تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ہم اگر چاہیں تو کسی خارش زدہ کُتّے کے مُنہ پر نریندر مودی کا چہرہ لگا کر اُس کے اوپر وہی پگڑی پہنا سکتے ہیں جسے مودی نے پہن کر بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تھی ، لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کیونکہ یہ اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے اور ایسی گھٹیا حرکت کسی ہندو بنئیے کو تو زیب دے سکتی ہے ، مسلمان کو نہیں۔۔۔۔ ہم اگر چاہیں تو بھارتی ”ترنگے” کو کسی گدھے کی دُم کے نیچے بندھا دکھا سکتے ہیں تاکہ اُس کے فُضلے سے سڑک خراب نہ ہو لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کہ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیاء ہوتی ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ۔۔۔۔خیر چھوڑئیے چاہنے کو تو بہت کچھ چاہا جا سکتا ہے اور کیا بھی بہت کچھ جا سکتا ہے لیکن ”کِسے دماغ کہ ہو دُو بدو کمینے سے”۔ سیانے کہتے ہیں کہ کُتے بھونکتے رہتے ہیں اور انسان گزر جاتے ہیں ، کوئی انسان کُتّے کو اپنے اوپر بھونکتا دیکھ کر خود بھی بھونکنے نہیں لگتا۔ ویسے بھی
نہیں رہتا مزاجِ سفلہ ہرگز ایک حالت پر
بلندی کا ببولے کی مآلِ کار پستی ہے
بھارت کے ایک گھٹیا سے میگزین کے سرِورق پر ہمارے عظیم سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی نامناسب تصویر بناکر اپنے انتہائی گھٹیا پَن کا ثبوت دیا جس سے کم ازکم یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہمارے سپہ سالار بھارت کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اور اُس کی راتوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہیں۔ جنرل صاحب نے گلگت میں سی پیک کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” مودی ہو یا ”را” یا کوئی اور دشمن، ہم اِن سب کی سازشوں اور چالوں کو اچھی طرح سمجھ چکے، سب سُن لیں پاک فوج ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کسی حد سے بھی آگے تک جائے گی۔ قوم کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ملک اور ملکی سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی ہر صورت اور ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ ملکی سرحدوں کی حفاظت اور اب سی پیک کی سکیورٹی بھی فوج کرے گی ۔ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم صحیح سمت جا رہے ہیں”۔ جنرل صاحب کے اِس خطاب کے بعد کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جو کچھ کہا ، بالکل درست کہا البتہ اُنہیں مودی کانام لے کر نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ جنرل صاحب نے جتنا کہا ، کم کہا اور اخلاق کے دائرے میں کہا۔ آخر ہم کب تک مصلحتوں کی ”بُکل” مارے بیٹھے رہیں گے۔ مودی تو جگہ جگہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اگر جنرل صاحب نے اُس کا نام لے کر اُسے للکارا ہے تو اُنہوں نے ایسا کرکے پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اُنہیں بدترین دشمن کو ایسا ہی بہترین جواب دینا چاہیے تھا۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ کہہ کر ہماری زباں بندی کر دی ہے ” آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پوزیشن واضح کردی گئی تھی اِس لیے اِس پر مفروضے قائم کرنے سے گریز کیا جائے”۔ اگر ڈی جی صاحب کا یہ حکم نامہ نہ آیا ہوتا تو ہم اپنے سپہ سالار سے دست بستہ عرض کرتے کہ صاحب ! جب مودی کو للکارا ہے تو پھر بیچ منجدھار ساتھ چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟۔ آپ نے ضربِ عضب شروع کیا تو کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ بجا کہ آپ نے دہشت گردوں کی جَڑ وں پر وار کیا ہے لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے کیونکہ دہشت گردوں کا سربراہ تو بھارت میں بیٹھا بڑھکیں لگا رہا ہے۔ آپ نے خود ہی کہا کہ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایسے میں توسیع لینا، نہ لینا تو بے معنی ہو جاتاہے کیونکہ یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے جسے آپ اور ہم نے مِل کر لڑنا ہے ، لیکن ہماری زبان بندی تو جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کر دی اِس لیے ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
اُدھر ہمارے وزیرِاعظم میاں نوازشریف آجکل طوفانی دَورے کر رہے ہیں۔وہ پورے ملک میں کھڑاک پہ کھڑاک کرتے چلے جا رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ اپنی بیماری سے مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ۔ گوادر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد اُنہوں نے فرمایا ”دہشت گردوںکی جان ختم ہوگئی، صرف دُم باقی رہ گئی ہے، اُسے بھی جلد کاٹ دیں گے”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا” اندرونی اور بیرونی طاقتیں بے نقاب ہو گئیں۔ بلوچستان امن کا گہوارہ بَن رہاہے۔ہم نے جو خواب 1991ء میں دیکھا تھا ، وہ اب پورا ہو رہاہے۔ گوادر جلد ملک کا جدیدترین شہر ہوگا اوربہت جلد چین سے ٹریفک گوادر آئے گی”۔ تسلیم کہ پاکستان کے طالبان نامی دہشت گردوں کا تقریباََ صفایا ہوچکا۔ اب وہ چوہوں کی طرح کونوں کھدروں میں چھپ کر کبھی کبھار بزدلانہ حملے کرکے اپنا وجود ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ دِن دور نہیں جب انشاء اللہ یہ” دُم” بھی کاٹ دی جائے گی لیکن پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کرکے آپ نے کسی اور کی دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے اور اب وہ پڑوس میں بیٹھا ہروقت ”ٹاؤں ٹاؤں” کرتا رہتاہے۔ ازراہِ کرم اپنی اولین فُرصت میں چین سے گوادر تک ٹریفک رواں کر دیجئے تاکہ اُس کی ٹاؤں ٹاؤں بند ہو سکے۔ خلیل جبران نے کہا ” جب میرا پیالہ آدھا بھرا ہوا تھا تو میں متواتر چیختا رہا لیکن جب پورا خالی ہوگیا تو مجھے سکون آگیا”۔ اسی طرح جتنی دیر تک اقتصادی راہداری آپریشنل نہیں ہو جاتی ”پڑوسی” بے چین ہی رہیںگے اور اُن کی” ٹاؤں ٹاؤں” سے طبیعت ”اوازار” ہوتی رہے گی۔
کالاشاہ کاکو میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا” حکومت جانے کی طوطافال نکالنے والے تیاری کریں ۔ وہ اگلا الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔ پنڈی کا ایک سیاستدان حکومت جانے کی مارچ ،جون اور اگست کی باتیں کرتا رہا ، ہم نے ساڑھے تین سال نکال لیے ، باقی بھی گزر جائیں گے ۔ آئندہ پانچ سال بھی حکومت ہماری ہی ہوگی”۔ ہم تو انہی کالموں میں راولپنڈی کے سیاستدان کو مشورے دے دے کرتھک بلکہ ”ہَپ” چکے کہ وہ لال حویلی کے سامنے پھَٹا لگا کر ”طوطافال” نکالنا شروع کر دیں ، کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیںلیکن فی الحال وہ اِس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں ۔ دراصل اُسے تحریکِ انصاف اور علامہ طاہرالقادری کی عوامی تحریک کے پلیٹ فارم دستیاب رہتے ہیں جہاں وہ ”جُماں جَنج نال” بَن کر خطاب کرتا رہتا ہے کیونکہ اُس کے اپنے پاس تو رَکشے کی سواریاں بھی نہیں۔ اِس کے علاوہ جب سے ہمارے شرارتی میڈیا کو الطاف حسین کی ”بڑھکیں ” دستیاب ہونا بند ہوئی ہیں ، اُس کا رُخ لال حویلی والے کی طرف ہو گیاہے ۔ ہمارے میڈیا کو اُس جیسے ایک آدھ بڑھک باز کی توہمیشہ ضرورت رہتی ہے، ریٹنگ کا سوال جو ٹھہرا۔ میاںصاحب اگر آمدہ الیکشن 2018ء میں اُس کا ”مَکوٹھَپ” دیں تو یقیناََ وہ ”طوطا فال” جیسے منافع بخش کاروبار کی طرف رجوع کرے گاجس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر