ بات ہے تو بھارت کو تر نوالہ قرار دے کر بعد میں ہمیشہ کی طرح خود تر نوالہ بن جانے سے قوم اور ٹیم کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر کی دنیا میں جو تا ثر پیدا ہوا اسکا زمہ دار کون ہے؟
بھارت سے دوستی اور اور پر امن تعلقات خواہش بہت اچھی ہے لیکن جب پاکستانی تاجر، سیاستدان، سائنسدان اور پاک فوج بھارت سے ہر لمحہ نبرد آزما ہیں تو کرکٹ ٹیم اس جنگ میں ایک پیج پر موجود کیوں نہیں؟ کر کٹ کے معتبروں سے ایک سوال اور بھی ہے کہ وہ جو پٹاخے پچھلے چار سال سے جمع کئے جارہے تھے اب ان کا کیا کریں، ان کو دل بہلانے کی خاطر شادہ بیاہ کی کسی تقریب میں پھوڑ دیں یا دل سے لگا کر اگلی بار کے لئے سنبھا ل رکھیں ؟
تحریر : وسیم رضا